منتخب کردہ کالم

فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف ایک اور قدم .. ارشد بشیر

کسی بھی ریاست کو فلاحی ریاست اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب وہ عوام کی معاشرتی ضروریات کا خیال رکھے اور عوام تک ان ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے یقینی بنائے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد بھی ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل تھا جہاں مستحق اور ضرورت مند افراد کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر آسکیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں پاکستان کے مالی حالات کچھ اس قسم کے رہے کہ حکومتیں اپنے معاشرتی فرائض سے غافل نظر آئیں اس غفلت کی وجہ سیاسی اور معاشی طور پر پاکستان کا غیر مستحکم ہونا تھا جس کی وجہ سے پالیسیوں کا تسلسل جاری نہ رہ سکا اور عوام ان بنیادی سہولیات سے محروم رہے جو ان کا حق تھا ۔ بنیادی ضروریات کا ذکر کریں تو ان میں علاج معالجہ کی بنیادی سہولت ہر شہری کا حق ہے۔ حکومتیں آئی جاتی رہیں لیکن عوام کے اس بنیادی مسئلہ کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔
موجودہ حکومت نے 2013میں اقتدار سنبھالا تو اس کے سامنے مسائل کا انبار تھا اور انتہائی خستہ حال معیشت کی بدولت عوام کی معاشرتی ضروریات جو ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے پورا کرنا انتہائی مشکل ترین مرحلہ تھا۔ حکومت نے دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کی طرف بھی خصوصی توجہ دی اور غریب اور مستحق افراد کے لیے “وزیراعظم قومی پروگرام برائے صحت “کا آغاز کیا ۔اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے ہیلتھ انشورنس سکیم شروع کی ہے ۔انشورنس کی رقم اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو حکومت ادا کرئے گی۔ اس پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد ان لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں مفت فراہم کرنا ہے جو بیماری کی صورت میں علاج معالجے کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تاکہ انہیں بغیر کسی معاوضے کے یہ سہولت فراہم کی جاسکے۔

پاکستان میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو مالی طور پر بہت کمزور ہیں یا یوں کہہ لیں کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔بیماری کی صورت میں علاج کروانا تو درکنا ر ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ دو وقت کی روٹی ، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور سر ڈھانپنے کے لیے مکان اگر انہیں مل جائے تو اسی کو وہ اپنی کل کائنات سمجھتے ہیں اور اپنے پیاروں کے لیے اگر کوئی بیمار ہوجائے تو یہی مکان فروخت کرنے تک بھی نوبت آجاتی ہے۔
موجودہ حکومت نے ایسے ہی مستحق افراد کے لیے وزیراعظم کا قومی پروگرام برائے صحت کا آغاز کر دیا ہے اس پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ مستحق اور ضرورت مند لوگوں کوہیلتھ کیئر کا رڈز جاری کیے جائیں گے اور انہیں کارڈز کی مدد سے یہ لوگ مختلف سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواسکیں گے جسکا خرچ حکومت برداشت کرے گی۔ اس کارڈ کی خصوصیت یہ بھی ہوگی کہ خاندان کا کوئی بھی فرد اس کارڈ پر مفت علاج کرواسکے گا۔پہلے مرحلے میں 12لاکھ افراد اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے اور اس مقصد کے لیے بجٹ میں نو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ بعد میں اس سہولت کو ملک کے دیگر اضلاع نارووال، خانیوال، سرگودھا ، شیخوپورہ ، بدین، شہید بے نظیر آباد، سانگھڑ،مردان، مالاکنڈ کوھاٹ، کوئٹہ لورالائی لسبیلہ، کیچ، مظفر آباد کوٹلی دیمامر، سکردو، باجوڑ،ایجنسی، خیبر ایجنسی اور آئی سی ٹی ICTتک پھیلا دیا جائے گا۔ ان کارڈز کی مدد سے ایسے افراد جن کی یومیہ آمدن دوسو روپے سے کم ہے سات بیماریوں کا علاج کروا سکیں گے۔ ان بیماریوں میں دل کی بیماریاں، شوگر،کینسر ، حادثات، جل جانا،زندگی بچانے کے لیے انسانی اعضا کا علاج ، یرقان ، زچگی، سرجیکل اور گردوں کا علاج اور دیگر ایسی بیمایاں شامل ہیں جن کا علاج انتہائی مہنگا ہے ۔ہیلتھ کارڈ ہولڈر ہر سال تین لاکھ روپے تک کامفت علاج کروانے کا حقدار ہوگا اور اگر اس سے زیادہ خرچ آئے گا تو وہ پاکستان بیت المال ادا کرے گا۔ پاکستان

میں 55فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی دو سو سے کم ہے ۔ قومی ہیلتھ کا رڈ جاری کرنے کے لیے اعدادوشمار کا تعین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہوگا۔ جب مریض ہسپتال داخل ہوگا تو اسٹیٹ لائف انشورنس کا رپوریشن کے ذریعے اس کا علاج شروع ہو جائے گا۔
وزیراعظم محمد نواز شریف نے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں 21اکتوبر2016کو اس پروگرام کے تحت غریب اور مستحق افراد میں قومی ہیلتھ کارڈ تقسیم کیے۔ حکومت کی یہ کاوش فلاحی معاشرے کے قیام کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے جس کے لیے موجودہ حکومت مبارک باد کی مستحق ہے۔ گو کہ مالی مشکلات آڑے آرہی ہیں لیکن عزم پختہ ہو ں تو منزلیں خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت حکومت غریب اور مستحق افراد کی امداد میں پہلے ہی اضافہ کر چکی ہے جس سے لاکھوں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب قومی ہیلتھ پروگرام کے تحت بھی لاکھوں لوگ علاج معالجے کی مفت سہولیات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے فلاحی پروگراموں کا دائرہ کار پاکستان کے دوردراز پسماندہ علاقوں تک وسیع کرے اور گھر گھر اس پروگرام کی تشہیر ہونی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
***********