منتخب کردہ کالم

عمران خان کو چو این لائی کی راہ اپنانا ہوگی!…کنور دلشاد

عمران خان کو چو این لائی کی راہ اپنانا ہوگی!…کنور دلشاد

چینی حکام سے چار روزہ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ‘ دونوں ملکوں میں تعلقات کے نئے رخ کی علامت اور نصف صدی سے زائد عرصے سے فروغ پانے والی دوستی اور تعاون کو مزید آگے بڑھانے کے پختہ عزم کا اظہار ہے۔ بد قسمتی سے سانحۂ مشرقی کے بعد پاکستان اس خطے میں اپنی اصلی حیثیت سے محروم ہوتا چلاگیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد چین کے مرد آہن چو این لائی کا طرز کلام تبدیل ہو گیا تھا‘ اور روس کے صدر کوسی گن نے پاکستان کو بر صغیر کے دائرہ کار سے نکال کر سائوتھ ایشیا کے ساتھ منسلک کر دیاتھا اور یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ مستقبل میں مغربی پاکستان مڈل ایسٹ کی ایک ریاست کے طور پر پہچانا جائے گی۔ لیکن اب وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں سے جو مثبت اعلامیہ جاری ہوا‘ وہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کے حل کے سلسلہ میں چینی امداد اور معاونت کا جامع پیکیج ہے ‘جو آنے والے وقتوں میں پاکستان کی سلامتی اور خوشحال کی ضمانت بھی بن سکتاہے ۔
دونوں ملکوں میں دفاع‘ تجارت‘ انسداد دہشت گردی، علاقائی سلامتی، صحت ، زراعت ، موسمیاتی تبدیلی، غربت کے خاتمے ، سرمایہ کاری اور ثقافت کے حوالے سے مفاہمت کی 15یاد داشتوں پر دستخط کئے گئے ۔ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ چین پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور کرپشن کے خاتمے کا فار مولا دے گا ‘جس سے کرپشن زدہ معیشت بحالی کی راہ پر گامزن ہوگی۔ دونوں ملک ڈالر کے بجائے اپنی کرنسیوں میں تجارت کریں گے ۔ یہ پاکستان کے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو کنٹرول میں لانے کے لئے اہم فیصلہ ہے۔ اس وقت بین الاقوامی تجارت پر ڈالر کی حکمرانی ہے ‘جو دنیا پر امریکہ کی گرفت مضبوط بناتا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک کی کرنسی ڈالر سے منسلک ہونے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے یہ ممالک اقتصادی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین نے اپنی کرنسیوں میں تجارت کرنے کا فیصلہ کر کے نہ صرف اپنی معیشت کو ڈالر کے منفی اثرات سے آزاد کیا ہے بلکہ دنیا کو ایک نئی راہ بھی دکھائی ہے۔ دونوں ملکوں نے یہ فیصلہ بھی کیاہے کہ در آمد ات اور بر آمدات میں توازن کے معاہدے پر فوری عمل در آمد ہوگا ۔ چین اپنی کرنسی میں پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم 10ارب سے بڑھا کر 20ارب یوآن کرے گا‘ جبکہ پاکستان کی کرنسی میں تجارت کا حجم 165ارب سے بڑھا کر 351ارب روپے ہو گا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک میں سیاسی تعلقات اور سٹریٹیجک کمیو نی کیشن کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔
مشترکہ اعلامیہ کی روح کی گہرائی میں جھانک کر دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی یہ شاندار کامیابی اور حکمت عملی ہے کہ چین نے پاکستان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ہے اور معاشی بحران سے نکالنے کی حکمت عملی کے ساتھ پاکستان کی مدد کی ہے اور ڈالر کو زک پہنچانے کے لئے جو قدم اٹھایا گیاہے‘ خوش آئند ہے ۔ 1982ء تک پاکستانی کرنسی پائونڈ سے وابستہ تھی‘ غالبا ً 1982ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے بجٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان کو پاؤنڈ سے ڈالرکے ساتھ منسلک کیاتھا۔ وزیر اعظم عمران خان کے چین کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں تجارت کرنے کے فیصلے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر لرزہ طاری ہو گیا ہے‘ لیکن اتنی بڑی کامیابی کو پاکستان کے میڈیانے وہ اہمیت نہیں دی جس کے وزیر اعظم عمران خان مستحق تھے۔ جو انقلابی قدم عمران خان نے اٹھایا ہے ‘اس کے امریکی اتحادیوں پر گہرے اثرات کا سامنا کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی ٹیم میں بڑے پیمانے پرردو بدل کرنا ہوگا‘کیونکہ اسی طرح کے اقدامات کرنل قذافی اور صدام حسین نے بھی اٹھائے تھے اور ڈالرکے مقابلے میں یورو کو اہمیت دی تھی‘ جس سے دونوں ممالک کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا تھا۔ اب امریکہ اپنے ڈالر کی تضحیک پر ایسی حکمت عملی اختیار کرے گا‘ جس سے انتشار، خلفشار اور دیگر متنازعہ معاملات آگے آئیں گے ‘ کیونکہ پرنس محمد بن سلمان نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے 1954ء میں سرد جنگ کو ہوا دینے کے لئے مذہبی قیادتوں کو ابھارا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا تھا۔
