منتخب کردہ کالم

عمران کی سیاست. سول اور فوجی قیادت کے لئے چیلنج..جنرل اسلم بیگ

پاکستان میں نظام کی غیر جمہوری طریقے سے تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔یہ طریقہ ماضی میں چار مرتبہ دہرایا جا چکا ہے اور ہر تبدیلی کے پس پردہ چار‘اے’ (4 As)فیصلہ کن کردار ادا کرتے رہے ہیں’ جن میں “امریکہ ‘ آرمی‘ عدلیہ اور الائیز (موقع پرست سیاستدان) شامل رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں موجودہ حکومت کو گرانے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کا طریق کار بھی ماضی کی طرح غیر جمہوری ہے۔ماضی میں حکومت گرانے کی ایسی دو مثالیں ملتی ہیں جو کافی حد تک عمران خان کی سربراہی میں کی جانے والی حالیہ کوششوں سے مشابہ ہیں۔
1976 میں حکومت گرانے کیلئے چلائی جانے والی تحریک چار اے (4A) کی ملی بھگت کی اعلی ترین مثال ہے جس کا نتیجہ بالآخر بھٹو کی پھانسی کی صورت میں نکلا۔متعدد لاوارث سیاسی جماعتوں کی طرف سے چلائی جانیوالی اس تحریک میں ائر چیف مارشل اصغر خان بھی شامل ہو گئے جنہیں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کے ساتھ ساز باز کرنے کے جرم میں فضائیہ کی کمان سے ہٹا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں فوج پر غصہ تھا اور ان کا سیاست میں آنے کا مقصدفوج سے انتقام لینا تھا۔مئی 1977 میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معاملات طے پا چکے تھے کہ اصغر خان نے مداخلت کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاڑ کردیا۔ (تفصیلات کیلئے مولانا کوثر نیازی کی کتاب ‘‘اور لائن کٹ گئی’’ ملاحظہ کریں)۔اصغر خان نے جنرل ضیاء الحق کو تین صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا جس میں انہیں اقتدار سنبھالنے کی ترغیب دلائی۔جنرل ضیاء نے یہ خط فارمیشن کمانڈروں میں تقسیم کرایا۔(اصغر خان کی جانب سے جنرل ضیاء کو لکھے گئے خط اور عمران خان کی طرف سے ‘‘ایمپائر کی انگلی ’’ اٹھنے کی باتوں میں مماثلت ہے)۔1977 میں جاری احتجاج کے دوران اس وقت کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور مسلح افواج کے تینوں سربراہوں نے مشترکہ اعلان کیا کہ ‘‘ہم مکمل طور پرحکومت کی تائید کرتے ہیں اور حکومت کیخلاف احتجاج کرنے والوں کی منفی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔’’ لیکن سات دن بعد جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کر لیا جس پراصغرخان نے خوشی سے بغلیں بجائیں کیونکہ انہیں امیدتھی کہ انتخابات ہونگے اور انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائیگا لیکن افسوس ایسا ہو نہ سکا۔ موقع پرست سیاستدان جنرل ضیا ء کی بینڈ ویگن میں سوار ہو گئے جسے امریکہ کے گھوڑے کھینچتے ہوئے افغانستان میں روسی مداخلت کو کچلنے کیلئے لے گئے اور ملک دس سالوں تک مارشل لاء کے اندھیروں میں دھکیل دیاگیا۔
1998 میں پیپلز پارٹی’عوامی نیشنل پارٹی‘ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے مل کرگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی بنیاد رکھی ۔27 اکتوبر 1998 کو یہ سب مل کر بزرگ سیاستدان اجمل خٹک کی قیادت میں میرے گھر تشریف لائے اور مجھے اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی جوآئندہ ماہ 2 نومبر سے نواز شریف کی حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے تھے۔میں حیران تھا کہ انہیں یہ بات کہتے ہوئے ذرا ندامت کا احساس نہ ہوا کہ ’’انہیں اوپر سے تحریک چلانے کا اشارہ مل چکا ہے‘‘ تاکہ فوج کیلئے مداخلت کی راہ ہموار ہو جائے جو نوے دنوں کے اندر انتخابات کرائے گی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ہی کی حکومت بنے گی جس میں انہیں میری ضرورت ہوگی۔میں نے ان سے معذرت کرلی اورکہا کہ ‘‘آپ غلط آدمی کے پاس آگئے ہیں۔’’
