منتخب کردہ کالم

قبل از وقت انتخابات ،عمران کا لایعنی مطالبہ، تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

قبل از وقت انتخابات ،عمران کا لایعنی مطالبہ، تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

عمران خان نے اچانک قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ حالانکہ ابھی انہیں لاہور کے حلقہ این اے 120 کا الیکشن ہارے ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ اس سے پہلے ملک بھر میں جہاں جہاں بھی ضمنی انتخاب ہوا ہے، سوائے جہانگیر ترین کے ان کے تمام امیدوار ہارتے رہے ہیں، یہاں تک کہ خود انہوں نے عام انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی جو دو نشستیں (پشاور، میانوالی) خالی کی تھیں، ان پر بھی ان کے نامزد امیدوار ہار گئے تھے، ان کے ووٹ بھی بتدریج کم ہوتے رہے ہیں، اس لئے نئے انتخابات میں ان کی فوری دلچسپی کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ البتہ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگلے برس مارچ میں سینیٹ کے جو الیکشن ہو رہے ہیں، ان میں پنجاب کی تمام نشستیں (گیارہ) مسلم لیگ (ن) جیت جائے گی۔ بلوچستان میں بھی مسلم لیگ (ن) کے حصے میں کئی نشستیں آجائیں گی۔ اس طرح سینیٹ میں اس کی پوزیشن بہت بہتر ہو جائے گی۔ خیال ہے کہ ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ اگر عام انتخابات پہلے ہو جائیں تو پنجاب میں مسلم لیگ کی نشستیں کم ہوسکتی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر نئی پنجاب اسمبلی سینیٹ کے ارکان کا انتخاب کرے گی تو کچھ نشستوں کی امید باقی جماعتیں بھی رکھ سکیں گی۔ جو موجودہ صورت میں ممکن نہیں۔ اگر موجودہ اسمبلی سینیٹ کے ارکان کا انتخاب کرے تو مسلم لیگ (ق) کی سینیٹ میں نمائندگی صفر ہو جائے گی۔ اس وقت اس کے جو ارکان سینیٹ میں موجود ہیں، ان کی مدت 18 مارچ 2018ء کو ختم ہو جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے سوچا ہوگا کہ اس وقت نواز شریف خاندان کے لوگ نیب عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اس لئے ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ انتخاب پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھ سکیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے اثرات بھی ابھی باقی ہیں۔ اس لئے عمران خان کے خیال میں اگر اس موقع پر انتخابات ہوتے ہیں تو وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن حکمران جماعت سمیت ملک کی تمام بڑی جماعتیں قبل از وقت انتخابات کے حق میں نہیں ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ابھی منتخب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، وہ ہموار طریقے سے حکومت کر رہے ہیں۔ اس لئے وہ قبل از وقت انتخابات کرانا نہیں چاہیں گے۔ قومی اسمبلی میں تو مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ حلیف جماعتیں بھی اس کے ساتھ ہیں، حکومت کو تازہ کامیابی تو سینیٹ میں بھی حاصل ہوگئی ہے جہاں اس نے انتخابی بل ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کرالیا ہے اور قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کی ترمیم مسترد ہوگئی، جس کے بعد نواز شریف کے لئے پارٹی صدارت دوبارہ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کے سات ارکان ہیں، جو سب کے سب ووٹنگ کے وقت غیر حاضر تھے، ان میں سے دو ارکان بھی اگر موجود ہوتے تو بل منظور نہیں ہوسکتا تھا، لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ساتوں کے ساتوں ارکان ووٹنگ کے وقت غیر حاضر تھے۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ حتیٰ کہ سراج الحق بھی نہیں تھے، جنہوں نے بل کی منظوری کے بعد غصے سے بھرا ہوا ایک بیان بھی جاری کر دیا ہے، لیکن ان سب لوگوں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ سینیٹ میں ان کی بھی کوئی ذمہ داری تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی اندرون خانہ خاموش حمایت سے یہ بل منظور ہوا ہے، جو لوگ مسلم لیگ (ن) کو اخلاقی زوال کے طعنے دے رہے ہیں، وہ اس ضمن میں اپنے کردار پر توجہ نہیں دے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسری جماعتیں اگر قبل از وقت عام انتخابات کی حمایت نہیں کرتیں تو اکیلے عمران خان اپنا یہ مطالبہ منوانے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ ایجی ٹیشن تو وہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن لاہور کی شکست کے بعد نہیں لگتا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی منظم تحریک چلا سکیں گے۔ این اے 4 کا الیکشن بھی اگلے ماہ کی 26 تاریخ کو ہو رہا ہے، اس کے نتیجے پر بھی بہت سا انحصار ہے، اس ایک نشست کے نتیجے سے پتہ چل جائے گا کہ تحریک انصاف صوبے میں کہاں کھڑی ہے۔ ویسے اگر عمران خان اپنی مقبولیت کا اندازہ کرنا چاہیں تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو کہیں کہ گورنر کے پی کے کو صوبے کی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیدیں، اس طرح صوبے میں 60 دن کے اندر انتخابات کرانے پڑیں گے اور عمران خان کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی پارٹی نے صوبے میں گڈگورننس کی جو مثالیں قائم کی ہیں، انہیں صوبے کا ووٹر کس نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بلین ٹری سونامی بھی لے کر آئے ہیں لیکن مخالفین اس منصوبے میں شفافیت نہیں دیکھتے۔ اس سلسلے میں بہت سے متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں صوبے کی حکومت نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔ تعلیمی نتائج البتہ اس دعوے کی توثیق نہیں کرتے، اسی طرح ڈینگی نے صحت کے شعبے کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ اس لئے اگر اس صورت میں انتخابات ہوتے ہیں تو ہمارا نہیں خیال کہ تحریک انصاف کو پہلے جیسی کامیابی حاصل ہو پائے گی۔ اس لئے پرویز خٹک یہ رسک بھی نہیں لیں گے کہ سیانوں کا خیال ہے کہ نو نقد نہ تیرہ ادھار، جو حکومت موجود ہے، فی الحال اسی پر اکتفا کرنا چاہئے۔