منتخب کردہ کالم

سیاسی گیم کا فائنل رائونڈ۔۔۔مزمل سہروردی

سیاسی گیم کا فائنل رائونڈ۔۔۔مزمل سہروردی

ملک کی سیاست ایک خاص سمت میں جا رہی ہے۔ 120 کے نتائج نے شریف خاندان کے حوصلہ بڑھائے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس نتیجہ سے ان کی مشکلات میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی ممکن نہیں ہے۔ ن لیگ اور شریف خاندان سیاسی طور پر جن مشکلات کا شکار ہے یہ نتیجہ اس میں کمی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ سونے پر سہاگہ ن لیگ قدم بقدم محاذ آرائی کی شدت میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ حکومت میں رہتے ہوئے یہ محاذ آرائی کس حد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ اور اس کا فائدہ کب تک ممکن ہے اور کہاں سے ناقابل تلافی نقصانات کی سرحد شروع ہو جائے گی۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن کب اور کہاں سے شروع ہو جاتا ہے۔
ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کی یہ لڑائی پانامہ اور جے آئی ٹی سے شروع ہوئی ہے۔ کہیں نہ کہیں شریف خاندان یہ سمجھتا ہے کہ جے آئی ٹی کو مواد حاصل کرنے میں اسٹبلشمنٹ نے بالواسطہ مدد کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی زبان نہیں ہوتی وہ صرف اور صرف ا یکشن سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ اس لئے سیاسی محاذ آرائی میں اسٹبلشمنٹ کی جیت ممکن نہیں ہوتی۔ یہ بے زبان اور زبان والوں کا مقابلہ ہے۔ آخر میں ایکشن کی ہی جیت ممکن ہوتی ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے کے عین مطابق مریم نواز اور کیپٹن صفدر جیت کے اگلے ہی روز لندن چلے گئے ہیں۔ کیا مریم نواز جلد واپس آجائیں گی ۔ یا وہ اپنے والد کے ساتھ ہی واپس آئیں گی۔ کیا مریم نواز اور نواز شریف خاندان کے دیگر ارکان کے لندن قیام کے دوران ہی پاکستان میں احتساب عدالت میں کیسزمیں ان کے وارنٹ جاری ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ بات کسی عام فہم کی عقل و دانش میں نہیں آتی کہ نواز شریف بطور والد خودتو لندن میں محفوظ بیٹھے رہیں اور مریم نواز کوا سٹبلشمنٹ اوراحتساب عدالت کا سامنا کرنے کے لئے اکیلے واپس بھیج دیں۔ اس لئے اب مریم بی بی کی واپسی کا فیصلہ بھی نواز شریف کی واپسی سے ہی مشروط ہے۔ وہ ایک اچھی سیاسی اننگ کھیل کر گئی ہیں۔ جو ان کے سیاسی کریڈٹ پر رہے گی۔
میں اس کو عمران خان کی سیاسی حماقت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے 120 کے انتخاب کو عدلیہ کے فیصلوں کے حوالہ سے ریفرنڈم بنا دیا۔ یہ کوئی سمجھدار سیاسی حکمت عملی نہیں تھی۔ اس کا نہ تو عمران خان کو فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی عمران خان کے دوستوں کو فائدہ ہوا ہے۔ بلکہ اس سے عدلیہ کو بھی نقصان ہوا ہے۔ عمران خان کو سمجھ ہونی چاہئے تھی کہ ان کے بیانات ن لیگ کے کیس کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ن لیگ کا مضبوط گڑھ ہے ۔ یہاں سے جیتنا ایک اپ سیٹ ہو گا۔ لیڈ کم ہونا ہی کامیابی ہے۔ پھر انہوں نے اس کو عدلیہ کے حوالہ سے ریفرنڈم قرار دے کر کیا شریف خاندان کی مدد نہیں کی۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آپ لاڑکانہ سے انتخاب کی جیت کو پیپلزپارٹی کی مقبولیت کے حوالہ سے ریفرنڈم قرار دے دیں۔ عمران خان سیاسی میدان میں اچھا کھیلتے کھیلتے ایک ایسی بری شاٹ کھیل دیتے ہیں جس سے ان کی اپنی کامیابیاں خود ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔ا سی لئے کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو کسی بھی سیاسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے وہ خود ہی اپنے لئے
کافی ہیں۔جو بیانات وہ انتخاب ہارنے کے بعد دے رہے ہیں وہ لائن پہلے لینے کی ضرورت تھی۔ اگر وہ پرفارمنس پر بھی انتخاب کا ایجنڈا سیٹ کرتے تو ن لیگ کو زیادہ مشکل ہوتی۔ شاید وہ جانے ا نجانے میں ن لیگ کے لئے استعمال ہو گئے ہیں۔