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا احتجاج منصوبے کے تحت شروع ہوا اورایک سال بعد 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا لیکن انتخابات کی امید یں دم توڑ گئیں اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کا خواب بھی ادھورارہ گیا۔اسکے باوجود 2002 کے انتخابات میں عمران خان جنرل مشرف کیلئے زمین ہموار کرتے رہے جسکے عوض انعام کے طور پر انہیں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ عطا کی گئی۔مشرف نے پانچ سال تک سخت گیر طریقے سے حکمرانی کے مزے لوٹے اور 2002 کی طرح 2007 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا عمل شروع کیا۔امریکی صدر بش انتخابات سے چند ہفتے قبل پاکستان آئے اورجمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی کیلئے یا دوسرے لفظوں میں 2002ء کے انتخابات کا عمل دہرانے پر جنرل مشرف کو شاباش دی لیکن جنرل مشرف کی بدقسمتی کہ انہوں نے 29 نومبر 2007کو فوج کی قیادت جنرل کیانی کے سپرد کر دی اور جنرل کیانی نے انتخابات میں فوج اور آئی ایس آئی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی مشرف کی خواہش پورا کرنے سے انکار کر دیاجس کی وجہ سے ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے اور جنرل مشرف کے منصوبے خاک میں مل گئے۔اس امر سے واشنگٹن کے پالیسی ساز وں کی صفوں میں کہرام مچ گیا جس کا اظہار واشنگٹن ٹائمز اور یونائٹیڈ پریس نے ان الفاظ میں کیا: ’’واشنگٹن کے پالیسی ساز اس دن کویاد کر کے روئیں گے جب انہوں نے پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کے ذریعے تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا تھا ‘ کیونکہ جوجمہوری تبدیلی ابھری ہے اس کے سبب نواز شریف کیساتھ پس پردہ اسلم بیگ اور حمید گل جیسے دیرینہ امریکی مخالفین کا خطرناک اتحاد کامیاب ہوجائیگا۔
یہ اتحاد تو نہ بنا لیکن نواز شریف حکومت زیر عتاب ہے۔ ایک حملے کے بعد اب دوسرے حملے کا اعلان ہو چکا ہے اور پاکستان میں تبدیلی حکومت کی جو صورت حال بن رہی ہے وہ 1977 سے مختلف نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف جو عوامی خدمات سے واقف ہیں وہ جمہوری طریقے سے تبدیلی لانے کی تائید کرتے ہیں۔اسی لئے ایک طرف سول اورملٹری تعلقات میں خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف عمران خان حکومت کو اسلام آباد میں بند کرنے جا رہے ہیں جس کا دورانیہ شاید27نومبر تک طوالت اختیار کر جائے جب نئے آرمی چیف نے کمان سنبھالنی ہے اور نئے آرمی چیف کی ترجیحات خدا جانے کیا ہوں گی۔لہذاسازش کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اسلام آباد سے لیک ہونے والی خبر نے سول اورملٹری قیادت کے تعلقات پر پہلی ضرب لگائی ہے۔ انگریزی روزنامہ ڈان کے2 اکتوبر کے اخبار میں شائع ہونے والے مضمون کے ذریعے جنرل راحیل شریف کو وارننگ دی گئی ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انکے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو جنرل اسلم بیگ کے ساتھ کیا گیا تھا۔اس خبر سے حکمرانوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے جس کو زائل کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
