منتخب کردہ کالم

سو کروڑ ہندو اور بیس کروڑ مسلمان .. منیر احمد منیر

سو کروڑ ہندو اور بیس کروڑ مسلمان .. منیر احمد منیر

بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ممبر اسمبلی برج بھوشن عرف گڈو راجپوت نے کہا ہے: ”ہندوستان مسلمانوں کا ملک نہیں ہے۔ اگر 100 کروڑ ہندو اکٹھے ہو جائیں تو 20 کروڑ مسلمانوں کو ملک سے بھگا دیں گے….. مسلمانوں کو ناصرف حج پر جانے سے روکا جائے بلکہ حج سبسڈی بھی ختم ہونی چاہیے….. بھارت میں رام مندر ضرور بن کر رہے گا۔ اگر مسلمانوں نے مندر بنانے میں رکاوٹ پیدا کی تو ہم انہیں بھی مکہ اور مدینہ نہیں جانے دیں گے‘‘۔
گڈو راجپوت نے یہ نئی بات نہیں کی۔ مسلمانوں کو ہندوستان سے بھگا دینے کا تصور اسی دور میں پختہ ہو گیا تھا جب انہوں نے ہندوستان میں قدم جمانا شروع کیے۔ ہندو راجاؤں، حکمرانوں، جاگیرداروں اور برہمنوں نے طے کیا کہ مسلمان جس راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں انہیں اسی راستے سے واپس بھیجا جائے۔ اس سازش میں وہ لوگ بھی موثر کردار ادا کرنے لگے جنہیں مسلمان حکمرانوں نے اپنی روایتی رواداری کے تحت اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا۔ اس میں وہ لوگ بھی خاص طور پر پیش پیش رہے جو اوپری دل سے مسلمان ہو کر دربار میں رسائی پاتے۔ خاندانِ غلاماں کا سلطان غیاث الدین بلبن (1266ء- 1286ء) زبردست ذی فہم، دانا اور منتظم گزرا ہے۔ اس نے ایسی درباری سازشوں کے توڑ میں نومسلموں کے لیے اعلیٰ عہدوں پر پابندی لگا دی۔ اس کے نتائج شاندار نکلے۔ آج ہمارے ہاں بعض نام نہاد مورخ اور محقق ایسے مسلمان حکمرانوں پر الزام دھرتے ہیں کہ انہوں نے نَومسلموں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا۔ یہ لوگ یا تو ان حقائق سے نابلد ہیں یا پھر جان بوجھ کر ایسے شوشے چھوڑتے ہیں۔
بہرحال، ”ہندوستان مسلمانوں کا ملک نہیں‘‘ یہ بی جے پی کا نہیں، آٹھ سو برس قبل کا گڈو راجپوت بھی یہی دہائی دیتا رہا تھا۔ اس تصور کو سقوطِ قرطبہ و غرناطہ سے تقویت ملی۔ غرناطہ کے آخری مسلمان حکمران شاہ ابو عبداللہ نے فرڈیننڈ دوم اور ملکہ ایزابیلا کے آگے سرنڈر کرتے وقت قابض مسیحی حکمرانوں سے مسلمانوں کے دین، زبان اور ثقافت وغیرہ کی حفاظت کا جو عہد لیا تھا وہ انہوں نے ہوا سے اڑا دیا۔ عربی بولنے پر پابندی، مساجد میں جانا ممنوع، نماز جمعہ کے لیے مسلمانوں میں سفید کپڑے پہننے کا رواج تھا، اس پر پابندی۔ مسلمانوں کے سامنے قابض حکمرانوں نے یہ چوائس رکھی: عیسائی مذہب اختیار کر لیں، یا پھر ملک چھوڑ دیں۔ بعد میں اس میں یہ اضافہ ہوا، نہیں تو موت کو گلے لگانے کے لیے تیار رہیں۔ جو ڈٹ گئے، انہیں بڑے بھیانک طریقوں سے قتل کیا جاتا: جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا، زندہ جلا دیا جاتا، اذیتیں دے دے کر ہلاک کیا جاتا۔ جو مراکشی مسلمان وہاں رہ گئے اور جان بچانے کی خاطر اوپری دل سے عیسائی ہوئے، جب یہ راز افشا ہوتا تو انہیں زندہ جلا دیا جاتا۔ اور یہ سلسلہ بہت بعد تک جاری رہا۔ مثلاً، غرناطہ کے پانچ بڑے اور اہم گرجا گھروں کے پادری‘ جو اوپری دل سے عیسائی تھے لیکن اصلاً مسلمان‘ سقوط کے 236 برس بعد، 1728ء میں، جب راز کھلا تو انہیں زندہ جلا دیا گیا۔
انگریز کے ہندوستان پر قبضے اور اس قبضے کے فوری بعد ہندوؤں کو نوازنے اور مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس اکثریت نے ہندوستان کو مسلمانوں کے لیے سپین بنانے کے عہد پر عملدرآمد کی باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس سلسلے میں وہ مسلمان حکمرانوں کی رواداری بھول گئے۔ اپنے مردہ ہیروز زندہ کر لائے جن میں شیواجی بھی تھا۔ ”ہندو راج کے منصوبے‘‘ کے مصنف ملک فضل حسین نے ایک صاف گو اور راستباز ہندو کا بیان نقل کیا ہے جس میں وہ کہتا ہے: ”تین سو سال گزر چکنے کے بعد آج دفعتاً ہندوؤں کو خیال آیا ہے کہ شیواجی ایک عظیم الشان انسان تھا، جس کے نقشِ قدم پر جاتی کو چلنا چاہیے….. شیوا جی کو جو ہندو اتنی عزت دے رہے ہیں‘ تو اس کی وجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ سخت متعصب اور مذہب اسلام کا شدید دشمن تھا…..