منتخب کردہ کالم

سڑکوں کی سیاست … عارف نظامی

عمران خان کے دیکھا دیکھی بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت کے خلاف چھریاں تیزکرنا شروع کر دی ہیں۔انہوں نے اتوار کو کراچی میں ‘سلام شہدا‘ ریلی نکالی جس کا مقصد سانحہ کارساز کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا،یہ سانحہ نو برس قبل 18 اکتوبر 2007 ء کو اس وقت پیش آیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی سے واپسی پر جلوس کی شکل میں شاہراہ فیصل پر آ رہی تھیں کہ کارساز کے مقام پر دہشتگردی کی سنگین واردات ہوگئی جس میں 177 افراد شہید اور 630 زخمی ہو گئے تھے،اس سفاکانہ حملے کا مقصد محترمہ کو ٹھکانے لگانا تھا لیکن اس حملے میں وہ محفوظ رہیں؛ تا ہم اسی سال 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہو گئی لیکن ان دونوںحملوں کا ‘کھرا ‘آج تک نہیں مل سکا،یہ دونوں واقعات جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں ہوئے،ان کی حکومت نے قاتلوں کو تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی کیونکہ اس کا ‘کھرا ‘شاید اس وقت کے حکمران طبقے کے ساتھ جا ملتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں بھی بے نظیر کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔
کراچی کی بھرپور ریلی جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی کی طرف سے طاقت کا بھرپور مظاہرہ تھا وہاں دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی رونمائی کا پروگرام بھی تھا۔اس کامقصد غالباً جہاں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا وہاں یہ پیغام بھی دینا تھا کہ ایم کیو ایم میں پھوٹ پڑنے کے بعد پیپلز پارٹی شہری سندھ میں بھی فعال ہونے کا پروگرام بنا رہی ہے۔لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اس پر موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ مک مکا کاالزام عائد کیا جاتا ہے ۔اس پس منظر میں بلاول کی ریلی کو کراچی میں خاصی پذیرائی بھی ملی ،اس معاملے میں عمران خان پیش پیش ہیں جو اپنے مخالفوں کو لگی لپٹی رکھے بغیر بے نقط سنانے کے عادی ہو چکے ہیں۔وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو کرپٹ ترین قرار دیتے ہوئے مائنس ون کا فارمولا بھی پیش کر چکے ہیں حالانکہ کسی سیاسی جماعت کو یہ کیسے حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسری جماعت کی قیادت کا فیصلہ کرے۔کاغذی طور پر تو سب سیاسی جماعتوں کے الیکشن ہوتے ہیں،حال ہی میں مسلم لیگ ن کی قیادت کا فیصلہ کرنے کیلئے بھی پارٹی الیکشن کاسوانگ رچایا گیا تاکہ الیکشن کمیشن کا منہ بند کیا جا سکے۔ان انتخابات میں نواز شریف ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی پہلے ہی دہشت گردی کی بنا پر مائنس ون کا شکار ہو چکی ہے۔بے نظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری سیاسی منظر پر آئے اور کامیابی سے اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کئے۔انہوں نے نہ صرف 1973ء کے آئین کو مزید وفاقی اور جمہوری بنانے کیلئے اس میں ترامیم کرائیں بلکہ صحت مند جمہوری روایات بھی قائم کیں۔انہی کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی شکل میں ایک نان بھٹو کو وزیر اعظم بنایا گیا۔لیکن کیا مسلم لیگ ن مائنس نواز شریف اور عمران خان کی اپنی پارٹی تحریک انصاف مائنس خان وجود برقرار رکھ سکے گی؟بد قسمتی سے بعض مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر اکثر سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہیں،جیسے کہ شیخ رشید کو مائنس ون کر دیا جائے تو ان کی جماعت عوامی مسلم لیگ کا کچھ بھی نہیںبچ پائے گا ۔آج کل ایم کیو ایم مائنس الطاف کے دور سے گزر رہی ہے دیکھئے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عوام کو فرسودہ نظام اور تخت رائیونڈ سے ہم نجات دلائیں گے،انہوں نے الٹی میٹم دیا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو،پیپلز پارٹی کے پاناما بل کی منظوری،سی پیک قرارداد پر عملدرآمداور وزیر خارجہ کی تعیناتی کے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی پر لانگ مارچ اور دما دم مست قلندر ہو گا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مال روڈ پر ریگل چوک میں بلاول کے نانا جان ذوالفقار علی بھٹو نے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے دمادم مست قلندر کا نعرہ لگایا تھا۔