منتخب کردہ کالم

سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے…نفیس صدیقی

سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے…نفیس صدیقی

اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے ۔ لاہور کے مال روڈ پر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جس ’’ سیاسی طاقت ‘‘ کا مظاہرہ کیا تھا ، اس سے بھی یہ تقاضا سامنے آیا ہے کہ اب سیاست کو اپنا راستہ اختیا رکرنے دیا جائے ۔ کون اچھا ہے اور کون برا ؟ کس کو سیاست میں رہنا چاہئے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ اگر نہیں ہو سکا ہے تو اب سیاسی عمل کے ذریعے ہونے دیا جائے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرانے اور ڈاکٹر طاہر القادری جسے ’’ سلطنت شریفیہ ‘‘ کانام دیتے ہیں ، اسے گرانے کا وقت گزر چکا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی مدت پوری کر لی ہے ۔ اپوزیشن کی طرف سے اسمبلیوں میں استعفی دینے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عام انتخابات کا دو تین ماہ پہلے انعقاد ہو ، جس کا کوئی امکان نہیں ۔ پاکستان اپنی تاریخ کا ایک اور سنگ میل عبور کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ دوسری بار ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اور جمہوری عمل سے انتقال اقتدار کا مرحلہ قریب آگیا ہے ۔ اس عمل کو روکنے کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں ۔
اسلام آباد میں 2014 کے غیر معمولی دھرنے سے بھی ’’ سلطنت شریفیہ ‘‘ کا خاتمہ نہ ہو سکا بلکہ پوری پارلیمنٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دفاع میں کھڑی ہو گئی ۔ یہ دھرنا پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دو قائدین عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ، جنہیں سیاسی کزن بھی کہا گیا ، سیاسی طاقت کا عظیم مظاہرہ تھا ۔ 2016 ء میں پاکستان تحریک انصاف کا اکیلا دھرنا مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر کاری ضرب ثابت ہوا ۔ اس دھرنے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ہوئی ، جس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو ایوان وزیر اعظم سے باہر نکالا گیا ۔ میاں محمد نواز شریف پاکستان جیسے ملک میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ پاناما کیس کے فیصلے کے تحت نیب میں شریف خاندان کے خلاف پرانے مقدمات کھلے ، جن میں حدیبیہ پیپر مل کیس بھی شامل ہے ۔ اس تمام صورت حال کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ صرف قائم رہی بلکہ مسلم لیگ (ن) بھی بحیثیت سیاسی جماعت اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہی ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور ایک ایسا معاملہ تھا ، جس کے ذریعے لوگوں کے غم و غصے کا بم ’’ قلعہ شریفیہ ‘‘ پر داغا جا سکتا تھا لیکن یہ وار بھی خالی گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے بہت کڑا وقت دیا ۔ اس طرح کی اپوزیشن میں 1990 ء کی دہائی میں چار جمہوری حکومتیں دھڑام سے گر گئیں ۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اپوزیشن خصوصا عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی ۔ عمران خان نہ صرف سیاسی طور پر بہت مضبوط اور مقبول ہوئے بلکہ انہوں نے کرپشن اور بری حکمرانی کے خلاف قوم کو ایک بیانیہ دے دیا ہے ۔ لیکن بات وہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرایا نہیں جا سکا اور مال روڈ کے مخالفانہ سیاسی شو کے بعد تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئےآئندہ عام انتخابات تک کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آ رہا ۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی وجہ عام آدمی کی زبان میں صرف یہی ہے کہ ’’ تیسری قوت ‘‘ نے مداخلت نہیں کی حالانکہ 2014 ء کے دھرنے کے وقت تیسری قوت کی مداخلت کا جواز موجود تھا ۔ اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے ۔ 2016 ء میں بھی مداخلت کے حالات موجود تھے ۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد بھی لوگ ’’ کچھ ‘‘ ہونے کی توقع کر رہے تھے ۔ پاناما کیس کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورت حال سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا لیکن وہ نہیں ہوا ، جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ پاک فوج کی طرف سے بارہا اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ جمہوریت کو پٹری سے نہیں اترنے دیا جائے گا ۔ عدلیہ کی جانب سے بھی یہی بات دہرائی گئی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے بھی دو دن قبل یہ واضح کیا ہے کہ عدلیہ جمہوریت کو ناکام نہیں ہونے دے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ’’ کیفیتی ‘‘ تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور یہ پاکستان کے حق میں بہتر ہے ۔
کچھ حلقے اس بات پر فکر مند ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت جتنی کرپشن ہے ، اتنی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں تھی ۔ سیاست صرف پیسے کا کھیل بن گئی ہے اور سیاسی جماعتیں کچھ افراد یا خاندانوں کی سلطنتیں بن گئی ہیں اور ان افراد یا خاندانوں کی حیثیت بادشاہوں یا شاہی خاندانوں جیسی ہو گئی ہے ۔ ان حلقوں کی رائے میں تیسری قوت کی ’’ عدم مداخلت ‘‘ نہ صرف پاکستان بلکہ سیاسی عمل کے لئےبھی تباہ کن ہو گی ۔ بعض دیگر حلقے اس ’’ خدشے ‘‘ کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) دوبارہ اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے اور وہ ایک بار پھر حکومت بنا سکتی ہے ۔ ان حلقوں کی بات میں وزن بھی ہے اور ان کے ’’ خدشے ‘‘ درست بھی ہیں کیونکہ سیاسی عمل میں ہر چیز ممکن ہے ۔ اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے کیونکہ عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے عمل میں پاکستان میں سیاسی عمل ’’ ڈی ریل ‘‘ ہونے سے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں تیسری قوت کی مداخلت نہ ہونے کے باوجود پاکستان میں احتساب کا نظام تشکیل پذیر ہے ۔ پہلے احتساب تیسری قوت کرتی تھی اور وہ نتیجہ خیز نہ ہو سکا ۔ اب معاملہ دوسرا ہے ۔ عمران خان اور ان کی سوچ کی حمایت کرنے والوں کی جدوجہد بے کار نہیں گئی ہے ۔ لوگوں میں شعور پیدا ہوا ہے ۔ اس کے سیاسی اظہار میں وقت لگے گا لیکن بات آگے بڑھ چکی ہے ۔ عدلیہ پہلے والی عدلیہ نہیں رہی ۔ ’’ Norms ‘‘ تبدیل ہو رہے ہیں سوشل میڈیا نے بھی انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ میرٹ اور فیئر سوسائٹی کی اقدار پر یقین رکھنے والی مڈل کلاس مضبوط ہو رہی ہے اور نوجوان نسل اس حوالے سے بہت جارحانہ سوچ رکھتی ہے ۔ دیگر ریاستی ادارے بھی اگرچہ مکمل آزاد نہیں ہیں لیکن شفافیت کا نظام قائم ہونے کی وجہ سے بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے ۔ احتجاج ، جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ر ہنا چاہئے ۔ یہ سیاسی عمل ہے اور لازمی نہیں کہ سیاسی عمل حکومتوں کے دھڑم تختہ پر منتج ہو ۔ اس کے اثرات ہوتے ہیں ۔ اب ضروری یہ ہو گیا ہے کہ سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے ۔ اس میں ہی بہتری ہے ۔ سیاسی عمل میں رکاوٹ یا غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت سے وہ نتائج حاصل کرنے میں تاخیر ہوتی ہے ، جو سیاسی عمل کے ذریعے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