منتخب کردہ کالم

سپاہی روتے نہیں ہیں: عبدالقادر حسن

ہمارے دوست ایک کرنل صاحب تھے جو ہندو پاک جنگوں کے حوالے سے غازیوں، شہیدوں اور ان کے بچوں کے بارے میں لکھا کرتے تھے۔ اب بھی جنگوں والا موسم ہے اور ستمبر کو گزرے چند دن ہی ہوئے ہیں، جنگ ستمبر کی یادیں تازہ ہیں۔ ان دنوں میں کالج سے فارغ ہوا تھا، ہم تمام کزن اور دوست حجرے میں بیٹھ کر خبریں سنا کرتے تھے۔ ایک کرنل صاحب تھے جو جنگ کے بارے میں لکھا کرتے تھے۔ ستمبر کا مہینہ تھا ابھی یہ مہینہ گزرا ہے اور یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ ان دنوں میں کالج سے فارغ ہوا تھا اور ہم تمام کزن اور دوست حجرے میں بیٹھ کر خبریں سنا کرتے تھے۔ شکیل احمد کی پاٹ دار آواز ابھی تک ذہن میں گونج رہی ہے، آپ کے بھی ذہن میں محفوظ ہو گی۔

یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ شکیل احمد سے خبریں سنیں۔ آج رات ہمارے بمبار طیاروں نے جام نگر، جودھ پور‘ ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر تباہ کن بمباری کی۔ انھوں نے نیچی پروازیں کر کے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔ جب ہمارے بمبار طیارے واپس آ رہے تھے تو ان اڈوں پر آگ کے شعلے بھڑکتے دیکھے گئے۔ یہ تو تمہید تھی، اب کرنل اطہر صاحب کا ستمبر 65ء کے حوالے سے چھپا ہوا ایک مضمون ذہن میں آ گیا ہے جو ارسال خدمت ہے، انشاء اللہ ایمان تازہ کر دے گا۔

آپ کا قاری

نصرت بیگ، شاہ پور تحصیل حضرو ضلع اٹک

آج کے اخبار میں دو سطری خبر تھی کہ میجر جنرل(ر)… سی ایم ایچ پشاور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے (یہ خبر میں نے بھی پڑھی تھی) کسی کو کیا پتہ کتنا عظیم سپاہی، کتنا مخلص پاکستانی اور کتنا عظیم قائداعظم کا شیدائی دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ میں نیا نیا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کے آیا تھا۔ خوش قسمتی سے فرسٹ پی ایم اے لانگ کورس کے لیے میری سلیکشن ہو گئی۔

ٹریننگ کے لیے پی ایم اے کاکول رپورٹ کی۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا ، بے سروسامانی کا عالم مگر کیڈٹس سے لے کر تربیتی عملہ اور کمانڈنٹ تک ہر ایک کے دل میں پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن تھا۔ چند دن انتظامی امور میں لگے اور کمپنیاں تشکیل پائیں۔ یہی میجر جنرل اس وقت لیفٹیننٹ کرنل میرے کمپنی کمانڈر مقرر ہوئے، اتفاق سے یہ بھی علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ تربیت کا جانگسل عمل شروع ہو گیا۔

کرنل صاحب کبھی کبھار اپنے بنگلے پر ہم علی گرین کیڈٹس کو شام کی چائے پر بلا لیا کرتے تھے۔ وہی علی گڑھ والا ماحول زندہ ہو جاتا ہم کرنل صاحب کی بھی کبھی کبھی ٹانگ کھینچ دیتے جس سے وہ بہت محظوظ ہوتے۔ کچھ عرصہ بعد کرنل صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بچہ دیا جس کا نام انھوں نے قائداعظم کے ساتھ اظہار عقیدت میں محمد علی رکھا۔ محمد علی کی شکل میں ہم کو ایک کھلونا مل گیا۔ میں جب اسے اٹھاتا تو اس کے ننھے منے ہاتھوں کا معصوم لمس اپنے چہرے پر ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور ہماری پاسنگ آؤٹ آ گئی۔ اس خوشی میں کرنل صاحب نے اپنے بنگلے پر ہم علی گرین کی ہلکی سی پارٹی کی۔ محمد علی میری پی کیپ سے خوب کھیلا۔ جب ہم رخصت ہونے لگے تو کرنل صاحب نے مجھے فرمایا اطہر ارے یہ کیا؟ میری آنکھوں کا دھوکا تھا یا کرنل صاحب کی آنکھوں میں پانی کیونکہ ایک سپاہی تو کبھی نہیں روتا اطہر محمد علی کا خیال رکھنا۔ میں زبان سے کچھ نہ بول سکا فقط مودبانہ سیلوٹ کر دیا۔ بینڈ کی دھن پر ہم تمام کیڈٹس پورے پاکستان کی مختلف چھاؤنیوں میں پھیل گئے۔

