منتخب کردہ کالم

فاٹا ۔ کون کیوں رکاوٹ ہے…سلیم صافی

فاٹا ۔ کون کیوں رکاوٹ ہے…سلیم صافی
رل گئے تو فاٹا کے عوام ۔ مر گئے تو فاٹا کے عوام ۔ بے گھر ہوئے تو فاٹا کے عوام ۔ ایف سی آر نے غلام بنایا تو عام قبائلی کو ۔ نہ عمران خان اس نظام سے متاثر ہوئے ، سراج الحق اور نہ اسفندیار ولی خان ۔ میاں نوازشریف اور نہ آصف زرداری وغیرہ۔ فاٹا کے ایم این ایز اور سینیٹرز بھی اس نظام کے متاثرین نہیں بلکہ بینیفشریز (Benefishries) ہیں ۔ کوئی اور نہیں خود فاٹا کا نوجوان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ وہ ایف سی آر کے غلامانہ نظام کا خاتمہ اور خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام چاہتا ہے اور یہ انہی کا دبائو ہے کہ جس کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں بھی متحرک ہوگئیں ، انہی کے موڈکو دیکھ کر عسکری قیادت بھی اپنی سوچ تبدیل کر چکی اور انہی کے دبائو کی وجہ سے فاٹا کے ایم این ایز اور سینیٹرز بھی پختونخوا کے ساتھ انضمام کی مخالفت نہیں کر سکتے ۔ لگتا ہے کہ اب کی بار اقتدار میں آنے کے بعد محترم میاں نوازشریف نے سوچ سمجھ کر تمام اداروں کو بے وقعت کرنے کا پروگرام بنا یا تھا۔ اس کی ایک مثال صدر مملکت کے منصب پر سید ممنون حسین صاحب کی تعیناتی تھی ۔ وہ عوامل تو اپنی جگہ کہ وہ اپنی شیروانی درست نہیں کر سکتے اور میاں شہباز شریف کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بھی صدارتی کرسی پر انہیں براجماں کر دیتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کی رو سے وہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقے جس پر پاکستان کے تمام دشمن اپنی پراکسیز کے ذریعے حملہ آور ہیں اور جہاں بلوچستان کی طرح پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑی جارہی ہے ، کے تنہا قانونی والی وارث ہیںلیکن انہوں نے پاکستان میں اگر کوئی علاقہ نہیں دیکھا تو وہ یہی فاٹا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت کے عہدے کے لئے ان کی نامزدگی کی میں نے بھرپور مزاحمت کی اور التجائیں کرتا رہا کہ سرتاج عزیز یا سردار مہتاب میں سے کسی کو صدر منتخب کرایا جائے تاکہ وہ فاٹا کے معاملات کو کسی حد تک سمجھتے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ وہ فوج اور حکومت کے مابین مصالحت کار کا کردار بھی ادا کرسکیں لیکن میاں صاحب کو صدر کے روپ میں خادم چاہئے تھا ، ا س لئے عشق ممنون میں مبتلارہے ۔ ڈیڑھ سال قبل انہوں نے ایک دن مجھے گپ شپ کے لئے ظہرانے پر مدعو کیا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ جس طرح شہباز شریف پنجاب کے اور پرویز خٹک خیبرپختونخوا کے چیف ایگزیکٹو ہیں ، اسی طرح وہ فاٹا کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ دونوں تو اپنے اپنے صوبوں کا قانون تبدیل نہیں کرسکتے بلکہ وہ اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنے کے پابند ہیں لیکن صدر کو فاٹا کے قانون کو تبدیل کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے لیکن اس کے باوجود آج تک انہوں نے فاٹا کے کسی بھی علاقے کا دورہ نہیں کیاجو بہت زیادتی ہے ۔ اس پر انہوں نے قریب بیٹھے ہوئے ملٹری سیکرٹری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو جانا چاہتا ہوں لیکن یہ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ وہاں حالات خراب ہیں ۔ اس پر میں نے انہیں تسلی دی کہ صدر صاحب ایسی بات نہیں ۔ اگر آپ وزیرستان نہیں جاسکتے تو نہ جائیں لیکن مہمند ایجنسی ، خیبر ایجنسی اور باجوڑ ایجنسی میں حالات مکمل قابو میں ہیں ۔ آپ کم از کم وہاں چلے جاتے ۔ انہوں نے کوشش کا وعدہ کیا اور پھر ہم فاٹا سے متعلق دوسرے معاملات پر گفتگو کرنے لگے ۔ جب میں اجازت لے رہا تھا تو انہوں نے قلم اور کاغذ منگوا کر مجھ سے کہا کہ صافی صاحب آپ نے قبائلی علاقوں کی جن ایجنسیوں کانام لیا تھا ، جہاں نسبتاً امن ہے ، ان کا نام ذرا مجھے پھر بتا دیں ۔ میں نے وہ نام ان کو دوبارہ بتادئیے جو انہوں نے اپنے پاس نوٹ کرلئے اور میں بوجھل دل کیساتھ اجازت لے کر وہاں سے رخصت ہوا۔ اس صدر مملکت کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات سے متعلق سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سامنے آئیں ، کابینہ نے ان کی منظوری دی ، ایک سال سے وہ معاملہ پارلیمنٹ میں لٹکاہوا ہے لیکن اس موقع پر اگر کسی فرد کے منہ سے فاٹا سے متعلق کوئی لفظ نہیں نکلا تو وہ قبائلی علاقوں کے یہ بادشاہ ممنون حسین ہیں ۔
اب مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمود خان اچکزئی اس پر تو خوش ہیں کہ قبائلی علاقوں کے قسمت کے مالک کراچی سے تعلق رکھنے والے یہی ممنون حسین رہیں جن کی اپنی قسمت بھی لاہور کے میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے لیکن خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں اگر ان کے ووٹ سے کوئی پختون ان کا وزیراعلیٰ بنتا ہے تو ان دونوں کو یہ فاٹا کے ساتھ زیادتی نظرآتی ہے۔ جب اٹھارویں آئینی ترمیم تیار ہورہی تھی تو مولانا فضل الرحمان صاحب اسی طرح آصف علی زرداری کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ، جس طرح ان دنوں میاں نوازشریف کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ۔ تب مولانا نے نہ تو فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا اور نہ یہ تجویز پیش کی کہ دوسرے صوبے کے صدر کی بجائے فاٹا سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو وہاں کا چیف ایگزیکٹو بنایا جائے ۔ اٹھارویں آئینی ترمیم تیار کرنے والی کمیٹی میں محمود خان اچکزئی صاحب کی پارٹی کے نمائندے بھی بیٹھے تھے ۔ انہوں نے بھی ایسی کوئی تجویز نہیں دی ۔ حاجی منیر اورکزئی جو اس وقت مولانا فضل الرحمان کی پارٹی میں ہیں ، اس وقت فاٹا کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اٹھارویں آئینی ترمیم تیار کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے ۔ تب انہوںنے فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا اور نہ نظام میں تبدیلی کی کوئی اور تجویز دی ۔ بلکہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں یہ تبدیلی کی گئی کہ خیبر پختونخوا کا گورنر صوبے کا رہائشی تو ہوگا لیکن فاٹا کا رہائشی گورنر نہیں بن سکتا ۔ دوسری طرف صدر مملکت کے نمائندے کی حیثیت سے گورنر خیبر پختونخوا ہی فاٹا کا چیف ایگزیکٹو ہوا کرتاہے ۔ اب جس قانون کو ان صاحبان نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر تیار کیا اس کی رو سے کبھی ایبٹ آباد کے سردار مہتاب فاٹا کے بادشاہ ہوں گے اور کبھی پشاور کے اقبال ظفر جھگڑا لیکن کبھی کوئی قبائلی اپنے علاقے کا چیف ایگزیکٹو نہیں بن سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ قانون منظور ہورہا تھا تو اس وقت قبائلی علاقوں کے ان دونوں غم خواروں نے اس زیادتی کا راستہ کیوں نہیں روکا اور اس وقت فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟۔
جس کمیٹی نے فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی سفارش قبائلی عوام کے ساتھ مشاورت کے بعد دی ہے ، وہ کمیٹی میاں نوازشریف نے قائم کی ہے جس کا ساتھ نہ دینے والے کو اچکزئی صاحب بے غیرت سمجھتے ہیں ۔ مولانا اور اچکزئی صاحب کو شکایت ہے تو وہ نوازشریف اور سرتاج عزیز سے ہونی چاہئے اور ان کے سوالوں کا جواب کسی اور کو نہیں بلکہ سرتاج عزیز ، اقبال جھگڑا ، قادر بلوچ اور جنرل جنجوعہ کا فرض ہے یا پھر اکرم درانی کا فرض ہے کیونکہ جس وفاقی کابینہ نے ان سفارشات کو منظور کیا ہے ، اس میں اکرم خان درانی بھی شامل تھے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مولانا اور اچکزئی صاحب حکومت سے نکل جاتے اور پھر اعتراض اٹھاتے لیکن ایک طرف وہ حکومت اور میاں نوازشریف سے چمٹے ہوئے اور دوسری طرف قبائلی علاقوں کے دور غلامی کو طویل کررہے ہیں ۔ فاٹا اور خیبر پختونخوا کا انضمام وہاں کے عوام کی واضح اکثریت چاہتی ہے ۔ فاٹا کے انیس اراکین پارلیمنٹ کی دستخط شدہ قرارداد سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کا حصہ ہے جو انہوں نے کمیٹی کے قیام سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کی تھی اور اس میں پہلا آپشن انضمام کا ہے ۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی اس کے حق میں قرارداد پاس کرچکی ہے ۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایسا چاہتی ہیں ۔ اب تو فوج نے بھی واضح کردیا کہ وہ بھی انضمام چاہتی ہے ۔ نہیں چاہتیں تو سی آئی اے ، را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس نہیں چاہتیں ۔ ان پاکستان مخالف ایجنسیوں کی خواہش ہے کہ قبائلی علاقے اسی طرح سرزمین بے آئین بنے رہیں تاکہ ان کو وہ پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرسکیں ۔ وہ چاہتی ہیں کہ قبائلی عوام اسی طرح محروم اور ریاست سے خفا رہیں تاکہ انہیں آسانی کے ساتھ ریاست پاکستان سے لڑوایا جاسکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقے پاکستان میں مکمل مدغم نہ ہو ںتاکہ ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو زندہ رکھ کر وہ پاکستان کو بلیک میل کرتے رہیں ۔ مجھے مولانا محترم کی حب الوطنی پر کوئی شک ہے اور نہ محمود خان اچکزئی صاحب کی ،لیکن سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہوں نے کیوں ایسا راستہ اپنا لیا ہے کہ جس سے نقصان ہورہا ہے تو قبائلیوں اور پاکستان کا ہورہا ہے اور کام آسان ہورہا ہے تو پاکستان مخالف قوتوں کا ہورہا ہے ۔ مجھے تولگتا ہے کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مخصوص قوتیں اب قبائلیوں کو خیبر پختونخوا کے ساتھ اور پھر قبائلیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش تیار کررہی ہیں ۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ پچاس فی صد سے زائد قبائل خیبر پختونخوا میں رہ رہے ہیں ۔ وہ اس صوبے کے کالج، یونیورسٹی اور اسپتال وغیرہ استعمال کررہے ہیں ۔ یہ آفریدی، مہمند اور وزیر خیبرپختونخوا کے شہروں سے منتخب ہوتے اور اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس قبائلی محسود ہیں ۔ اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب قبائلی آفریدی ہیں ۔ فاٹا کے الگ صوبے کے داعی یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ خیبر پختونخوا فاٹا کے ساتھ ظلم کررہا ہے یا پھر کرے گا ، حالانکہ فاٹا کا استحصال ہمیشہ مرکز نے کیا ہے اور پختونخوا نے ہمیشہ ان کا مفت میں بوجھ اٹھایا ہے ۔ اب فاٹا الگ صوبہ بن سکتا ہے اور نہ بننے کا امکان ہے لیکن اس نعرے کے ذریعے قبائلیوں کے خلاف خیبرپختونخوا میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہونے کا امکان ہے اور کل کوئی یہ سوال اٹھاسکتا ہے کہ جو لوگ ہمارے وجود کا حصہ نہیں بننا چاہتے ، وہ کیوں ہمارے صوبے کے وسائل استعمال کررہے ہیں یا پھر مختلف شکلوں میں ہم پر حکمران کیوں کررہے ہیں ۔ پھر قبائلی اس بات پر لڑیں گے کہ ان کا دارالحکومت انتہائی شمال میں واقع باجوڑ ہو یا پھر انتہائی جنوب میں واقع وزیر ستان ۔ گزشتہ پانچ سالوں میں قبائلیوں کے نمائندے اپنے علاقے کے لئے منظور ہونے والی واحد یونیورسٹی کے بارے میں نہ کرسکے اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ یونیورسٹی فاٹا کے علاقے سے باہر خیبر پختونخوا میں قائم ہورہی ہے تو ایسے عالم میں صوبائی دارالحکومت کا فیصلہ کیسے ہوسکے گا۔