‘‘۔ شیواجی راجہ جے سنگھ والی ٔ جے پور کو لکھتا ہے: ”میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ افسوس صد ہزار افسوس کہ یہ تلوار مجھے ایک اور ہی مہم کے لیے میان سے نکالنی پڑی۔ اسے مسلمانوں کے سر پر بجلی بن کر گرنا چاہیے تھا جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ جنہیں انصاف کرنا آتا ہے۔ میری بادلوں کی طرح گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ خونیں مینہہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سارے مسلمان اس سیلابِ خون میں بہہ جائیں گے۔ اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا‘‘۔(ص:8)۔
1936ء‘ کانگریس کا فیض پور اجلاس ہوا۔ دروازے کسی مسلمان سے نہیں ہندو مرہٹوں سے منسوب کیے گئے۔ مین دروازہ شیوا جی کے نام پر تھا۔ اس میں سے گزر کر پنڈت جواہر لال نہرو کی ہندو احیا پرستی نے جوش مارا اور وہ پکار اٹھے: ”آج ہندوستان میں دو طاقتیں ہیں، ایک کانگریس جو ہندوستانی قوم پرستی کی نمائندہ ہے اور دوسری برطانوی حکومت۔ ان کے علاوہ سب کو کسی ایک کے ساتھ رہنا پڑے گا‘‘۔
قائد اعظمؒ نے اس حقیقت کی نشاندہی کر کے نہرو کا غرور خاک میں ملایا کہ ”ہندوستان میں ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ دس کروڑ مسلمان ہیں‘‘۔
جو کہتے ہیں، دو قومی نظریہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، انہیں ان حقائق پر غور کرنا چاہیے۔ نہرو کے متعصبانہ بیان کی تکمیل گاندھی جی نے یہ کہہ کر کر دی: ”سوراجیہ (آزادی) کے چاہے کتنے ہی معنی لوگوں کو بتاؤں پھر بھی میرے نزدیک سوراجیہ کا ایک ہی معنی ہے، اور وہ ہے رام راجیہ‘‘۔ (پرتاپ،27 مارچ 1937۔ ص:2)ـ۔
برج بھوشن عرف گڈو راجپوت نے قطعاً کوئی نئی بات نہیں کی۔ ان کے مہاتما، مسٹر گاندھی کے بھی یہی خیالات و عزائم تھے، جب وہ اپنے اخبار ”ینگ انڈیا‘‘ میں لکھتے ہیں: ”مسلمان یا تو عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں، یا ہمیں سے جدا کیے ہوئے افراد۔ اگر ہم اپنا وقار رکھنا چاہتے ہیں تو تین علاج ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں اسلام سے ہٹا کر اپنے دھرم میں واپس لایا جائے۔ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو ان کے آبائی وطن میں لوٹا دیا جائے۔ اور اگر یہ بھی دشوار ہو تو ان کو ہندوستان میں غلام بنا کر رکھا جائے‘‘۔
شُدھی، مسلمانوں کو ہندو بنانا اور سنگھٹن، مسلمانوں کو نابود کرنا‘ یہ ہندوانہ تحریکیں گاندھی جی اور ہندو بنیاد پرستانہ سوچ کا حاصل تھیں۔ سنگھٹن کے اغراض و مقاصد میں یہ بھی تھا کہ جب انگریز ملک چھوڑ جائیں تو یہاں ہندوراج قائم کیا جائے۔ مسلمانوں کو مسجدیں بھی نہ بنانے دی جائیں۔ مسلمانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ مکہ اور مدینہ کا خیال ترک کر دیں۔ عربی، فارسی اور اردو کو ملک سے نابود کر دیا جائے اور ان کے بجائے مسلمان ہندی اور سنسکرت پڑھیں۔ اسلامی تہذیب اور تمدن کو بھی ملیامیٹ کر دیا جائے۔ مسلمانوں کو اسلامی ممالک سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھنے دیا جائے۔ تمام مسجدوں کو مندر بنا لیا جائے تاکہ ان پر اوم کا جھنڈا لہرائے۔ تمام مسلمانوں کو شُدھ (ہندو) کر لیا جائے۔ جو مسلمان شدھ نہ ہوں انہیں ذلیل کر کے رکھا جائے۔ اگر وہ ذلیل اور غلام بن کر نہ رہیں تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔ افغانستان فتح کر کے اس ملک کے باشندوں کو بھی شدھ (ہندو) کر لیا جائے۔ مکہ اور مدینہ پر بھی اوم کا جھنڈا گاڑا جائے۔ وغیرہ۔
آج بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے، کل کی ہندو قیادت گاندھی اور نہرو اور آج کے نریندر مودی اور گڈو راجپوت کے خیالات اور ارادوں میں کوئی فرق ہے؟ چین کے سرکاری اخبار ”گلوبل ٹائمز‘‘ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے درست لکھا ہے کہ ”ہندو قوم پرست پالیسیوں کے نتیجے میں آج نئی دہلی میں ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور چین کے ساتھ سخت پالیسی اختیار کی گئی ہے اور سرحدوں پر کشیدگی بڑھائی جا رہی ہے‘‘۔