منتخب کردہ کالم

سیاسی قتل اور مکافات عمل…بشیر ریاض

خدائی لہجہ

سیاسی قتل اور مکافات عمل…بشیر ریاض

18مارچ 1978 ء کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو جھوٹے مقدمۂ قتل میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا جو خلاف توقع نہیں بلکہ ڈکٹیٹر ضیاء کی خواہش کے عین مطابق تھا اور اس کا واحد مقصد جناب بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانا تھا۔
مشرق لندن نے 7اکتوبر1977ء کواپنے اداریہ میں لکھا تھا۔
”لندن میں پی این اے سے متعلق بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مسٹر بھٹو کو پھانسی دے دی جائے گی۔ ان حلقوں کے دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جناب بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ انہی دنوں بیگم نصرت بھٹو نے برطانیہ کے موقر اخبار گارڈین کو انٹرویو میں کہا تھا کہ فوج والے اس بات کا عزم کیے ہوئے ہیں کہ مسٹر بھٹو کو منظرعام سے ہٹا دیا جائے۔ ہمارے خاندان کو اس امر پر تشویش ہے کہ جنرل ضیاء ہمارے خاندان کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کریں۔ بیگم بھٹو کے وکیل جناب یحییٰ بختیار نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں کہا کہ اب یہ اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ فوجی حکمران جناب بھٹو پر مقدمہ چلانا چاہتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے۔ مقدمہ بڑی تیزی سے ختم کرایا جائے اور مسٹر بھٹو کو سزا سنا کر گولی مار دی جائے‘‘
واضح رہے اکتوبر1977ء میں یہ مقدمہ شروع نہیں ہوا تھا۔ مشرق ویکلی نے اپنے اداریہ میں جو انکشاف کیا تھا مولوی مشتاق حسین نے18مارچ 1978ء کو سزائے موت کا فیصلہ سنا کر اس کی تصدیق کر دی ۔
جناب بھٹو کی پھانسی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
پاکستان اور کشمیریوں میں کہرام مچ گیا۔ لندن کے نام کے اخبار میں برطانوی وزیراعظم ایڈورڈہا سمتھ کے بیان کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ برطانوی وزیراعظم نے اس فیصلہ پر ردعمل میں افسوس کا اظہار کیا اور جناب بھٹو کے سیاسی تدبر و فراست کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے پاکستان پر دوررس نتائج ہوں گے دیگر برطانوی راہنمائوں نے بھی اسے تشویش ناک قرار دیا۔ پاکستانیوں نے اگلے روز پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور سخت ترین نعرہ بازی کرتے ہوئے ضیا آمریت مردہ باد،قائد عوام زندہ باد کے نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ مسٹر بھٹو کو رہا کیا جائے۔
معروف برطانوی قانون دان سر میتھیو جان پاکستان سے واپس آگئے تو عزیز مرحوم اور میں نے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ سر متیھیو نے کہا کہ اگر یہ مقدمہ برطانوی عدالت میں پیش کیا جاتا تو اسے عدالت اٹھا کر باہر پھینک دیتی۔
جان میتھیو نے یہ بیان دیا تھا کہ جس انداز میں یہ کارروائی ہو رہی ہے اس سے انصاف کی توقع نہیں۔ اور چیف جسٹس کا معاندانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسٹر بھٹو کو سزا ضرور دیں گے۔ پاکستانیوں نے اپنے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا اور روزانہ احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ ان مظاہروں میں بچے، بوڑھے، نوجوان اور خواتین باقاعدگی سے شریک ہوتے۔
میر مرتضی بھٹو آکسفورڈ سے لندن منتقل ہو گئے۔ برطانوی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا آغاز کردیا گیا‘ اس سلسلے میں فوری طور پر برمنگھم میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کی قیادت میر مرتضیٰ بھٹو نے کی۔ اس میں دو ہزار سے اوپر مظاہرین نے برمنگھم کی سڑکوں پر فلک شگاف نعرے لگائے۔ ”بھٹو بے گناہ ہے۔جنرل ضیاء مردہ باد۔ جمہوریت بحال کرو۔ بھٹو کو رہا کرو‘‘۔
میر مرتضیٰ بھٹو نے پہلے خطاب میں کہا۔
جنرل ضیاء نے ایک سازش کے تحت قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا ہے ہم پاکستانیوں کے تعاون سے عوام کے محبوب لیڈر بھٹو کی زندگی بچانے کے لئے عالمی مہم شروع کریں گے۔ اور ہم اس وقت تک یہ جنگ جاری رکھیں گے جب تک عوام کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے۔
برمنگھم کے مقامی پریس میں مظاہرہ نمایاں طور پر شائع ہوا۔ یہ مظاہرہ ایک عالمگیر مہم کا آغاز تھا۔ برطانیہ بھر کے پاکستانی اور کشمیری اتحاد کی بے مثال زنجیر بن گئے۔ ان کا غم و غصہ انتہائی شدید تھا اور پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہائیڈ پارک جناب بھٹو کی رہائی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی علامت بن گیا۔
4اپریل کے سیاہ دن کے بعد پاکستانیوں اور کشمیریوں کا احتجاجی جلوس ہزاروں میں تھا۔ اور اس میں شدت جذبات کا جس طرح اظہار ہوا وہ مناظر دیکھ کر مقامی لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے اس فیصلہ پر دنیا بھر کے عالمی اخبارات نے تبصرہ کرتے ہوئے اسے سیاسی قتل سے تعبیر کیا اور لکھا کہ ”مسٹر بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ متعدد مقتدر اخبارات نے مولوی مشتاق حسین کا نام لیکر کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس کا جانبدارانہ رویہ اور مسٹر بھٹو سے ذاتی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی‘‘۔
جناب بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے39برس ہو رہے ہیں۔ جو لوگ ان کے قتل کے منصوبہ اور سازش میں ملوث تھے وہ نفرت اور بغض و حسد کی عبرتناک مثال بن کر تاریخ کی سیاہی میں گم ہو گئے ہیں۔ اس کے برعکس جس بھٹو کو انتظامیہ نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے قتل کیا تھا‘ وہ بھٹو آج بھی زندہ ہے اور جئے بھٹو کے نعرے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں گونجتے ہیں اور گونجتے رہیں گے۔ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ یہی نعرہ ہے۔ 4اپریل اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ یہی قدرت کا انصاف ہے۔
آخر میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بی بی سی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں یہ جواب دیا تھاکہ میں انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ میں نے یہ معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے اور پھر دنیا نے دیکھا۔ ان کے اس یقین کا مظاہرہ مکافات عمل کی صورت میں نمودار ہوا اور مکافات عمل کا یہ سلسلہ ہنوز ان کے خلاف جاری ہے جو اس سیاسی قتل میں ملوث تھے۔ ؎
دردِ دل لکھوں کب تک جائوں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا