منتخب کردہ کالم

عشق نگر میں … بابر اعوان

عشق نگر میں … بابر اعوان

ایک تازہ تازہ پھٹے ہوئے ڈھول، اور اس کی ہمنوا سارنگی اور طبلہ کو چھوڑ کر سب عشق میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پاکستان 70 سال کا کیا ہوا کہ دھرتی پہ زلیخا والی جوانی لوٹ آئی۔
یومِ آزادی کے دن مانچیسٹر سے ڈاکٹر لیاقت ملک اور دیگر دوستوں کے ہمراہ بریڈ فورڈ پہنچے۔ سِوک سینٹر کا آڈیٹوریم پاکستانیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پرچم، جھنڈیاں، جذبے ، ترانے اور وطن سے محبت کے اُبلتے چشمے۔ 90 فیصد سے زیادہ لڑکے اور لڑکیاں ۔کچھ تھوڑے سے پاکستانی سینئر سِیٹیزن اور خواتین و حضرات بھی۔ اس چھوٹے پاکستان کا منظرنامہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے جس طرح قیامِ پاکستان کی تحریک میں ہندوستان کی گلی گلی سے ”لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان ‘‘کا نعرہ گونجا تھا۔ بالکل اسی طرح انگلستان میں مقیم پاکستانی کہہ رہے تھے ۔”قائم رہے گا پاکستان، ہم بچائیں گے پاکستان‘‘۔ 14 اگست کی رات 10.30 بجے نعروں ، ترانوں، سیلفیوں اور لنگر کی تقسیم کے دوران تقریب سے اجازت مانگی۔ نصف شب کے بعد بلکہ صبح سویرے ہوٹل واپسی ہو سکی ۔ ہمراہی دوستوں کو ڈِنر کی بجائے نفلی سحری پیش کی ۔ گھر سے خیریت دریافت کرنے کے لیے ٹیلی فون آیا ۔ میں نے سب سے پوچھا 14 اگست کا دن کیسا رہا؟ سب کا کہنا تھا اس قدر جذبہ، نعرے، پٹاخے ، باجے اور عزم و آزادی کی لہر اس یومِ آزادی پہ دیکھی، وہ بے نظیر ہے۔ میرے لیے یہی سال کی سب سے بڑی خبر تھی اور خوشی بھی۔ عربی کے ایک شاعر نے قوموں کی ایسی خوشیوں کو منظوم کیا۔
( اِذا شعَب یوماََ اِراَد اَ لحیاۃ )
ترجمعہ= X۔جس دن کوئی قوم زندہ رہنے کا فیصلہ کر لے ۔ موت اس کے سامنے شکست تسلیم کر لیتی ہے۔
X۔ یہ کائنات زندوں کے لیے بنی ہے۔ یہاں زندہ ہی محمو پرواز رہ سکتا ہے۔مرُدہ چاہے جتنا بڑا ہوکون و مکاں دونوں اسے پٹخ مارتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پاکستان کی یوتھ نے ایک سوال میرے اکائونٹ پر بار بار پوچھ رکھا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ نا اہل وزیرِاعظم کو کیا ہوا؟ ساڑھے چار سال نا اہل وزیراعظم کہتا رہا کہ پاکستان عالمی، معاشی طاقت بننے والا ہے۔ملک کو ہم نے ایشین ٹائیگربنا دیا۔اس مضمون پر خریدے ہوئے سروے جاری کرائے گئے۔لانگریوںنے داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے۔پٹواریوں نے جلسے سجائے ۔تھانے دار بندے گھیر کر لائے۔ نا اہل وزیراعظم نے لمبی لمبی چھوڑیں۔ کہا ،کنٹینر اور جلوس ترقی کا راستہ روکتے ہیں،باقی جانے دیجیے۔ شہرِ اقبال میں قبرِ اقبال پر کھڑے ہو کر پاکسانیوں کو مشرقی پاکستان توڑنے کا طعنہ تک دے ڈالا۔ نا اہل وزیراعظم کو یاد نہ رہا کہ اس کے یار نریندر مودی نے مشرقی پاکستان توڑنے کا کریڈٹ لے رکھا ہے۔بھارتی فوج کہتی ہے ہماری جارحیت سے سقوطِ ڈھاکہ ممکن ہوا۔نا اہل وزیراعظم نے کہا جمہوریت ملک کا دفاع کر سکتی ہے۔ قوم پوچھ رہی ہے اگر یہ سچ ہے تو جمہوریت ایل،او،سی کے قتلِ عام پر کیوں نہیں بولتی۔ چلیے مان لیتے ہیں جمہوریت گُونگی ہوتی ہے ۔ اگر یہ سچ ہے کہ جمہوریت گوُنگی ہوتی ہے تو اسے پشا ور اے،پی،ایس کے شہید بچوں کے لاشے کیوں نہ نظر آ سکے۔