منتخب کردہ کالم

صحت پیکیج۔۔۔تندرستی ہزار نعمت ہے۔۔۔عظمیٰ مرزا

صحت مند انسان ہی صحتمند معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں صحت کے بہت مسائل درپیش ہیں۔ دیہات میں جہاں ملک کی 70فیصد آبادی ہے صحت ان کی بنیادی سہولیات سے آراستہ نہیں جو ان کا حق ہے۔ مگر خوش آئند بات ہے کہ صحت کے شعبے میں وفاقی اور صوبائی سطح پر بہتری لائی گئی ہے۔ صحت کے بجٹ کو بھی بڑھایا گیا ہے اور پسماندہ علاقوں میں 150ہسپتال قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جو کافی حوصلہ افزاء ہے۔
اس سے قبل دیہات میں بنیادی مراکز صحت اور شہروں میں سرکاری ہسپتال کی حالت ناشگفتہ با تھی۔ مرکز صحت تو موجود مگر عملہ و ادویات غائب۔ عملہ جعلی ادویات میں ملوث یا ادویات بیچنے میں شہریوں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی تھی۔
گزشتہ سال کے آخر میں شروع کیا جانے والا “وزیراعظم قومی صحت پروگرام”صحت کے شعبے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ نئے سال کے آغاز میں غریب عوام کو دیا جانے والا بہترین تحفہ تھا۔ اس صحت پروگرام کا دائرہ کار 23اضلاع پر ہو گا جن میں نارووال، شیخوپورہ، بدین، شہید بے نظیرآباد، سرگودھا، خانیوال، مالاکنڈ، سانگڑھ، مردان، کوہاٹ، کیچ، کوئٹہ، لورالائی، بسیلہ، مظفر آباد، کوٹلی، دیامر، سکردو، باجوڑ ایجنسی، خیبر ایجنسی اور اسلام آباد شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ پروگرام 13اضلاع میں شروع کیا گیا اور بارہ لاکھ خاندانوں کو صحت کارڈ کا اجراء ہوا اور تین لاکھ روپے تک علاج کی سہولیات مفت فراہم کی گئیں۔ علاج معالجے سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے مفت ہیلپ لائن کا بھی قیام عمل میں لایا گیا۔ اس پروگرام کے تحت 23لاکھ افراد صحت کی سہولیات سے مستفید ہونگے۔
اس پروگرام میں حکومت پاکستان نے خاص طور پر غریب طبقہ کو ٹارگٹ کیا ہے جن کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یا جن کی روزانہ آمدنی 2ڈالر سے کم ہے۔ ایسے افراد کیلئے آمدن میں سے صحت کیلئے رقم مختص کرنا ایک خواب ہوتاہے۔ ایسے لوگوں کیلئے صحت کیلئے اقدامات قابلِ تحسین ہیں۔ وزیراعظم قومی صحت پروگرام کے تحت جن سات بیماریوں کا علاج کیا جائے گا ان میں کینسر، ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی، دل کے مختلف امراض اور دیابیطس، گردوں کی بیماریاں، خطرناک انفیکشن اور اعضاء کا ناکارہ ہونا شامل ہیں مفت علاج ہے اور ہر ایسے شخص کا 3لاکھ تک مفت علاج ہو گا اور اگر مزید علاج درکار ہو تو بیت المال اس کے مفت علاج کیلئے رقم فراہم کرے گا۔ پاکستان میں 55فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی روزانہ آمدنی 2فیصد سے کم ہے، قومی صحت کارڈ جاری کرنے کیلئے اعداد و شمار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پہلے ہی حاصل کیے جا چکے ہیں۔ یہ اسکیم ہیلتھ انشورنس پروگرام کے ذریعے کام کرے گی۔ جب مریض ہسپتال داخل ہو گا تو اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے ذریعے اس کا علاج شروع ہو گا۔ مریضوں کو مفت علاج کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی فراہم کی جائیں گی۔ہسپتال میں علاج کی صورت میں مریضوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
وزیراعظم ہیلتھ پروگرام کا آغاز اسلام آباد سے کیا گیا پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے 15اضلاع اور دوسرے مرحلے میں 23اضلاع تک اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا۔ اس کا دائرہ کار پنجاب کے بعد بلوچستان اور فاٹا میں بھی بڑھایا جائے گا۔
31دسمبر کو اسلام آباد میں صحت پروگرام کے آغاز کے بعد 25فروری کو اس کا آغاز مظفر آباد سے کیا گیا جہاں 82000مستحق خاندانوں کو علاج کی سہولیات میسر آئیں۔ مظفر آباد کے بعد 2مئی کو کوئٹہ میں صحت پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور یہاں قریباً 76000خاندان صحت پروگرام سے استفادہ کر سکیں گے۔ حال ہی میں رحیم یار خان میں صحت کے پروگرام کا آغاز کیا گیا اور اڑھائی لاکھ لوگوں کا اندراج مفت کیا گیا ہے اور ان کو مفت علاج کی سہولیات میسر آئینگی۔
منصوبے کی شفافیت کو برقرار رکھنے کیلئے مربوط انتظام کیا گیا ہے۔ ابتدائی مراحل میں تین سو سینٹرز قائم کیے گئے تھے اور اب ہر ضلعے میں منصوبے کی کڑی نگرانی کیلئے پینشنرز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ حکومت نے اس پروگرام کیلئے 9ارب روپے مختص کیے ہیں جن سے قریباً 12لاکھ افراد مستفید ہونگے۔
مفادات کی سیاست قومی حامل کے منصوبوں کو نقصان پہنچاتی ہے مگر یہاں یہ عمل قابلِ ذکر ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اس پروگرام کو صرف تنقید نہیں بنایا ورنہ یہ بھی چند دوسرے منصوبوں کی طرح کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سابقہ حکومت کی جانب سے شروع کیا جانے والا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھا بلکہ مستحقین کیلئے رقم میں بھی اضافہ کیا گیا اور آنے والوں کیلئے اچھی مثال قائم کی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ صحت کے مسائل حل کرنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔ یہ سب قومی اتحاد اور اتفاق سے ممکن ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیئے کہ وہ صحت کے مسائل کے حل میں وفاقی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائے۔قومی صحت پروگرام عوامی مفاد کا حامل منصوبہ ہے اور یہ معاشرے کو سماجی اور فلاحی معاشرہ بنانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد بہترین طبی سہولیات کے مستحق ہیں اور ان پر کسی قسم کا معاشی دباؤ نہ ڈالا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