منتخب کردہ کالم

شوال کا ہلال اور سالار کے چاند…امیر حمزہ

شوال کا ہلال اور سالار کے چاند…امیر حمزہ

یکم شوال کا چاند عید افطار کا پیغام لے کر آتا ہے۔ پاک افغان بارڈر پر ‘شوال‘ نام کا ایک گائوں بھی ہے۔ ادھر شوال کا چاند نمایاں ہوا‘ دوسری جانب افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاک افواج پر حملہ کر دیا۔ دہشت گردوں میں سے چند ہلاک ہو گئے‘ جبکہ پاک فوج کے تین جوان شہید ہو گئے۔ پاک فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان شہادتوں پر کہا ”جب بھی پاک فوج کا کوئی افسر یا جوان شہید ہوتا ہے ‘تو مجھے ایسا لگتا ہے‘ جیسے میرے جسم کا ایک ٹکڑا مجھے سے الگ ہو گیا ہے‘‘ ۔اس جملے میں جہاں غم اور دکھ پایا جاتا ہے‘ وہیں لواحقین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے زخموں پر جنرل باجوہ کا ہاتھ مرہم لگتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کا کردار ایسا ہی مشفقانہ ہونا چاہئے اور پاک افواج کے سربراہوں کا تو بہت ہی زیادہ ایسا کردار ہونا چاہئے ‘کیونکہ یہ تو میدان ہی قربانیوں اور شہادتوں کا ہے۔ جنرل باجوہ صاحب نے یکم شوال‘ یعنی عید کا دن بھی کنٹرول لائن پر ان جوانوں کے ساتھ گزارا ‘جو انڈین آرمی کے سامنے کھڑے پاک وطن اور اس کے باسیوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب نے کہا ”پر امن ماحول میں عید‘ شہداء اور غازیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک سپاہی کی حیثیت سے اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ ہم وطن اور ہم وطنوں کی حفاظت کی خاطر اپنا فرض ادا کرنے گھروں سے دور رہتے ہیں‘‘۔
قارئین کرام! اس بار شوال کا چاند ‘جہاں یہ خبر لے کر آیا کہ شوال کے گائوں میں آفتاب‘ افتخار اور عثمان شہید ہو گئے ہیں ‘وہیں شوال کا چاند یہ خبر لے کر بھی آیا کہ چار سال پہلے 2014 ء میں آرمی پبلک سکول پشاور میں‘ جس جس ماں کے چاند نگاہوں سے اوجھل ہو گئے‘ اس نے 2018ء کا چاند اس خبر کے ساتھ دیکھا کہ جس ظالم کی درندگی کا شکار اس کا چاند ہوا۔وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ ملا فضل ڈرون حملے میں مارا گیا۔ لاشیں بری طرح جل گئیں۔ میں نے یکم شوال کو اخبار میں یہ خبر پڑھی‘ تو چار سال قبل کا منظر میری نگاہوں کے سامنے آ گیا ‘جب میں اپنی اہلیہ محترمہ بشریٰ امیر کے ہمراہ کرنل (ر) قاضی ظفر کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہہ رہے تھے: میری اہلیہ جو آرمی پبلک سکول کی پرنسپل تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ انہیں پاک فوج کے بہادروں نے بچا کر نکال لیا تھا‘ مگر وہ واپس اپنے بچوں کو بچانے پھر سکول میں پہنچ گئیں۔ وہاں دہشت گردوں نے ان پر تیل چھڑک کر آگ لگائی۔ اللہ تعالیٰ ظلم کا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ چار سال بعد رب کریم نے ظلم کا بدلہ لیا اور اپنی بندی پر ظلم کا بدلہ اس طرح لیا کہ ملا فضل اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ڈرون بم کا شکار ہو کر کوئلہ اور راکھ بن گیا۔ پشاور میں مجھے وہ تین باپ ڈاکٹر فاروق‘ محمد فوزان اور ظہور احمد نہیں بھولے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس دو دو بیٹیاں تھیں اور ایک ایک بیٹا تھا۔ ان تینوں کے تینوں بیٹے مبین شاہ‘ محمد عالیان اور کامران شہید ہو گئے۔ ان کی مائوں اور بہنوں کا دکھ اور غم دیکھا نہ جاتا تھا۔ آج شوال کے چاند نے ان مظلوموں کے جگر کو کچھ تو ٹھنڈک پہنچائی ہے کہ ان کے خوبصورت اور اکلوتے چاندوں کی کرنوں کو بے نور کرنے والا کوئلہ بن گیا ہے۔ مجھے آج کرنل سہیل بھی یاد آ رہے تھے کہ ان کا لخت جگر‘ جس کا نام اذان تھا اور وہ تہکال بالا کی مسجد میں اذان دیا کرتا تھا۔ کرنل صاحب مجھے بتلا رہے تھے کہ وہ مجھے جگا کر فجر کی نماز میں مسجد لے جایا کرتا تھا۔ آج اذان کے بابا کے دماغ میں اعلان ہوا ہو گا کہ اذان کا قاتل کس قدر نامراد ہوا۔ کچھ تو اذان کی ماں اور باپ کو سکون ملا ہو گا۔ شہداء کے وارثوں نے اپنے رب کی جانب سے قاتل سے بدلہ لینے پر اپنے مولا کا شکر ادا کیا ہے۔
جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کو انتہائی بے رحمی سے شہید کیا گیا تھا‘ تب پاک فوج کے سالار جنرل (ر) راحیل شریف تھے۔ انہوں نے اس واقعہ کو امریکہ کے نائن الیون کے واقعہ سے بھی بڑھ کر لیا اور ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی کو کچلنے کا آغاز کیا۔ جنرل باجوہ صاحب کے دور میں ”ردالفساد‘‘ کے نام سے دہشت گردی کا قلع قمع ہوا اور آج انہی کے دور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کا ڈراپ سین ہوا۔ اس پر دونوں جرنیل اور ان کی سپاہ خراج تحسین کی مستحق ہے۔ جنرل باجوہ صاحب نے اپنے شہداء کو اپنے جسم کا حصہ قرار دیا ہے‘ تو شہید کس طرح جسم کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ میں نے اپنی کتاب ”حضور عالیشان بچوں کے درمیان‘‘ میں لکھا تھا۔ وہ کتاب جو مذکورہ سانحہ کے بعد منظر عام پر آئی تھی۔ حضورؐ کی سیرت کا ایمان افروز واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت عباسؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت اُمِ فضلؓ نے ایک خواب دیکھا اور حضور نبی کریمؐ سے عرض کی کہ آج رات میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ حضورؐ نے پوچھا: کیا خواب دیکھا ہے؟ اُمِ فضلؓ نے کہا :میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم کے ایک حصے کو کاٹ دیا گیا ہے اور اسے میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سن کر حضورؐ نے فرمایا: انشاء اللہ فاطمہؓ کے ہاں بچہ پیدا ہو گا۔ وہ بچہ آپ کی گود میں ہو گا؛ چنانچہ حضرت فاطمہؓ کے ہاں ننھے حسین ؓپیدا ہوئے اور جس طرح اللہ کے رسولؐ نے تعبیر فرمائی تھی‘ اسی طرح وہ میری گود میں تھے‘ پھر اس واقعہ کے ایک دن بعد میں اللہ کے رسولؐ کے پاس آئی‘ تو میں نے ننھے حسینؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا‘ پھر آپ کی توجہ مجھ سے ہٹ گئی اور حسینؓ کی طرف ہو گئی۔ اب کیا دیکھتی ہوں۔ اللہ کے رسولؐ کی دونوں آنکھیں چھم چھم آنسو بہا رہی ہیں۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولؐ! میرے ماں باپ قربان! آپ کو کیا ہوا؟ فرمایا: میرے پاس جبرائیل ؑ آئے ہیں۔ انہوں نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے حسین ؓکو قتل کر دے گی۔ یہ سن کر میں نے تعجب سے کہا: اس کو؟ فرمایا: ہاں! میرے پاس تو جبرائیل ؑاس کی تربت کی سرخ مٹی بھی لے کر آئے ہیں۔ (مستورک حاکم، سلسلہ صحیحہ : 821)
جی ہاں! ننھے حسینؓ نور سے ہونے کی وجہ سے بھی حضورؐ کے جسم مبارک کا حصہ تھے۔ حضورؐ حکمران بھی تھے۔ اس حیثیت سے بھی ننھے حسین شاہ عرب کے جسم مبارک کا حصہ تھے‘ کیونکہ حکمران روحانی باپ ہوتا ہے اور اپنی رعایا کے افراد کی حفاظت اپنے بچوں کی طرح کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے آنے والے وقت کی خبر بھی دی ‘مگر امت کے کچھ لوگوں نے کوئی پاس نہ کیا‘ جس اقتدار کے دل میں ایسی شقاوت ہو‘ وہ اقتدار کیسا بدبخت اقتدار ہے۔ ریاست کو ماں جیسا ہونا چاہئے۔ اپنے بچوں کا نگہبان ہونا چاہئے۔ بچوں سے غلطیاں ہو جائیں‘ تو جس طرح ماں باپ غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں اور ڈانٹتے بھی ہیں۔ ریاست کو ایسا کرنا چاہئے اور وہ مجرم جو انتہا درجے کی سفاکی کریں‘ ان کو کیفر کردار تک پہنچانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنرل باجوہ صاحب نے تو بدلہ لے لیا۔ ہماری اصل حکمرانی جو سول حکمرانی ہے‘ وہ کیا کر رہی ہے؟
زینب کا مجرم ابھی تک کیفر کردار کو نہیں پہنچا۔ کوہاٹ کی طالبہ کو قتل کرنے والا ابھی تک کیفر کردار کو نہیں پہنچا۔ گجرات کے قریبی گائوں میں معصوم بچے کے دونوں بازو الگ کرنے والا ظالم جاگیر دار آزاد گھوم رہا ہے۔ اب بس ہوسٹس مہوش کو شادی سے انکار کرنے کے جرم میں عمر دراز قتل کر چکا ہے۔ اس درندے کی رسی بھی دراز رہے گی۔ پاک پتن میں محمد رفیق کے نازک اعضاء کو زخمی کر دیا گیا۔ دونوں آنکھیں نکال دیں۔ زبان اور ناک کاٹ دی۔ غفار وٹو اور کمال دین وغیرہ جیسے درندوں نے جو مذکورہ حرکت کی۔ یہ درندگی کو بھی شرما دینے والی ہے۔ ایسی درندگی ختم نہ ہو گی‘ جب تک تورات و انجیل اور قرآن میں درج سزا نہ دی جائے گی اور وہ یہی ہے کہ عضو کے بدلے عضو کاٹا جائے۔ تیزاب کے بدلے تیزاب کی سزا دی جائے۔
ریاست کے سول حکمران جو حالیہ الیکشن کے بعد حکمران بنیں گے۔ عوام کو چاہئے کہ مذکورہ قانون کے لیے ان پر دبائو ڈالیں کہ اپنے منشور میں ایسا اعلان کریں‘ تب ہم ووٹ دیں گے۔ ہمیں ریاست کا حکمران ایسا چاہئے‘ جو پاکستان کے 20 کروڑ افراد میں سے ہر فرد کو اپنے جسم کا حصہ سمجھے۔