منتخب کردہ کالم

سی پیک کی مخالفت کیوں

نازیہ بی بی
سی پیک کا منصوبہ پورے پاکستان کی ترقی کا منصوبہ ہے جبکہ ہمارے کچھ بھائیوں کو پاکستان کی ترقی سے لگاؤ نہیں۔ مفادات دوطرح کے ہوتے ہیں ایک ذاتی مفاد اور دوسرا قومی مفاد بہت کم لوگ ہیں جو قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا مقصد قومی مفاد کو نقصان نہ پہنچانا بھی ہو لیکن ذاتی مفاد کی خاطر ایسا کرنا مجبوری ہوتا ہے۔ اس گروپ میں لوگ ہی نہیں بہت سی تنظمیں بھی شامل ہیں۔ کتابوں میں بیشک یہی پڑھا یا جاتا ہے کہ قومی مفاد پہلے باقی سب بعد میں جبکہ عملی دنیا میں انسان کی خواہشات شاید زیاد ہ غالب آجاتی ہیں۔ سی پیک سے متعلق بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ سی پیک کے مغربی روٹ سے متعلق اتنی منفی باتیں پھیلنے لگیں کہ چینی سفارتخانے کے ترجمان کو ایک پریس ریلیز جاری کرنی پڑی جس میں واشگاف الفاظ میں ان اخبارات، سیاستدانوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ چین پاک اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے حوالے سے جھوٹ پر منبی رپورٹس شائع نہ کریں۔ اس خبر میں چینی سفیر نے اس بات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں مغربی روٹ موجود نہیں ہے۔ ترجمان کو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہنا پڑا کہ ایسی خبریں جھوٹ اور غلط رپورٹنگ ہیں۔ اس سے پہلے بھی
با رہا پاکستانی حکومت اور چائنہ کی حکومت کی طرف سے واضح بیانات آچکے تھے لیکن ہم ہیں کہ ان خبروں پر کان دھرتے ہیں جو منفی ہوں۔ حقیقت میں منفی خبریں مثبت خبروں کی جگہ زیادہ موثر گردانی جاتی ہیں۔ جب ہم لفظ خبر کی تعریف definition تلاش کرنے کی کو شش کریں تو واضح ہوتا ہے کہ خبر وہ ہے جو انسانی جبلت کو متاثر کرے اور مختلف بھی ہو جیسا کہ اگر کہا جائے ” کہ بچے نے کتے کو کاٹ لیا” تویہ خبر زیادہ موثر ہوگی بجائے اس کے کہ” کتے نے بچے کو کاٹ لیا ” حقیقت سے تعلق نہیں رکھتی لیکن چونکہ ہماری نفس مطمئنہ کو مطمئین کرتی ہے تو ہم اس سے زیادہ متاثر ہوں گے اور ہمارا خبار بھی زیادہ بکے گا۔
چائنیز ا یمبسیے میں ڈپٹی چیف مشن زاؤ لی جان نے جب یہ خبر سوشل میڈیا اور مقامی اخبار میں پڑھی ہوگی کہ CPECمیں “P” پی، کا مطلب پاکستان کی بجائے پنجاب ہے تو وہ بیچارا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہو گا کہ یہ کیا ہے ؟