میرے خلاف سازش کا جال پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1996 میں بنایا تھا اوراس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے رحمن ملک اس سازش کے ماسٹر مائنڈ تھے جبکہ استغاثہ کے اہم گواہ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اسد درانی تھے جنہیں آئی ایس آئی کی کمان سے اس لئے ہٹا دیا گیا تھا کہ وہ وردی میں ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کیاکرتے تھے۔ایک سزا یافتہ مجرم یونس حبیب اور اسی طرح کے گواہوں کو سپریم کورٹ طلب کر کے میرے خلاف گمراہ کن شہادتیں اکٹھی کی گئیں اور دوسری جانب مجھے آئینی حق سے محروم رکھا گیا اور عدالت عالیہ جو کہ ٹرائیل کورٹ نہیں ہے’بیس سالوں تک میرا ٹرائیل کرکے میرے خلاف مجرم ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ یہ مقدمہ ائر مارشل اصغر خان کی درخواست پر دائر کرایا گیا تھا جو بذات خود ایک سازشی ہیں۔انہوں نے فوج سے بھٹو کو پھانسی دینے اور انہیں جیل میں ڈالنے کا انتقام لیا جس کے سبب فوج کے چہرے کو داغدار بنانے والے گیارہ سالہ دورکا آغازہوا۔یہی ان کا انتقام تھالیکن اس کے باوجود بھٹو کی بیٹی نے اسی اصغرخان کومیرے خلاف بے بنیاد الزامات پر مبنی درخواست دائر کرنے کیلئے منتخب کیا۔ مجھ پر الزام تھا کہ ‘‘1990 کے انتخابات میں آئی ایس آئی کی جانب سے کی جانے والی کاروائی کا مجھے علم تھا جس کی بنیاد 1975 میں ذوالفقار علی بھٹوکا جاری کردہ حکمنامہ اور منتخب صدرکے احکامات تھے۔’’
2 نومبراور اسکے بعد جو صورتحال ابھرے گی وہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اعصاب کیلئے کڑا امتحان ہوگی کیونکہ ایک جانب پانامہ لیکس کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے؛ دوسری جانب بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور ایسے مشکل وقت میں اسلام آباد کو بند کرنے کیلئے احتجاجی تحریک چلائی جارہی ہے جس سے حکومتی حلقے پریشان ہیں کہ وہ کس طرح حفاظتی اقدامات کو موثر بنائیں۔اس صورتحال میں نواز شریف کو یہ اختیار ہے کہ وہ سول حکومت کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر یں تاکہ حکومت کو کام کرنے سے غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوششیں ناکام بنائی جاسکیں اورجنرل راحیل شریف پابند ہوں گے کہ وہ حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کرکے باعزت طریقے سے فوج سے ریٹائر ہو جائیں۔ہمیں امید ہے کہ فوج غیر آئینی طریقے سے حکومت کی تبدیلی کی کوششوں کو روکے گی چاہے پانامہ لیکس کے مقدمے میں سپریم کورٹ وزیراعظم اور انکی خاندانی اور سرمایہ داری حکومت کیخلاف کوئی بھی فیصلہ سنائے ‘ حکومت اور اقتدار ناگزیر نہیں ہوتے۔
2005 میں امریکہ نے بھارت کیساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیا جسکے اغراض و مقاصد افغانستان سے بنگلہ دیش تک بھارت کی بالادستی قائم کرنا اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا تھا۔افغانستان میں جہادیوں نے ان سب کو شکست سے دوچار کرکے انہیں اپنی طاقت کے مرکز کو ایشیا پیسیفک کی جانب منتقل کرنے پر مجبور کردیا۔اس طرح جو خلاء پیدا ہوا’ اسے چین نے پاکستان میں سی پیک مرکز قائم کر کے پر کر دیا ہے۔لہذا دشمنوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت کا ہونا لازم ہے جو چین کے ساتھ پاکستان کی شراکت کو محدود کرے۔2 نومبر اور اس کے بعد کیا ہوگا ہمیں اس کا کوئی علم نہیں البتہ ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ اصغر خان کی طرح عمران خان فوج سے انتقام لینے کی کوشش میں نہیں ہیں۔