منتخب کردہ کالم

سیاسی جلسوں کا کالم..عبدالقادر حسن

لاہور کا موسم اپنے شہریوں کو پریشان کر رہا ہے جسے دیکھیں وہ اس موسم کے نشے میں کسی پارک میں ہے یا کسی سڑک پر مٹر گشت کر رہا ہے سوائے میرے کہ میرا ایک گھٹنہ مجھے آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دے رہا جو بھی باہر سے آتا ہے کہتا ہے کہ تعجب ہے تم اندر بیٹھے ہو جب کہ خلق خدا اس خداداد موسم میں دیوانہ وار گھوم پھر رہی ہے اور جب اپنے عجز کا بتاتا ہوں تو مجھے وھیل چیئر کی پیش کش کی جاتی ہے جو لنگڑوں کا عالمی سہارا ہے لیکن میں اپنے معالجوں کے صرف تسلی پر تکیہ کیے بیٹھا ہوں کہ جس نے چلنے کے لیے ٹانگیں اور ٹانگوں کے لیے گھٹنے دیے ہیں وہی گھٹنے کا علاج بھی کر دے گا جب کہ ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں کہ وہ نیا گھٹنا لگا دیں گے اور تم خود بھی نئے اور پرانے گھٹنے کا فرق معلوم نہ کر سکو گے لیکن میں جیتے جی اپنے کسی عضو کو مرتا اور جدا ہوتا نہیں دیکھ سکتا جب کہ ہمارے ایک شاعر نے اعلان کر رکھا ہے کہ ’میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا‘ استاد امام دین گجراتی کا یہ ایک ذاتی تجربہ تھا جو انھوں نے اپنے خاص انداز میں بیان کر دیا ویسے استاد مرحوم ایک بہت بڑے شاعر تھے اور ان کا ایک شعر تو جب بھی سنیں وہ سارے وجود کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ شعر میں آخر میں درج کروں گا تب تک اسے لکھنے کی جان بنا لوں۔

میں نے اپنے اسی بیمار گھٹنے میں سیاستدانوں کے جلسے سنے یعنی ٹی وی پر دیکھے سنے۔ اور تعجب کیا کہ ملک میں کیا ہو گیا ہے کہ ایک دن میں تین تین جماعتوں کے جلسے ہو رہے ہیں اور ان کے لیڈر ہمارے وزیراعظم کو پریشان کر رہے ہیں۔ جناب وزیراعظم کی حکومت بھی چل رہی ہے اسمبلیاں بھی جاری ہیں اور قوم کے نام پر اپنی رہنمائی بھی کر رہی ہیں۔

مال بہت ہے کیونکہ ان دنوں ایک جلسے پر ہزاروں نہیں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور حاضرین کی مرضی کہ وہ آئیں یا نہ آئیں۔ گھر بیٹھ کر ٹی وی پر یہ تماشا دیکھ لیں لیکن دنیا امید پر قائم ہے اور جلسے حاضرین کی کرم فرمائی پر۔ وہ خوبصورت آسان اور سستا زمانہ گزر گیا جب لاہور کے موچی دروازے یا باغ بیرون موچی دروازے میں چند ہزار کے خرچ پر جلسہ ہو جاتا تھا اور کئی لیڈر بھگت جاتے تھے۔ اس تاریخی جلسہ گاہ میں جسے اب ایک یار گاہ اور بابرکت جلسہ گاہ کہنا چاہیے لاہور جیسے سیاسی شہر کے خاص لوگ جلسہ سننے اور دیکھنے آ جاتے تھے۔ گرمیوں میں جلسے کے بارے میں ہمارے مرحوم مہربان دوست جناب عبداللہ ملک کا یہ مشاہدہ تھا کہ گرمی کی وجہ سے لوگ رات کے ابتدائی حصے میں گھروں سے باہر نکل آتے تھے جلسہ ہوتا تو اس کی رونق بن جاتے تھے اور رات جب ذرا ٹھنڈی ہوتی تو گھر جا کر سو جاتے تھے۔ ملک صاحب اندرون شہر کے رہنے والے تھے۔