اس میں کمال ہمارا اپنا بھی ہے کہ ہم ایسی خبروں کو پڑھ کر مزید پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے یہ کام انتہائی آسان کر دیا ہے اس لیے چائینز سفیر کو آگے بڑھ کر پوری تفصیل کے ساتھ منصوبے کو بیان کرنا پڑا کہ
سی پیک میں 16منصوبے بلوچستان، 8کے پی کے ، 13سندھ اور 12پنجاب کے منصوبے شامل ہیں۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت بلوچستان میں 16پراجیکٹس میں خضدار باسمہ ہائی وے، ڈی آئی خان، کوئٹہ ہائی وے، حب کو کول پاور پلانٹ، گوادر پاور پلانٹ، گوادر نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن، گوادر ایکسپریس و گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ، گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان، گوادر سکول ، کالج و ٹیکنیکل ووکیشنل کالج کا سنگ بنیاد و گوادر فری زون کا قیام ہے۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت کے پی کے میں عالمی معیار کے مطابق 8منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے جن میں حویلیاں ڈرائی پورٹ کا قیام، ML-Iکا مشترکہ فزیبیلٹی پلانKKI+6-II، حویلیاں تا تھاکوٹ، ML-Iکی اپ گریڈیشن، KKI-2رائے کوٹ تا تھا کوٹ، ہائی وے ڈی آئی خان تا کوئٹہ، سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور راولپنڈی تا خنجراب تک آپٹیکل فائبر کیبل کا قیام شامل ہیں۔ سندھ میں پایہ تکمیل پہنچنے والے 12منصوبوں میں مٹیاری لاہور ٹرانسمشن لائن، مٹیاری فیصل آباد ٹرانسمیشن لائن، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، اینگرو تھر پاور پلانٹ، داؤد ونڈ فارم، جھم بورونڈ فارم، سچل ونڈ فارم، چائنہ سونگ ونڈ فارم، ML-Iکی اپ گریڈیشن، تھرک کول بلاک 1 اور مائن ماؤتھ پاور پلانٹ، کراچی لاہور موٹر وے گوادر نواب شاہ LNGٹرمینل شامل ہیں۔ پنجاب میں اقتصادی راہداری
کے تحت جن 12منصوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا دن میں قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ اورنج لائن میٹرو ٹرین اور ساہیوال کول پاور پراجیکٹ قابل ذکر ہیں۔
حکومت پاکستان ، کے پی کے اور بلوچستان کیطرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب نہیں وضاحتیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ حکوت کے اس بیان میں کافی وزن ہے کہ پنجاب میں چونکہ ترقیاتی کام پہلے سے ہی جاری ہیں تو اس لیے پنجاب سے گزرنے والے روٹ سے آغاز کیا گیا ۔ کاش کہ ہمارے باقی صوبے بھی

انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور ذرائع کمیونیکشن کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت دیتے تو ان صوبوں کو یہ محسوس نہ ہوتا کہ پنجاب میں زیادہ کام ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں کم ہورہا ہے۔
یہاں ایک حقیقت اور واضح کرتی چلوں کہ چائنہ سی پیک منصوبے کو شاید پاکستان سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہے اس لیے وہ کسی طور نہیں چاہیے گا کہ کسی بھی اندرونی یا بیرونی منفی قوتوں کی بدولت یہ منصوبہ سبوتاز ہو۔ اس لیے جب مودی نے لال قلعے میں اپنی آزادی کی تقریر میں کشمیر اور بلوچستان کا ذکر کیا تو چائنہ نے اس بات کو کافی سنجیدگی سے لیا اور چائنیز تھنک ٹینک CICIRنے بھارت کو تنبیہ کی کہ اگر وہ اس منصوبے میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا تو چائنہ کو اس میں مداخلت کرنا پڑے گی۔
بھارت تو خیر پاکستان کا ازلی دشمن ہے لیکن جب پاکستانی ملک دشمن قوتوں کا سہارا لے کر پاکستان کے مفاد کے خلاف بولتے ہیں توہ دل خون کے آنسوروتا ہے۔ کاش کہ کوئی ان کو بتلائے کہ وطن سے حُب کیامعنی رکھتی ہے۔ یہ وطن عزیز کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہم اس کی تقدیر نہیں سنوار سکے۔ صد افسوس اس بات کہ ہم خود بھی کچھ نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں ہم ان کے مخالفین میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کاش آج جو احساس چائنینز سفیر نے ہمیں دلایا وہ ہم خود محسوس کر لیتے۔ اس میں ہماری اور ہمارے وطن کی بھلائی ہے۔