اس وقت غالباً مشرقی پاکستان میںخانہ جنگی جاری تھی اور حالات نے ثابت کیا کہ واقعی دمادم مست قلندر ہوا۔ دیکھتے ہیں آج کے بدلے ہوئے حالات میں بلاول بھٹو زرداری کس قسم کا دمادم مست قلندر کرینگے،غالباً ان کی مراد میاں نواز شریف کی حکومت کو تحریک کے ذریعے گرانے سے ہے۔برخوردار کا آغاز اگرچہ اچھا ہے لیکن ابھی انہیں اپنے والد صاحب سے مزید رموز سیاست سیکھنا ہونگے۔پیپلز پارٹی کو اس وقت فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ اس لحاظ سے قبول کر لینا چاہیے کیونکہ اس کی قیادت سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی کی قائل ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اسلام آباد کو شٹ ڈاؤن کرنے کے لئے تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی اور اس سے پہلے 30 ستمبر کو تخت رائیونڈ گرانے کیلئے ہونیوالے مارچ کا ساتھ دیتی۔بلاول نے میاں صاحب کو للکارتے ہوئے کہا کہ آپ کی وجہ سے پاکستان کمزور ہو رہا ہے اور آپ کشمیر کے قصاب کو شادی پر بلاتے ہیں،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان مودی سے فرمائشی ملاقات کر کے تصویر بنواتے ہیں۔ان کے خیال میں تحریک انصاف بچگانہ اپوزیشن ہے۔اس سے پہلے یہ واضح کر چکے ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران ان کا نعرہ’مودی کا جو یار ہے غدار غدار ہے‘ نواز شریف کے بارے میں نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے لگایا تھا کیونکہ وہ میاں نواز شریف کو محب وطن سمجھتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے والد ین آ صف زرداری اور بے نظیر بھٹو دونوں بھارت سے بہتر تعلقا ت کے لیے کو شاں رہے ہیں اور اس پاداش میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کارندے ان پر بھی غداری کا لیبل چسپاں کرتے رہے ہیں، لہٰذا بھٹو جونیئر کو بھی اس معا ملے میں ذرا احتیا ط سے کام لینا چا ہیے کہ بھارت سے بہتر تعلقات کی بات کرنے والا ہر سیاستدان غدار وطن کہلا سکتا ہے،ہمارے ایک مخصوص طبقے نے تو گویا غداری کا لیبل چسپاں کرنے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں،حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی یہی بانٹتا ہے اور غداری کا بھی ۔ پیپلز پا رٹی ایک وقت میں پاکستان کی سب سے بڑ ی سیاسی جماعت تھی اور چار مرتبہ وفاق میں برسراقتدار رہ چکی ہے ۔غر یبوں کی نام لیو ا یہ واحد لبر ل جماعت ہے جس کی کھو ئی ہو ئی ساکھ بحا ل کر نے کے لیے بلاول بھٹو اور ان کے والد صاحب اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو بہت سے پا پڑ بیلنے پڑ یں گے،چونکہ ملک کے سب سے بڑ ے صوبے پنجاب میں کا میابی حاصل کئے بغیر اقتدار میں آنا اور رہنا ناممکن ہے اس لیے پنجاب میں پا رٹی کو از سر نو تشکیل دینے کی شدید ضرورت ہے ۔پارٹی کے صوبائی صدر میاں منظور وٹو کو جیالوں نے قبو ل نہیں کیا تھا جس پر انہیں فارغ کر دیا گیا۔ بلا ول بھٹو کو اپنی پہلی فر صت میں پنجاب کا دورہ کر کے یہاں عرصہ سے تشنہ تنظیمی امور نمٹانے چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ عوام سے را بطے کی مہم پر نکلنا چاہیے ۔اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی کے خلاکوپُر کیے ہو ئے ہے لیکن یہ جما عت حلقوں اور پا رلیما نی سیا ست کے بجا ئے بار بار سڑ کوں کی سیا ست کرنے پر زیا دہ یقین رکھتی ہے ۔ اس روش سے جہاں ایک طرف جمہو ری اداروں کو نقصان پہنچنے کا خد شہ ہے وہاں دوسر ی طرف عوام کے مسا ئل کو مز ید پیچید ہ بنانے کا موجب سکتی ہے ۔کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ وہ ساری لا بیاں جو ہر وقت رطب اللسان رہتی ہیں کہ جمہو ریت نے پاکستان کو کیا دیا ہے، یہ کر پٹ لوگوں کا گورکھ دھندا ہے،تحریک انصاف کے گرد اکٹھی ہو گئی ہیں ، اس بنا پر ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کا احیا ہو کیو نکہ سڑ کوں کی سیا ست سے جمہو ریت اور عوام کوفا ئد ے کے بجائے الٹا نقصان پہنچ رہا ہے۔