جب بھی فون پر رابطہ ہوتا تو محمد علی کے بارے میں پوچھتا، وہ بتاتے محمد علی نے زمین پر گھسیٹنی شروع کر دی ہے اور شرارتیں بھی خوب کرتا ہے۔ پھر کرنل صاحب نے بتایا محمد علی کو اسکول داخل کرا دیا ہے ماشاء اللہ ذہین ہے اور پڑھائی میں اچھا جا رہا ہے۔ پھر ہم اپنی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں گھر گئے۔ کرنل صاحب ترقی کر کے میجر جنرل بن گئے اور مجھے ایک کمپنی کی کمان مل گئی۔

پھر جنرل صاحب نے بتایا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد محمد علی کی پی ایم اے کے لیے سلیکشن ہو گئی ہے۔

پھر جنرل صاحب نے بتایا کہ ٹریننگ مکمل کر کے محمد علی سورڈ آف آنر کے ساتھ پاس آؤٹ ہو رہا ہے۔ اس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں تم بھی شرکت کرنا۔ عرصہ دراز کے بعد اپنی مادر تربیت گاہ جانے کا موقع نصیب ہوا۔ میں اور جنرل صاحب سیریمونئیل ڈریس میں ملبوس وزیٹرز گیلری میں بیٹھے تھے۔ پریڈ کے خاتمے پر محمد علی کلف لگی وردی میں ملبوس اپنی اعزازی شمشیر کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور انتہائی چابکدستی سے ہم کو سیلوٹ کیا۔ جنرل صاحب نے اٹھ کر محمد علی کو گلے لگایا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ،آج جنرل صاحب کے چہرے پر پدرانہ تمکنت قابل دید تھی۔ محمد علی ہم دونوں سے ملا۔

جنرل صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اطہر ارے یہ کیا یہ میری آنکھوں کا وہم تھا یا جنرل کی آنکھوں میں پانی کیونکہ ایک سپاہی تو کبھی نہیں روتا۔

اطہر محمد علی کا خیال رکھنا۔ میرے جذبات قابو میں نہ تھے، میں زبان سے کچھ نہ بول سکا فقط مودبانہ سیلوٹ کر دیا۔ محمد علی کو اپنے والد کی رجمنٹ میں کمیشن ملا۔

کبھی کبھار فون پر رابطہ ہو جاتا۔ سی او اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ اچانک ہمارے ازلی دشمن ہندوستان نے ہم پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج بھی ان کے سامنے صف آرا ہو گئی۔ محمد علی کی یونٹ بھی میری یونٹ کے ساتھ تھی۔ ایک دن محمد علی کے سی او نے وائرلیس پر بتایا اطہر محمد علی شہید ہو گیا ہے۔ کسی طرح جنرل صاحب سے رابطہ کرو، میں سکتے میں آ گیا۔ جنرل صاحب کا ڈویژن کشمیر میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ میں نے بمشکل بذریعہ وائرلیس جنرل صاحب سے رابطہ کیا۔ وہ لائن پر آئے اور بولے اطہر کیا بات ہے۔

میں کچھ نہ بول سکا ہلکی سی سسکی میری زبان سے نکل گئی۔ جنرل صاحب پھر گویا ہوئے اطہر کیوں نہیں بولتے؟ میں نے کہا سر میں محمد علی کا خیال نہ رکھ سکا۔ وہ بولے اوہ کیا محمد علی وطن پر قربان ہو گیا ہے؟۔ اطہر میں نے اللہ تعالیٰ سے محمد علی اسی مقصد کے لیے مانگا تھا۔ میں آ رہا ہوں۔ وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر آئے۔ ہیلی پیڈ پر میں نے اور محمد علی کے سی او نے ان کا استقبال کیا۔ آج جنرل صاحب کے چہرے پر قدرے بڑھاپے کے آثار تھے۔ میں جیپ ڈرائیو کر رہا تھا، راستے میں ہم خاموش رہے‘ منزل پر پہنچ کر محمد علی کے سی او نے کہا سر میت جو قومی پرچم میں ملبوس تھی پشاور روانگی کے لیے تیار ہے۔ جنرل صاحب بولے نہیں پورا پاکستان محمد علی کا وطن ہے۔ محمد علی کی یونٹ کے چاک و چوبند دستے نے میت کو سلامی دی۔

جنرل صاحب نے بھی پوری چابکدستی سے میت کو سیلوٹ کیا۔ پھر آگے بڑھ کر محمد علی کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ارے یہ کیا؟ یہ میری آنکھوں کا وہم تھا یا جنرل صاحب کی آنکھوں میں پانی کیونکہ ایک سپاہی تو کبھی نہیں روتا پھر ان کے ہونٹ ہلے اور میں نے سنا وہ کہہ رہے تھے محمد علی تم شہید ہو گئے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