بہر حال احتساب عدالتوں میں کیس شروع ہونے کو تیار ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کیسز کے ٹرائل سے پہلے جے آئی ٹی کی سا ری تفتیش کو پبلک کرنا بہت ضروری ہے۔ ن لیگ لڑائی کو جس سمت میں لے کر جا رہی ہے اس تناظر میں اب یہ ضروری ہے کہ سچ کو سامنا لایا جائے۔ اگر عدلیہ کے فیصلوں پر عوام کی توثیق کا بھی سوال پیدا ہو گیا ہے۔ تو سب کچھ عوام کے سامنے آنا بھی ضروری ہے۔
عدلیہ کو فوری طور پر جے آئی ٹی کی تمام تفتیش پبلک کرنے کے احکامات دینے چاہییں۔ والیم ٹین اور یا والیم نا ئن سب کو پبلک کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اسی طرح جے آئی ٹی نے شریف خاندان سے تفتیش کے دوران جو سوال جواب کئے ہیں وہ ٹیپ بھی پبلک کرنے کی ضرورت ہے۔ جے آئی ٹی کی ان تمام ٹیپ کو پبلک کرنا عوامی مفاد میں ہے۔یہ جاننا بھی عام آدمی کا حق ہے کہ جے آئی ٹی نے کیا سوال کیا اور اس سوال کا شریف فیملی کے افراد نے کیا جواب دیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ٹیپس کوئی راز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد شریف فیملی کے افراد تو خود ہی شوق سے بتاتے تھے کہ ہم نے تین نسلوں کا حساب دے دیا ہے۔ عوام کو یہ تین نسلوں کا حساب دیکھنے اور سننے کا بھی حق ہے۔
یہ درست ہے کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت جے آئی ٹی کے ارکان کی زباں بندی ہے لیکن افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جے آئی ٹی کے نام نہاد سیاسی ترجمان بھی اس ضمن میںکوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کر سکے ہیں۔ وہ بھی کیس کو سیاسی انداذ میں ہی لڑ رہے ہیں۔ عوام کو سچ پہنچانے میں ان کا کوئی کردار نہیںہے۔ویسے تو ڈان لیکس کی رپورٹ بھی عوام کے سامنے آنی چاہئے۔ اس کو بھی راز میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ جاننا میرا حق ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان نے میرے وزیر اعظم اور ان کے بچوں سے کیا سوالات کئے اور انہوں نے ان کے کیا جواب دیے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ تفتیش کیا تھی۔ پانامہ پر ان کا جواب کیا تھا۔ لندن فلیٹس پر جواب کیا تھا۔ آف شور کمپنیوں پر ان کا جواب کیا تھا۔ قطری خط پر کیا جواب تھا۔ سعودی عرب میں کاروبار پر کیا جواب تھا۔ قطر میں کاروبار پر کیا جواب تھا۔ لندن میں کاروبار پر کیا جواب ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام سوالات پر شریف خاندان کا موقف ملک کے بچے بچے کو علم ہے۔ سب کو پتہ ہے وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ لیکن نہیں ایسا نہیں ہے پاکستان کی عوام کا یہ جاننا حق ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے کیا کہہ رہے تھے۔ اگر ڈاکٹر عاصم کی اعترافی ویڈیو سامنے آسکتی ہے تو جے آئی ٹی کے ساتھ سوال و جواب کی ویڈیو ٹیپ سامنے کیوں نہیں آسکتیں۔ یہ دیکھنا سننا ہمارا حق ہے۔ دنیا بھر کے تہذیب یافتہ ممالک میں تفتیش کے دوران کئے گئے سوال جواب کا ٹرانسکرپٹ عدالت میں بھی جمع ہو تا ہے۔ اور کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ روایت شروع ہونی چاہئے۔ اور شاید اب اس روایت کو شروع کرنے کا وقت بھی آگیا ہے۔
ویسے تو شریف خاندان کی سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی خارج ہو گئی ہے۔ اور اب نواز شریف کے خاندان کے پاس دو ہی
راستے ہیں یا تو وہ ملک میں واپس آکر ان مقدمات کا سامنا کریں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ ملک سے باہر رہ کر ان مقدمات کو التوا میں رکھیں۔ اور اب یہ فائنل فیصلہ کرنے کا وقت بھی آگیا ہے۔ سب کچھ اگلے چند دن میں واضح ہو جائے گا۔ کیونکہ گیم فائنل رائونڈ میں آگئی ہے۔