چلیے مان لیتے ہیں جمہوریت اندھی بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر جمہوریت اند ھی ہی ہے تو اسے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گنوں سے زخمی ہونے والے بچوں کی چیخیں کیوں سنائی نہیں دے رہیں۔ چلیے مان لیتے ہیں جمہوریت بہری بھی ہوتی ہے لیکن اسے پاکستان کے 70ویں یومِ آزادی پر کوئٹہ کے 15 شہیدوں کے گھر جانے سے کس نے روکا؟ ہو سکتا ہے جمہوریت لنگڑی بھی ہو۔ اگر یہ جمہوریت لنگڑی بطخ بھی ہے تب بھی اسے گجرات کے 12 سالہ شہیدحامد چغتائی پر رحم کیوںنہ آیا؟ نا اہل وزیرِ اعظم کی صحت و سلامتی کے لیے 2 عدد موبائیل ہسپتال یونٹس۔7 عدد چیختی چنگھاڑتی ایمبولینس گاڑیاں۔ غریبوں والی ایمبولینس نہیں بلکہ سب سے مہنگی وی،وی،آئی،پی ایمبولینس گاڑیاں۔ درجنوں ڈاکٹر، درجنوں نرسیں، پیرامیڈکس۔سینکڑوں نہیں ہزاروں کا ریسکیو سٹاف اس 12 سالہ شہیدحامد چغتائی کا گھر کیوں نہیں بچا سکا؟سب کے کان بند رہے اور حامد کا لہو پکارتا ہی رہ گیا ۔ ؎
تڑپ تڑپ کے مرا میں لہو میں لت پت تھا
تمہاری سوچ میں لیکن نشہ تھا طاقت کا
غریب باپ کی آنکھوں کا نُو ر تاتھا مَیں بھی
غریب ماں کے جگر کا سَرو ر تھا مَیں بھی
گجرات کے 12 سالہ مقتول بچے حامد چغتائی کے لہو میں ڈُوبا ہوا نوحہ مہران سانول عیسیٰ خیلوی نے لکھا۔ دل و جگر کو پاش پاش کر دینے والا یہ نوحہ سوشل میڈیا پر وایئرل اور کروڑوں دِلوں کی آواز ہو چکا۔
جمہوریت غریبوں کو کچلنے کا نام ہے یا پھر اقتدار میں ہو تو کہو ہم معاشی طاقت ہیں ، جھوٹ بولنے پرکاذب، مرحب ٹھہرائے جائو تو ( خدا نخواستہ ) پاکستان گیا۔قوم جاننا چاہتی ہے نا اہل وزایرِ اعظم نے پچھلے ساڑھے چار سال جھوٹ بولا یا نا اہلی کے بعد جھوٹ بولنا شروع کیا۔ بات ہو رہی تھی عشق نگر کی درمیان میں تازہ پھٹا ہوا ڈھول ، طبلہ اور سارنگی ناجانے کہاں سے آ ٹپکے۔15 اگست لندن واپس پہنچے،16کو چانسری لین میں سب سے بڑی لاء فرم سے ملاقات رہی۔ کئی گھنٹے میں ڈِنر اختتام کو پہنچا۔
17 اگست کے دن میں لندن کے علاقے کینسنگٹن جا پہنچا۔ سینٹرل لندن میں واقع رَسل روڈ کا ہائوس نمبر 35 میری منزل تھی۔مسلمانان برصغیر کو بدترین غلامی سے بچانے والا بطور طالبعلم 1893عیسوی میں اس مکان کا کرایہ دار بن کر آیا۔ میرے اور آپ کے محسنِ اعظم ، قائداعظم محمد علی جناح ۔ یہاں طالبِ علم کی حیثیت سے تشریف لائے ۔ 12 کمروں پر مشتمل یہ مکان آج کل ایک یہودی خاتون کی ملکیت ہے۔ جس نے بڑے شوق سے اس تاریخی مکان پر نیلے رنگ کا گول نوٹس بورڈ سجا رکھا ہے۔ گھر کے ماتھے پر سجے نیلے نوٹس بورڈ میں تحریر ہے۔ پاکستان کے فائونڈر محمد علی جناح یہاں 1893عیسوی سے لے کر 1948 تک قیام پذیر رہے۔میرے قافلے کے لیے یہ عشق نگر کا اولین لینڈ مارک ہے۔
عربی زبان کا مشہور قول یہ ہے۔
حُبّ الوطن مِن الایمان ، وطن کی محب ایمان کا حصہ ہے ۔ جو کھاتے یہاں کا ہیں اور گیت کسی اور کے گاتے ہیں۔وہ جتنے مرضی نیک اور پار سا کہلا لیں۔ عشق نگر میں وہ بے ایمان کا لیبل لگا کر زندہ ہیں۔ گیدڑ کی طرح کی 100سالہ زندگی۔
اگر یہ جمہوریت لنگڑی بطخ بھی ہے تب بھی اسے گجرات کے 12 سالہ شہیدحامد چغتائی پر رحم کیوںنہ آیا؟ نا اہل وزیرِ اعظم کی صحت و سلامتی کے لیے 2 عدد موبائیل ہسپتال یونٹس۔7عدد چیختی چنگھاڑتی ایمبولینس گاڑیاں۔ غریبوں والی ایمبولینس نہیں بلکہ سب سے مہنگی وی،وی،آئی،پی ایمبولینس گاڑیاں۔ درجنوں ڈاکٹر، درجنوں نرسیں، پیرامیڈکس۔سینکڑوں نہیں ہزاروں کا ریسکیو سٹاف اس 12 سالہ شہیدحامد چغتائی کا گھر کیوں نہیں بچا سکا؟سب کے کان بند رہے اور حامد کا لہو پکارتا ہی رہ گیا۔