منتخب کردہ کالم

سیاسی طاقت کے پرفریب مظاہرے: ظہیر اختر بیدری

ہماری رائج الوقت سیاست میں جہاں بے شمارخرابیاں موجود ہیں، وہاں ایک اور خرابی متعارف ہورہی ہے اور مستحکم بھی ہورہی ہے، وہ ہے جلسے جلوسوں کے ذریعے سیاسی طاقت کے مظاہرے۔ ہماری سیاسی زندگی دولت کے پاؤں پرکھڑی ہوئی ہے، ہماری ارب پتی اشرافیہ ہر روزکروڑوں روپوں کے اشتہارات پرنٹ میڈیا میں لگاکر اپنے خاندان اور پارٹی کے پروپیگنڈے سے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن عوام جن پارٹیوں کی تاریخی بد عنوانیوں سے واقف ہیں اس اشتہاری سیاست پر زیر لب مسکراکر رہ جاتے ہیں اور یہ سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ افراد اور خاندانوں کی پبلسٹی پر کروڑوں روپے روزانہ خرچ کرنے والی پارٹیاں کیا دو وقت کی روٹی سے محروم عوام کو اپنی حمایت پر آمادہ کرسکیںگی۔کیا میڈیا پر کیا جانے والا بے معنی پروپیگنڈا بھوکے عوام کا پیٹ بھر سکے گا؟

پچھلے کچھ برسوں سے میڈیا کی پبلسٹی کے ساتھ جوکلچر پروان چڑھ رہا ہے، وہ ہے جلسے، جلوسوں کے ذریعے سیاسی طاقت کا غیر منطقی مظاہرہ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض جماعتوں کے جلسوں میں لوگ بڑی تعداد میں ازخود بھی شریک ہوتے ہیں لیکن عوام کی یہ شرکت نہ پارٹی کے پروگرام کے حوالے سے ہوتی ہے نہ پارٹی کے منشور کے حوالے سے بلکہ ہیرو ٹائپ کے لیڈروں سے ذاتی پسند اس شرکت کا باعث بنتی ہے جسے سیاسی رہنما عوام میں اپنی مقبولیت قرار دے کر خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہمارے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد ڈیڑھ دو لاکھ عوام ہوتی ہے جب کہ ہماری آبادی 20 کروڑ عوام پر مشتمل ہے کیا 20 کروڑ عوام کے ملک میں سیاسی جلسوں میں ڈیڑھ دو لاکھ افراد کی شرکت کو 20 کروڑ عوام کی حمایت کہاجاسکتا ہے؟ اس کلچر کے سرپرستوں کو ان ناگوار حقائق سے آگہی ہونا چاہیے۔

ہماری سیاست کا ایک بڑا حصہ ابھی تک جاگیردارا نہ نظام کا اسیر ہے اور جاگیردارانہ نظام میں عوام کی حیثیت غلاموں جیسی ہوتی ہے جنھیں ہنکاکر وڈیرے اپنے جلسوں جلوسوں میں بھی لاتے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں تک بھی لاتے ہیں۔ اس سیاست کو کسی حوالے سے بھی عوامی سیاست نہیں کہا جاسکتا، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ 69 سالوں سے اسی وڈیرہ شاہی سیاست کا راج ہے اس سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وسائل سے محروم لیکن عوام دوست سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں سیاسی طاقت کے ان شعبدوں سے محروم ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ انھیں ایک پمفلٹ نکالنے کی سہولت حاصل ہے نہ چند بینر بنانے کے لیے ان کے پاس وسائل موجود ہوتے ہیں۔

عوامی ورکرز پارٹی ملک میں ایشوزکی سیاست کرنے کی کوشش کررہی ہے، ابھی پچھلے دنوں اس پارٹی کی کراچی میں ایک کانگریس کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر سے 400 مندوبین نے شرکت کی اس کانگریس کو بائیں بازوکی حالیہ تاریخ کی کامیاب کانگریس کہا گیا۔ بلاشبہ ماضی قریب میں بائیں بازوکی کوئی سیاسی جماعت کسی کانگریس میں 400 مندوبین جمع نہیں کر پائی لیکن جب عوامی ورکرز پارٹی کے ایک رہنما نے مجھے بتایاکہ ان مندوبین کو دو روز تک کراچی میں روکنے اور ان کے طعام وقیام میں کس قدر مشکلات پیش آئیں تو اندازہ ہوا کہ اس ملک میں عوامی سیاست کرنا کس قدرمشکل کام ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے پبلسٹی پر ہر روزکروڑوں روپے خرچ کرنے اورکروڑوں روپوں کے خرچ سے بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کرنے والی پارٹیاں اس ملک میں عوامی اور ایشوز کی سیاست کرنے والوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیںگی؟ اشرافیائی سیاست کے اس کلچرکو بدلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام عوامی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو جو اس ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کی مخلصانہ جدوجہد کررہی ہیں، دامے، درمے، سخنے ہر طرح کی مددکریں۔

اس ملک میں اس وقت تک کوئی بامعنی تبدیلی نہیں آسکتی جب تک 69 سالہ سیاسی اسٹیٹس کو کو توڑا نہ جائے ہماری اجتماعی بد قسمتی یہ ہے کہ اسٹیٹس کوکے مضبوط پلر اشرافیائی جمہوریت کو ہمارے مڈل کلاس کے اہل قلم، اہل دانش، متبرک سیاسی ورثہ قرار دے کر اسے ترقی اور استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ جمہوریت کا تسلسل جمہوری اداروں اور جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے لیکن اگر جمہوریت کا نام عوام کی حکومت عوام کے لیے اورعوام کے ذریعے ہے تو کیا ہماری 69 سالہ جمہوریت اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہے اور اس کی شرط اول یہ ہے کہ قانون ساز اداروں میں عوام کے حقیقی نمایندے موجود ہوں اور ملک کا وزیراعظم اور صدر عوام کا حقیقی نمایندہ ہو۔

بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے اس ملک سے ہمارے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن حقیقی جمہوریت کے تناظر میں بھارتی جمہوریت کو دیکھا جائے تو ہمارے سامنے نریندر مودی آجاتا ہے جو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم ہے اس وزیراعظم کا تعلق اشرافیہ کے طبقے سے نہیں بلکہ اس نچلے طبقے سے ہے، جو ایک تھڑے کے ہوٹل میں باہر والے کا کام کرتا رہا ہے،کیا ہماری اشرافیائی جمہوریت کے عاشقین اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ اگراشرافیائی جمہوریت کا تسلسل رہا جس کی منظم تیاری اشرافیہ کررہی ہے تو کیا اکیسویں صدی میں ایسا ہوسکتا ہے کہ نچلے طبقے کا کوئی اہل شخص ملک کا وزیراعظم بن سکے؟ کیا ہمارے ملک میں مستحکم ہوتا ہوا ولی عہدی نظام مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے اہل لوگوں کو وزیراعظم بننے کا موقع دے گا؟

ہم نے کالم کا آغاز اشرافیائی پارٹیوں کے بڑے جلسوں جلوسوں سے کیا تھا۔ ان جلسے، جلوسوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جب تک اشرافیہ کی سیاست میں برتری قائم ہے یہ کلچر نہ صرف موجود رہے گا بلکہ مضبوط بھی ہوگا اس عذاب سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ عوامی اور ایشوز کی سیاست کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