منتخب کردہ کالم

سول و فوجی قیادت ، ایک صفحے پر؟ …عارف نظامی

چند دنوں سے یہ خبر گرم ہے کہ سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد پنجاب میں آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے سول اور فوجی قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ پہلے تو عین ایسٹر کے روز ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں جب فوج نے پنجاب میںآپریشن کرنے کا عندیہ دیا تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس کی سختی سے مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ایسے موقع پر جب دہشت گردمذہب کی غلط تاویل کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں‘ ہماری قیادت کو اقتدار کے جھمیلوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ 27مارچ کو لاہور میںہونے والے سانحے کے بعد فوجی قیادت کے اجلاس میں فوری طور پر پنجاب میںآپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف بھاگم بھاگ لاہور تشریف لائے اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی معیت میں اس سانحے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اسی دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ ٹویٹ سب چینلز کی شہ سرخی بن کر سامنے آیا کہ”آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حکم پر‘‘ پنجاب میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے وزراء دعویٰ کر رہے تھے کہ آ پریشن تو پہلے ہی جاری ہے۔ اس پر باخبر لوگ فوراً بھانپ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے کیونکہ قبل ازیں جب بھی دہشت گردی کی کوئی سنگین واردات ہوتی تو وزیراعظم فوراً اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کرتے جس میں آرمی چیف کے علاوہ آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی کے سربراہان بھی شریک ہوتے ۔ لیکن سانحہ گلشن اقبال کے بعد اس قسم کاکوئی اجلاس نہیں بلا یاگیا بلکہ فوجی اور سویلین قیادت نے الگ الگ اجلاس کیے۔ اسی روز اعلان کیا گیا کہ شام کو وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے۔ قوم اور بالخصوص اہلیان لاہور توقع کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف دہشت گردی کے حوالے سے کوئی اعلان کریں گے ‘ اُن کے زخموں پر پھاہارکھیں گے اور ان کا حوصلہ بلند کرنے کی سعی کریں گے لیکن وزیراعظم نے تاریخ کے اپنے مختصر ترین خطاب میں ماسوائے دہشت گردی کے بارے میں رسمی باتوںکے کچھ نہ کہا۔ وہ کچھ بجھے بجھے اور اکھڑے اکھڑے سے لگ رہے تھے۔
شاید میاں صاحب نے دانستہ طور پر ایک نیا اور مخصوص قسم کا انداز حکمرانی اپنالیا ہے ‘جس کے تحت وہ اکثر معاملات پر لب کشائی کرنے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیوکے معاملہ میں بھی تادم تحریر انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ دیگر اہم معاملات پر بھی وہ خاموش رہنے میں ہی مصلحت سمجھتے ہیں۔ میڈیا سے ان کا انٹرایکشن نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کبھی میڈیا سے بات کرنا بھی ہو تو محض اپنے چند چہیتے اخبار نویسوں کو بلا کر بات کر لی جاتی ہے۔ بطور وزیراعظم ‘پارلیمنٹ جو ان کے اقتدار کا منبع ہے ‘کے اجلاس میں شرکت کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ‘لیکن وہ شاذ ہی قومی اسمبلی کا رخ کرتے ہیں اور کبھی راستہ بھول کر چلے بھی جائیں تو چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ مروجہ روایت کے مطابق وفاقی کابینہ کے ہفتہ واراجلاس ہوتے تھے ‘اب مہینوں کا بینہ کا اجلاس بلا یا ہی نہیں جاتا۔ بعض ناقدین کے مطابق میاں نواز شریف جس تواتر سے غیر ملکی دورے کرتے ہیں انھیں کابینہ کے اجلاس بلانے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ویسے بھی جب فیصلے بعض سیاسی اور بیوروکریٹک نورتنوںکے ذریعے کیے جائیں تو کابینہ کے اجلاس بلانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ 31 مارچ کو واشنگٹن میں نیوکلیر سکیورٹی سمٹ میں شرکت کے لیے بھی میاں صاحب کو تشریف لے جانا تھا ‘لیکن آخری مرحلے پر انھوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا اور معاون خصوصی طارق فاطمی کوامریکہ بھجوا دیا۔ بعض باخبر لوگوں کا کہناہے کہ صدر اوباما اس بات پر کچھ برہم بھی ہوئے لیکن وائٹ ہاوس کے ترجمان کے مطابق صدر اوباما نے میاں نواز شریف سے فون پر گفتگو کے دوران اس ضمن میں کسی ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔ عجیب بات ہے کہ میاں صاحب فضول قسم کے دوروں پر تو جاتے رہتے ہیں لیکن یہ دورہ واقعی پاکستان کے لیے بہت اہم تھا اور اکثر تجزیہ کاروں کے مطابق میاں صاحب کو نیوکلیئر سمٹ میں ہرحال میں شرکت کرنا چاہیے تھی۔ اپوزیشن اکثر وزیراعظم کے دوروں پر ان کے لتے لیتی رہتی ہے جن پر وقت کے علاوہ قومی خزانے کا ضیا ع ہوتا ہے۔ لیکن سمٹ کے بارے میں تو تحریک انصاف کے رہنما ، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اصرار کیا کہ میاں صاحب کو ہرحال میں اس اجلاس میں جانا چاہیے تھا۔ پاکستان ایک بڑی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف یہ پراپیگنڈا تسلسل سے کیا جاتا ہے کہ اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں اور دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔ یقینا بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی جو سمٹ میں موجود تھے ۔پاکستان کے بارے میں خیر کاکلمہ تو نہیں کہیں گے ۔لیکن مقام شکر ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستانی حکومتوں نے اپنے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ ترین بنانے کے لیے مسلسل پاپڑ بیلے ہیں اور کسی حد تک امریکہ بھی ان اقدامات سے مطمئن ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی مروجہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق بخوبی حفاظت کر رہا ہے۔
نہ جانے کیوں میاں صاحب نے واشنگٹن نہ جانے کا فیصلہ کیا؟ ماضی میں میاں صاحب کی کسی فوجی سربراہ سے نہیں نبھی ، کیا جنرل راحیل شریف جواسی سال نومبر میں ریٹائر ہو رہے اورمدت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں، سے بھی تعلقات کار میں خرابی پیدا ہو چکی ہے اور کیا اس عدم تحفظ کی بنا پر ہی انھوں نے اس مرحلے پر امریکہ نہ جانے کا فیصلہ کیا؟ وزیراعظم کا سانحہ لاہور کے گھنٹوں بعد یہ دعویٰ کرنا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، قوم کے ساتھ مذاق ہی سمجھا گیا ۔ نہ جانے کیوں پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کی مزاحمت کی گئی۔ حالانکہ کراچی میں رینجرز کے ایسے آپریشن کی میاں صاحب نے خود منظوری دی اور سندھ حکومت اس میں تعاون بھی کر رہی ہے۔ بلوچستان تو عملی طور پر فوج اور ایجنسیوںکے ہی کنٹرول میں ہے۔ قبائلی علاقوں میں توآپریشن ویسے ہی جاری ہے لیکن پنجاب کے بارے میں میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو ، چہ معنی دارد؟غالباً حکومت نے اب اپنی ہٹ دھرمی پر مبنی اس پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ کرلیا ہے اور شایداسی بنا پر وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی جوڑی جمعرات کو جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کے پاس حاضر ہو گئی۔ یہ سانحہ لاہور کے بعد فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان پہلا رابطہ تھا۔ چوہدری نثار حسب عادت میڈیا پر برہم ہیں کہ اُن سے پوچھے بغیر ملاقات کی خبر کیوں دی گئی ‘اس کے باوجود اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے اس میٹنگ میں ہونے والی گفتگو اور فیصلے کے بارے میں لب کشائی سے گریز کیا۔ بعدازاں وزیرخزانہ اسحق ڈار جو عملاً وزیراعظم نظرآتے ہیں نے بھی آرمی چیف سے ملاقات کی۔بہرحال ان رابطوں کے نتیجے میں امید ہے کہ فوجی قیادت اور حکومت اس معاملے میں ایک صفحے پر آ گئی ہو گی۔تاریخ کے حوالے سے واضح رہے کہ یہ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ہی تھے جو جنرل پرویز مشرف سے اختلافات ختم کرنے کے لیے ان کے پاس 1999ء میں حاضر ہوئے تھے اور انھیں یقین دلایا تھا کہ سویلین حکومت فوجی قیادت کے ساتھ کسی قسم کا تناؤ نہیں چاہتی ۔ انہیں یقین دلایا گیا کہ آپ اطمینان سے سری لنکا کا دورہ کریں اور پھر جو کچھ ہوا ،یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔مجھے یاد ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کوفوجی ٹیک اوور کے ٹھیک ایک سال بعد گورنر ہاؤس لاہور میں جب مشرف سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ کا شہباز شریف کے لیے سافٹ کارنر ہے تو انھوں نے بڑی برہمی سے کہا کہ شہباز شریف اور نثارعلی خان میرے پاس تشریف لائے ‘ایک نے کہا کہ وضو سے ہوں ‘جھوٹ نہیں بولوں گا اور دوسرے نے کہا کہ یہ رزق سامنے ہے ‘غلط بات نہیں کرونگا ‘لیکن بعد میں مجھے دھوکہ دیا گیا۔انہوں نے بڑے تضحیک آمیز انداز میں کہا کہ یہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ میرے علم کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت میاں شہباز شریف نے صدق دل سے فوجی اور سویلین قیادت کے اختلافات دور کرنے کی کوشش کی تاہم برادرِ اکبر نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف اقدام کے حوالے سے انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیاتھا۔ جب 12 اکتوبر 1999ء کو فوج میاں نواز شریف کو گرفتار کرنے کے لیے آئی تو میاں شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس میں اپنے بیڈ روم میں سو رہے تھے ‘ان کے لیے بھی ‘کُو‘کی خبر اتنی ہی حیران کن تھی جتنی کہ قوم کے لیے۔ اللہ کرے ‘ اب میاں نواز شریف نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہو اور بقائے باہمی کی پالیسی اپناتے ہوئے اپنے اقتدار کی باقی مدت بھی پوری کرلیں ‘ لیکن اس کے لیے انہیں اپنے انداز حکمرانی اور طور طریقوں میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی مگرکیا وہ ایسا کریں گے؟