موچی دروازے کے جلسے میں ایک سو روپے کے قریب لاؤڈ اسپیکر کا کرایہ ہوتا۔ اتنا ہی اسٹیج کی کرسیوں کا کرایہ اور جلسے کی رپورٹنگ کرنے والے ہم صحافی قریب کی آبادی سے کرسی مانگ لیتے تھے یا تھانے والے مہربانی کرتے تھے۔ تھانے کی عقبی دیوار جلسہ گاہ میں تھی۔ کسی جلسہ کا بس اتنا ہی خرچہ تھا یعنی کوئی ڈیڑھ دو سو روپے۔ جلسے دیر سے شروع ہوتے اور اہم مقرر آخر میں تقریر کرتے اس لیے جلسہ کی کارروائی کا یہ حصہ ہم فوراً ہی لکھ لیتے اور دفتر سے آنے والے چپڑاسی کے حوالے کر دیتے جو ہر جلسے میں دو تین پھیرے لگاتا تھا۔

یوں اخبار کے پریس جانے سے پہلے نیوز ایڈیٹر کے پاس جلسہ پہنچ چکا ہوتا۔ جو خوش ہو کر رپورٹروں کو اپنے پلے سے چائے بھی پلاتا تھا۔ میں پہلے بھی کہیں ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارا دفتر مال روڈ پر تھا جب آخری کاپی پریس چلی جاتی تو ہم سب مال روڈ کے قریبی بس اسٹاپ پر قطار میں کھڑے ہو کر قومی ترانہ گاتے تھے اور سائیکلوں پر گھروں کو بھاگ جاتے۔ کیا خوبصورت اور سادہ زمانہ تھا۔ زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ آوارہ کتے بھی ہمیں پہچان لیتے تھے اور ہماری سائیکلوں کو معاف کر دیتے تھے۔

میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں تب جلسہ ہائے عام کسی مشہور سڑک یا چوک پر ہوا کرتے تھے جیسے موچی دروازے میں اور مجلس احرار کے جلسے دلی دروازے میں جس کے سامنے ایک مشہور ریستوراں تھا جہاں سے سید عطاء اللہ شاہ بخاری اس رات آخری پیالہ چائے کا پی کر جلسہ گاہ میں تشریف لے آتے اور سحر تک اپنی خوبصورت تقریر سے لاہوریوں کو دیوانہ بنائے رکھتے۔ تقریروں میں احراری لیڈروں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بڑے بڑے لطیفے ہو جاتے۔ شیخ حسام الدین نے تقریر میں چندہ کی اپیل کی تو ایک نوجوان نے اٹھ کر پوچھا جناب گزشتہ جلسہ میں جو چندہ دیا تھا اس کا کیا بنا۔ شیخ صاحب نے فوراً جواب دیا جسے حساب لینا ہو وہ چندہ نہ دیا کرے۔

مجلس احرار کے جلسے دلچسپ اور یاد گار ہوتے تھے لیکن تقریریں بے معنی۔ آغا شورش کاشمیری تقریر کرتے تو میں جس اخبار میں تھا اس کی آغا صاحب سے دوستی تھی چنانچہ آغا صاحب کی تقریر کی رپورٹنگ کرنی پڑتی تھی جو ایک بے معنی اور خوبصورت الفاظ سے بھری ہوئی تقریر ہوتی تھی چنانچہ اس تقریر کی خبر بنانا ایک نہایت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن جوں توں کر کے اور کچھ باتیں اپنی طرف سے ڈال کر یہ تقریر بنا دیتے اور دوسرے دن آغا صاحب دفتر میں مبارک باد دینے آتے اور اپنے دوست ایڈیٹر کے کمرے میں یاد کرتے اور بڑے اعلیٰ قسم کے الفاظ استعمال کرتے۔ ایڈیٹر بھی خوش ہو جاتے کہ آغا صاحب سے بچ جایا کرتے۔

میں نے شروع میں استاد امام دین گجراتی کے ایک شعر کا ذکر کیا تھا۔ یہ ان کی ایک نعت کا شعر تھا۔ اگرچہ استاد شاعری میں کسی پابندی کے قائل نہیں تھے لیکن ان کی یہ نعت ایک مکمل شاعری ہے۔ اس کا وہ شعر دہرانے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
اس کے بعد کیا عرض کیا جائے۔