منتخب کردہ کالم

عشرت اور کمال کی گولہ باری … الیاس شاکر

عشرت اور کمال کی گولہ باری
الیاس شاکر.
کراچی ایک بار پھر سیاسی ہنگامہ خیزیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ لڑائیاں ”دنگل‘‘ میں ہوتی تھیں… میدان سجتے تھے… پہلوان تیار ہوتے تھے… دائوپیچ سیکھے جاتے تھے… ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے ترکیبیں سوچی جاتی تھیں‘ لیکن آج کل کی لڑائیاں سڑکوں اور میدانوں کی بجائے ٹی وی چینلوں پر لڑی جا رہی ہیں۔ کراچی والوں کو یہ دن بھی دیکھنے پڑ گئے ہیں کہ گورنر اور سابق ناظم ایسے لڑ رہے ہیں جیسے کسی بچے کا کھلونا چھن گیا ہو۔ کراچی کی اس تاریخی لڑائی میں ڈاکٹر عشرت العباد خان اور مصطفی کمال کے درمیان نوک جھونک اتنی بڑھ گئی ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی پھانسی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ گورنر سندھ نے بڑے سخت لہجے میں جج کی طرح سخت ترین سزائیں دینے کا آرڈر جاری کیا‘ تو مصطفی کمال نے ”حکم نما مطالبہ‘‘ کیا کہ گورنر کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ گورنر سندھ 14 سال سے اس منصب پر اس لئے فائز ہیں کہ وہ دھیمے مزاج کے ٹھنڈے انسان ہیں۔ بدھ کی دوپہر میڈیا سے گفتگو کے بعد انہوں نے شام کو جب ایک ٹی وی چینل کو باقاعدہ انٹرویو دیا‘ تو عوام بھی حیران رہ گئے۔ کراچی کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ گورنر صاحب غیر متوقع طور پر بہت آگے نکل گئے۔ انہیں انٹرویو نہیں دینا چاہیے تھا۔ مصطفی کمال تو ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں‘ وہ پریس کانفرنس بھی کر سکتے ہیں اور
ٹی وی چینلز کو انٹرویو بھی دے سکتے ہیں‘ لیکن گورنر سندھ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور سرکاری گھر میں رہتے ہیں‘ اس لئے وہ اپنے ترجمان کے ذریعے روزانہ بیان تو جاری کرواتے رہتے لیکن خود ٹی وی پر نہ آتے۔ ان کے اس عمل سے لڑائی بڑھ گئی اور ان کا ”لیول‘‘ بھی نیچے آیا۔ ابتدائی طور پر یہی سمجھا جا رہا تھا کہ شاید گورنر سندھ کو تبدیل کیے جانے کا ”سگنل‘‘ دیا گیا ہے‘ لیکن بعد میں ایسی خبریں افواہوں کی گود میں دم توڑ گئیں اور معاملہ اِدھر اُدھر ہونے لگا۔ کراچی میں اس وقت لیڈرز کی شعلہ بیانی سے ”ٹارگٹ کلنگ‘‘ ہو رہی ہے۔ کسی کا ٹارگٹ فاروق ستار ہے تو کسی کا عشرت العباد… کوئی کرسی کو ”ہٹ‘‘ کر رہا ہے تو کوئی پوری جماعت کو‘ غرض کراچی میدانِِ جنگ بنا ہوا ہے اور لیڈر ایک دوسرے پر تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں۔ عشرت العباد اور مصطفی کمال جیسی دونوں انتہائی معزز ہستیوں‘ جن کا اس شہر میں بہت احترام ہے‘ نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے۔ بارہ مئی‘ سانحہ نشتر پارک‘ سانحہ عاشورہ‘ سانحہ بلدیہ ٹائون سمیت کراچی میں ہونے والے تمام بڑے سانحات کا تذکرہ بھی ہوا۔ ایسی الزام
تراشی کے نتیجے میں لوگوں کا لیڈروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے‘ اور لیڈرشپ تو نام ہی اُس گاڑی کا ہے‘ جو اعتماد کی شاہراہ پر چلتی ہے۔ دونوں نے کیا کچھ کہا؟ سب اخبارات میں شائع ہو چکا ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ جو ”لفظی گولہ باری‘‘ کی گئی اس کے ثبوت جمع کرنا اور سامنے لانا آسان کام نہیں۔ اگر ثبوت مل بھی گئے تو بیشتر سیاسی کارکن شاید ان کو تسلیم نہ کریں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ الزام تراشی کی سیاست کو ختم کیا جائے۔ کمال ہائوس اور گورنر ہائوس کی جانب سے غیر پارلیمانی الفاظ کا ٹکرائو بھی ہوا۔ اس فری سٹائل کُشتی سے کہیں دونوں لیڈر عوام کی نظروں میں اپنا اعتماد نہ کھو بیٹھیں۔ یہ نہ سیاست کی خدمت ہے اور نہ ہی کراچی کی خدمت!! سوچ سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کراچی کی ایک قدآور لیڈرشپ گر رہی ہے تو ایسی دوسری قدآور لیڈرشپ موجود ہونی چاہیے جو اس کی جگہ لے سکے۔ کیا کوئی تیسری شخصیت موجود ہے جو ان دونوں کا متبادل بن سکے؟ اگر سب کو سنگسار کر دیا جائے… ایک دوسرے کو ملیامیٹ کر دیا جائے تو پھر شہر سیاسی طور پر کئی ٹکڑوں اور حصوں میں بٹ جائے گا‘ جو کراچی کے لیے کسی بھی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔
جماعت اسلامی کراچی میں قیادت کی وراثت کا دعویٰ کرتی ہے اور بلاول بھٹو نے چند دن قبل ہی ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے یہ نعرہ بھی لگایا کہ کراچی کس کا؟ بھٹو کا… نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے… اے کراچی والو!! تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ اللہ تعالیٰ نے کراچی کی لیڈرشپ آپ لوگوں کو دی کہ آپ عوام کی خدمت کریں‘ لیکن آپ نے وہ کیچڑ اچھالا اور ایسے خونریز الزامات لگائے کہ پھانسی کے پھندے بھی شرما جائیں۔ اس قسم کے الزامات تو کراچی کے دشمنوں نے بھی نہیں لگائے۔
بلاول بھٹو زرداری بھی کراچی میں جھنڈے گاڑنے کے لیے نکلے اور کراچی کے اندر ایک بڑا سیاسی میلہ لگایا۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ کراچی کا پروگرام ہے لیکن اس پروگرام کے شرکا کراچی والے نہیں تھے۔ ملک کے دیگر حصوں سے لیڈر اور کارکن پہنچے۔ تین سال کے ”سیاسی فاقوں‘‘ کے بعد پیپلز پارٹی والوں نے پہلی چہل پہل دیکھی تھی۔ لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی میں ایک مرتبہ پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی طاقت آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کی لیڈرشپ پر بذریعہ سیاست حملہ کیا ہے‘ اور بلدیاتی اداروں پر سرکاری ملازموں کی یلغار کرکے ”قبضہ‘‘ کا منصوبہ تیز کر دیا ہے۔ جوں جوں ایم کیو ایم اور اس کے ”قبیلے‘‘ کی دیگر پارٹیاں کمزور ہو رہی ہیں‘ پیپلز پارٹی کوشش کر رہی ہے کہ وہ ان پر جال پھینک کر شکار کر لے۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں رحم نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں گرنے والے کو سب مل کر ایک اور دھکا دیتے ہیں اور سیلاب اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ اگر کراچی کے آپس میں لڑنے والوں نے اس حقیقت کو نہ سمجھا تو پھر کہا جاتا ہے کہ حال وہی ہو گا جو کسی دانشور نے سکھر پل کے اوپر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ”اس پل کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے جسے اب روکا اور پکڑا نہیں جا سکتا‘‘۔ کراچی کی سیاست میں پیپلز پارٹی ابھی کو ئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی‘ اور نہ ہی حالیہ چند ہفتوں میں کوئی ضمنی الیکشن ہوا ہے اس لئے ترازو میں سب کچھ نہیں تولا جا سکتا‘ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ کراچی کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے‘ اور پیپلز پارٹی کی رال کراچی پر ٹپک رہی ہے۔ موقع سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں اور غلطیاں کرنے والا ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