عمران خان کو اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لئے پاکستان کے پارلیمانی نظام میں بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اور پاکستان کو چین‘ سنٹرل ایشیا اور روس کے ہم پلہ بنانے اور پارلیمانی نظام میں اہم تبدیلیاں لانے کے لئے ایک ایساتھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا ‘ جو پاکستان کے عوام کے بہتر مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کر سکے ۔ جمہوریت کے نام پر نا اہل ،نا تجربہ کار ، کم تعلیم یافتہ لوگ پارلیمنٹ کے ارکان بن جاتے ہیں اور وزیر اعظم اپنی حکومت بنانے کے لئے انہیں میں سے وزر ا کا انتخاب کرتاہے‘ جبکہ ان کی کار کردگی مضحکہ خیز ہوتی ہے اور وزیر اعظم ان کی وجہ سے غیر مقبول ہو کر رہ جاتاہے ‘کیونکہ کمزور جمہوری نظام کی وجہ سے کم تجربہ کار وزرا اقربا پروری کے ذریعے وزیر بن کر ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمارا سول سروسز کا نظام نہایت ناقص ، ناکارہ اور بوسیدہ ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان مشاورت پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کو چاہئے کہ نظام الملک طوسی کی ایک نہایت اعلیٰ کتاب ‘سیاست نامہ ‘کا ضرور مطالعہ کریں۔ اس میں انہوں نے نصیحت کی تھی کہ دوسروں سے مشورہ کرنا حکمران کی عقل مندی کا ثبوت ہے ۔ چند لوگ بہت مفید مشورہ دے سکتے ہیں کہ ان کے پاس تجربہ اور علم ہوتاہے ۔ ہمارے حکمران عام طور پر میکا ولی کے فلسفۂ سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو میکاولی کے پرستار تھے اور ‘دی پرنس ‘ ان کے مطالعہ میں رہتی تھی۔اس پر عمل کرتے کرتے وہ اقتدار اور جان سے محروم ہو گئے‘ جبکہ 1935ء اور 1940ء کے درمیانی عرصے میں محمد علی جناح اتاترک کی بائیو گرافی کے بڑے دلدادہ تھے۔ اتاترک پرویز مشرف کے بھی آئیڈیل رہے۔ موجودہ حالات میں چونکہ دنیا گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے ‘تو پاکستان کو اب کامن ویلتھ، یورپی یونین کے نظام سے جان چھڑا کر چین ، وسطی ایشیا اور روس کے انتخابات اور پارلیمانی نظام کی خوبیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے ۔
اس وقت پاکستان ایک دوراہے پر ہے۔ نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں پاکستان کے لئے فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔ پاکستان امریکی کیمپ میں رہے گا یا نہیں؟ یہ فیصلے کا وقت ہے ۔ سی پیک منصوبوں کے بعد چین سے پاکستان کے تعلقات کچھ عالمی قوتوں کے لئے نا قابل بر داشت ہیں۔عالمی قوتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کچھ حلقے سی پیک کے مخالف ہیں اور پاکستان کے داخلی حالات ہمیشہ ایسی عالمی سیاست سے متاثر رہتے ہیں‘ جنہیں اتفاقات سے تعبیر کیا جاتاہے۔ ان حالات میں ملکی اور غیر ملکی قوتیںپاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کی جگہ صدارتی نظام کی باتیں بھی کر رہی ہیں۔ اس کشمکش پر پاکستان کی سیاسی قوتوں کو دو بنیادی فیصلے کرنا ہیں، پاکستان عالمی اور علاقائی صف بندی میں کہا ں کھڑ اہو؟ اور پاکستان میں نظام حکومت کیا ہو ؟ اگر پاکستان کی سیاسی قوتیں اس حوالے سے فیصلہ نہ کر سکیں اور ان میں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو نہ صرف معاشی بحران ختم نہیں ہوگا ‘بلکہ سیاسی عدم استحکام بھی ایک مستقل عامل بن جائے گا۔
چین کے قرضے مہنگے ہیں یا سی پیک کے کچھ منصوبے غیر ضروری ہیں تو ان پر چین پاکستان کے مؤقف کو اہمیت دے گا‘ کیونکہ چین کا رویہ بہت لچکدار ہوتا ہے۔ چین کے سفارتکار پاکستان کے کم ماہیت کے میڈیا ہائوسز سے روابط بڑھانے کی بجائے حقیقی میڈیا ہائوسز سے رابطہ کریں۔ اور وزیر اعظم عمران خان کو کفایت شعاری، سادگی اور مضبوط حکمت عملی اور بیورو کریسی کے مفاد پرستانہ عمل سے نکل کرسابق وزیر اعظم جمہوریہ چین چو این لائی ، صدر نیو شائو جی اور مائو زے تنگ کی راہ اپنانا ہوگی۔ یہ عظیم شخصیات اپنے دفتروں اور گھروں میں کفایت شعاری کے نمونے تھے ۔ چین کے مردِ آہن چو این لائی 25سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم رہے ‘وہ ہمیشہ سائیکل پر اپنے دفتر آتے تھے اور انہوں نے اس عرصے میں چین کو اقتصادی اور عسکری قوت بنا دیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے حقیقی کفایت شعاری کا سلوگن اپنانا ہے تو چین کے ابتدائی ایام کے حکمرانوں سے سبق سیکھیں۔