منتخب کردہ کالم

سمر قند اور بخارا کی سیر…عطا ء الحق قاسمی

سمر قند اور بخارا کی سیر…عطا ء الحق قاسمی
میں نے بہت عرصے سے تقریبات میں شرکت بہت کم کردی ہے، خصوصاً کسی شادی کی تقریب میں شرکت کو تو بالکل جی نہیں چاہتا کہ یہ کون سی میری اپنی شادی ہورہی ہوتی ہے۔ میں نے یہ بات اپنے دوست بھولے ڈنگر کو بتائی تو وہ ہنسا اور بولا ’’تم شادیوں میں زیادہ سے زیادہ شرکت کیا کرو، دوسروں کی شادی سے خوشی کشید کرلیا کرو، اسی عمر میں مفت کی خوشی اگر حاصل ہوتی ہے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دو‘‘ اور کچھ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کتابوں کی تقریبات کے حوالے سے بھی ہے، یہ تقریبات عموماً سہ پہر کو ہوتی ہیں، مگر کتابوں کی اکثریت کا معیار ایسا ہوتا ہے کہ تعریف میں جھوٹ بولنے کی گنجائش بھی بہت کم ہوتی ہے، چنانچہ میں اس معاملہ میں خاصاChoozyہوگیا ہوں، اور یہی وجہ ہے کہ جب کسی اچھی کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک ہوتا ہوں تو شادی کی طرح یہاں بھی یہی سوچ کر خوش ہوتا ہوں کہ کتاب میں نے لکھی ہے،بات یہ ہے کہ جب انسان خود شادی کرنےاور اچھی تحریر لکھنے کی عمر میں نہ رہے تو اسے اسی طرح اپنا رانجھا راضی کرلینا چاہئے۔
سو گزشتہ ہفتے جب مجھے برادرم ناصر ملک کا فون آیا کہ طاہر انور پاشا کے سفرنامہ’’ازبکستان‘‘ کی تقریب رونمائی میں آپ نے شرکت کرنا ہے تو میں نے کہا کہ برادرم پہلے کتاب تو بھیجیں، انہوں نے کتاب بھیجی، میں نے پڑھی اور تقریب میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ اس فوری رضامندی کی ایک وجہ تو کتاب کا اچھا ہونا اور دوسری وجہ ناصر ملک اور صاحب کتاب طاہر انور پاشا دونوں کا ’’پلسیا‘‘ ہونا بھی شامل تھا۔ ناصر ملک، حاضر سروس ہیں جبکہ پاشا صاحب ریٹائرڈ آئی جی ٹریفک پولیس ہیں، چنانچہ انکار کرنے کا فائدہ کوئی نہیں تھا، ایک دفعہ تونسہ شریف کے ایک مشاعرے میں ایک شاعر نے جب اپنی تیسری غزل سنانے کی کوشش کی تو ناظم مشاعرہ نے اسے روک دیا۔ وہ چپ چاپ اسٹیج سے اتر گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ واپس مشاعرہ گاہ میں آیا، اس کے ساتھ علاقے کا تھانیدار تھا، تھانیدار نے ناظم مشاعرہ کو مخاطب کیا اور کہا ’’ایس پی صاحب دا حکم اے کہ شاعر صاحب توں ڈو غزلاں ہور سنو‘‘(ایس پی صاحب کا حکم ہے کہ شاعر صاحب سے دو غزلیں اور سنی جائیں) سو میں نے وہ وقت آنے سے پہلے اپنی شرکت کنفرم کردی۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ تمہید لمبی ہورہی ہے اور اس بات پر بھی کہ یہ تمہید ابھی مزید لمبی ہونی ہے۔ بات یہ ہے کہ مجھے فوج سے وابستہ بڑے لکھاریوں کا علم تھا، جن میں سرفہرست شفیق الرحمان ،کرنل محمد خان اور سید ضمیر جعفری کے نام ہیں۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے لکھاری بھی میرے ذہن میں تھے، مثلاً مختار مسعود، منظور الٰہی شیخ، طارق محمود، ظفر محمود اور کئی دوسرے نام مگر پولیس سروس میں ذوالفقار احمد چیمہ کے علاوہ ایک عرصے تک کوئی دوسرا نام سامنے نہیں آیا تھا۔ اب چند برس پیشتر ناصر ملک ایک جید مزاح نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں اور چھاتے چلے جارہے ہیں اور خدا خدا کرکے اب پولیس سروس سے طاہر انور پاشا صاحب نے ادب کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ بچوں کی پیدائش میں وقفے کی تو سمجھ آتی ہے، مگر پولیس والوں کی نہ ویسے سمجھ آتی ہے اور نہ ان کے اس وقفے کی سمجھ آئی ہے۔ چلیں’’دیر آید درست آید‘‘ والے محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم اپنے نئے لکھاری کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب میں لگی لپٹی رکھے بغیر عرض کرتا ہوں کہ پاشا صاحب نے مجھے ایک دفعہ پھر ازبکستان کی سیر کرادی ہے، وہ یوں کہ میں دو دفعہ ازبکستان جاچکا ہوں اور یہ دورے ازبک رائٹرز ایسوسی ایشن کی دعوت پر تھے، مگر میں اپنی سیر و سیاحت کے اس عرصے میں وہ کچھ نہیں دیکھ سکا تھا جو پاشا صاحب نے اپنے اس سفر نامے میں مجھے دکھادیا ہے، بلکہ سچی بات پوچھیں تو لگتا ہے میں پہلی دفعہ پاشا صاحب کے ساتھ ازبکستان کی سیاحت کررہا ہوں، انہوں نے میری انگلی پکڑی ہوئی ہے اور وہ مجھے مختلف تاریخی مقامات کی سیر کرارہے ہیں اور ایک گائیڈ کی طرح مجھے ان مقامات اور شخصیات کی تاریخ بھی بتاتے جارہے ہیں، جہاں جہاں ہم ان کیساتھ جاتے ہیں۔ میں صرف ایک مثال دیتا ہوں اور وہ یہ کہ میں دو بار سمرقند میں امام بخاریؒ کے مزار پر حاضر ہوا ہوں، پہلی بار وہاں بس مزار تھا اور اس کے ساتھ ایک مسجد تھی۔ مزار پر فاتحہ خوانی کرنے والوں میں میں ، امجد اور یونس بٹ تھے، چوتھا زائر کوئی نہیں تھا، اور جہاں تک مسجد کا تعلق ہے وہاں ایک مقامی صاحب نظر آئے اور وہ بھی غالباً مسجد کے خادم کی حیثیت سے وہاں موجود تھے۔ دوسری مرتبہ صورتحال بہتر تھی، مگر کچھ بہت زیادہ فرق نہ تھا، لیکن پاشا صاحب نے تو کچھ اور ہی نظارہ دکھایا، مزار تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے اتنا کچھ بتادیا اور دکھادیا جو میں نہ سن سکا تھا اور نہ دیکھ پایا تھا۔ مزار پر زائرین کا ہجوم تھا اور اتنا کہ اب مزارمیں انٹری ٹکٹ کے ذریعے تھی۔ اسی طرح امام بخاریؒ کے بارے میں انہوں اتنا کچھ بتادیا ، ان کے بچپن سے انتقال تک کا سفر حصول علم کے لئے ان کی لگن، ان کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے ان کے ہم عصروں میں حسد کے جذبات اور پھر اس حوالے سے تکلیفات اٹھانا ، یہ سب کچھ میرے لئے نیا تھا۔ انہوں نے مجھ ایسے ان پڑھ قاری کو امیر تیمور اور دوسرے مشاہیر کے بارے میں بھی اسی طرح ایجوکیٹ کیا۔ عام حالات میں میرے لئے اتنا ڈھیر سارا علم ہضم کرنا ممکن نہیں ہوتا،مجھے کھٹے ڈکار آنا شروع ہوجاتے ہیں اور میں ایسی صورتحال میں دم دبا کر وہاں سے بھاگ جاتا ہوں، مگر پاشا صاحب نے ایک اچھے داستان گوکی طرح مجھے کہیں بھی بور نہیں ہونے دیا، چنانچہ میں ا ن کی سادہ اور سلیس نثر کے چکر میں سب کچھ پڑھتا ہی چلا گیا۔ پاشا صاحب کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں ازبکستان پر اتھارٹی ہوں، جن صاحب کو اس حوالے سے کچھ پوچھنا ہو، وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں بلکہ خود پاشا صاحب بھی ازبکستان کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہشمند ہوں تو وہ بلا جھجک مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو علم پر سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