منتخب کردہ کالم

قانون سب کے لئے ایک جیسا ؟ .. کالم افتخار احمد

قانون سب کے لئے ایک جیسا ؟ .. کالم افتخار احمد

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ہاتھوں اثاثہ جات کو چھپانے کے جرم میں نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کھل کر اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی نظر میں سپریم کورٹ نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا اور انہیں ایک ایسی بنیاد پر وزیر اعظم کے عہدے سے چلتا کیا جس کا ان پر لگنے والے الزامات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔راولپنڈی سے لاہور تک اپنے چار روزہ مارچ میں انہوں نے جس مقام پر بھی عوام سے خطاب کیا وہاں اس بات کا ذکر ضرور کیا کہ ان کویہ سزا صرف اس لئے دی گئی کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ عوام کے منتخب وزیر اعظم کوتر نوالہ ہی سمجھا ہے۔ اسی وجہ سے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی وزیر اعظم بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔
ان گزرے دنوں میں نواز شریف کی کہی گئی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ایک بات بہر حال ہمیں ماننا پڑے گی کہ نواز شریف کے ساتھ پانامہ کیس میں امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری اس بات سے یقیناََ بہت سے لوگ اتفاق نہیں کریں گے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مجھے سوشل میڈیا پر لفافہ لینے اور اپنے ضمیر کا سودا کر لینے کے طعنے بھی دے گی اور کچھ دل جلے تو مجھے میری آخرت کے بارے میں بھی ڈرائیں گے۔ ویسے آخرت کے بارے میں سوشل میڈیا پر دیئے جانے والے طعنے سن کر مجھے پینتالیس سال پہلے کا وہ سپاہی یاد آجاتا ہے جس نے مجھے لاہور قلعہ میں اسیری کے دوران ایک کتاب” موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہوگا” لا کر دی تھی۔ شاید اس بیچارے کا خیال تھا کہ قید تنہائی میں وہ کتاب پڑھنے کے بعد میں کچھ سدھر جائوں گا لیکن پھر بھی میرے سر سے انقلاب کا بھوت نہیں اترا۔
۔۔۔اور چونکہ پرانی عادتیں اتنی آسانی سے جان نہیں چھوڑتیں اسی لئے شاید میں یہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ عدالت کی جانب سے امتیازی سلوک برتا گیا ہے۔ ہمیں ہمیشہ سے یہ بتایا گیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں لیکن جس طرح سے پاناما کیس کو ہینڈل کیا گیااس سےمذکورہ بیانیے کی نفی کا تاثر ملتا ہے۔ پاناما کی فرم کی دستاویزات لیک ہونے کے بعد سے لے کر آج تک صرف ایک فرد اور اس کے خاندان کے خلاف ہی کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ میری اس بات کو یار لوگ اپنی مرضی کا رنگ نہ دے سکیں اس لئے میں یہ وضاحت کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کوئی طرفداری نہیں کر رہا، اگر ان کے خلا ف نیب اتنے ثبوت اکٹھے کر لیتی ہے جن کی مدد سے ان کو احتساب عدالت سے سزا دلوائی جا سکتی ہے توبے شک انہیں سزا ہونی چاہئے۔
میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ جب قانون کی نظر میں سب افراد برابر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے دائر کی جانے والی اس درخواست کو قابل سماعت نہیں سمجھاگیا جس میں پاناما کیس میں آنے والے تمام افراد سے تحقیقات کرنے کی استدعا کی گئی
تھی ؟ ویسے تو ابتدائی طور پر نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پاکستان تحریک انصاف اور شیخ رشید کی درخواستوں کو بھی ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا گیا تھا لیکن پھر جب عمران خان اور ان کی پارٹی نے لاک ڈائون کا اعلان کیا تو امن وامان کو درپیش خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان اور دیگر جماعتوں کو پھر سے اپنی درخواستیں دائر کرنے کا کہا۔ اس سب کے دوران جماعت اسلامی بھی پانامہ کیس میں نامزد تمام افراد کو تحقیقات کے دائرے میں لانے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی اور پھر کئی مہینوں پر محیط سماعتوں کے بعد جب عزت ماب جج صاحبان نے اپنا تاریخی فیصلہ سنایا تو مجھے قوی امید تھی کہ جج صاحبان نہ صرف نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں فیصلہ دیں گے بلکہ متعلقہ ریاستی اداروں کو پاناما میں نامزد دیگر افراد کے خلاف بھی ایکشن لینے کا حکم دیں گے۔ آخر کار اس کیس کو سننے کے لئے عدالت عالیہ نے آئین کی جس شق ایک سو چوراسی تین کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کیا تھا وہ کسی شخص کی انفرادی حیثیت نہیں بلکہ عوامی اہمیت کے حامل کیسز کے بارے میں ہے ۔
لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، سپریم کورٹ نے خود اس کیس کی سماعت کے دوران بارہا اس بات کا تذکرہ کیا کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن اپنے فائنل فیصلے میں اس بارے میں بھی کوئی ڈائریکشن نہیں دی گئی۔ اگرچہ ان اداروں کی اہلیت پر شک کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے ایک معزز جج صاحب کو نہ صرف شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس تیار کرنے اور انہیں دائر کرنے کے عمل کی نگرانی پر معمور کیا بلکہ احتساب عدالت کی کارروائی کو مانیٹر کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ اب اگر کوئی یہ سوال اٹھائے کہ جناب کیا کسی اور کرپشن کے مقدمے میں بھی ایسی سہولت دستیاب ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو کیا یہ امتیازی سلوک نہیں ؟
اگر نیب ایک نا اہل ادارہ ہے تو کیا اس کی نااہلی کا فائدہ صرف نواز شریف اور ان کا خاندان ہی اٹھا رہا تھا ؟ اسی سپریم کورٹ کے سامنے دو ہزار پندرہ میں نیب کی جانب سے ایک سو پچاس میگا کرپشن کے کیسز کی لسٹ جمع کروائی گئی، آج تک ان کیسز میں سے کتنے عدلیہ کی خصوصی ڈائریکشن اورنگرانی کے تحت چلائے گئے ہیں؟ اب تو حدیبیہ پیپر ملز کیس کے بارے میں بھی نیب نے کہہ دیا ہے کہ وہ نہیں چل سکتا اور ظفر حجازی بھی آزاد زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ نچلی عدالت نے انہیں اس بنا پر ضمانت پر رہا کر دیا ہے کیونکہ ابھی یہ بات ثابت کرنا باقی ہے کہ انہوں نے ہی ریکارڈ میں ردو بدل کے احکامات جاری کئے تھے۔
بہت معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ پانامہ کیس میں دیا جانے والا فیصلہ ایک پاپولر فیصلہ ضرور تھا لیکن اس کے کچھ زیادہ دور رس نتائج نہیں ہوں گے ۔ایک شخص یا اس کے خاندان کے خلاف کیسز چلا کر احتساب کی فتح کے نعرے لگاتے ہوئے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایک خاندان کو سزا دینے سے ہم ملک سے کرپشن ختم نہیں کر سکتے کیونکہ افراد کے خلاف کارروائی کر دینے سے نظام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر میری بات کا یقین نہ ہو تو آئندہ سرکاری کام کرواتے ہوئے ،رشوت طلب کرنے والے سرکاری ملازم کو یہ ضرور بتائیے گا کہ نواز شریف کے جانے کے بعد اسے آپ سے رشوت طلب کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے،آپ کو یقیناََ میری بات سمجھ میں آ جائے گی۔

………….
اگلا کالم
………..