منتخب کردہ کالم

قومی صحت پالیسی قومی اتحاد کی متقاضی …سید حمزہ جیلانی

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بڑھتی ہوئی بیماریوں کی شرح پاکستان کے لیے عالمی سطح پر بھی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے ۔ حکومتوں کی تبدیلی بھی صحت کے شعبہ میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر سکی،یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتال مقام عبرت بن چکے ہیں اور درحقیقت صحت کی بجائے بیماریاں بانٹ رہے ہیں۔
کچھ عرصہ ہو ا ایک ٹرینگ کے سلسلے میں ملک کے کچھ سرکاری ہسپتالوں پر ایک جامع رپورٹ تیار کرنے کا ٹاسک مجھے سونپا گیا۔ جوں جوں میری تحقیق آگے بڑھتی رہی توں توں مجھے احساس ہوتا چلاگیا کہ جب تک غریبوں کے علاج کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو نہ صرف ان کی شرح اموات میں بے حد اضافہ ہوگا بلکہ امراض کے پھیلاو میں بھی شدت آئے گی۔
بعض سرکاری ڈسپنسریوں اور Basic Health Units (BHU) کا تو یہ عالم تھا کہ وہاں زخم پر لگانے والی عام سی دوا Pyodine بھی دستیاب نہیں تھی ۔کہیں بکریوں کا ریوڑ پرورش پا رہا تھا تو کہیں سرکاری ڈسپنسریوں میں گدھے اور گھوڑے بندھے تھے۔ یہ زوال کسی ایک حکومت کی کارکردگی کی طرف انگلی نہیں اُٹھاتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے صحت کے شعبہ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
اس لیئے ضرورت اس اَمر کی تھی کہ قومی سطح پر ایک منظم اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ایک منفرد صحت پروگرام متعارف کروایا جاسکے جس کے ذریعے پاکستان کے عوام مستفید ہو سکیں۔ غریب ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں یہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی خاص نہیں ، کیا امریکہ ، یورپ اور کینڈا میں

غریب نہیں پائے جاتے لیکن جب حکومت اُن کا دست و بازو بن جاتی ہے تو وہی غربت ایک ایسی طاقت میں تبدیل ہو جاتی ہے جو اُن کو اُس ملک کا مفید شہری بنا دیتی ہے ۔ جو ممالک اپنے شہریوں کو تعلیم اور صحت جیسی سہولتیں مفت فراہم کرتے ہیں وہاں کے شہری کم آمدنی ہونے کے باوجود با عزت اور پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی اس ہی قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ گزشتہ کئی برسوں میں عدم توجہی کے باعث خصوصاً صحت کے سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش موجود تھی ۔ ان ہی سب چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے 2015میں وزیر اعظم پاکستان قومی سطح پر ایک جامع پروگرام کا افتتاح کیا تھا جس کا مقصد غریب شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں مفت فراہم کرنا تھا ۔ اس کا آغاز 15اضلاع سے کیا گیااور تقریباً 12لاکھ خاندانوں کو قومی صحت کارڈ جاری کئے گئے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ غریب افراد اپنے کارڈ کے ذریعے سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔ اس سلسلے میں تین باتیں اہم ہیں پہلی تو یہ کہ سرکاری ہسپتال بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جس میں ناقص صفائی سے لے کر ادویات کی فراہمی اور ڈاکٹروں کی موجودگی شامل ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال اگر معیاری بن بھی جائیں تو ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ عوام الناس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ مفت علاج کی بھی کوئی حد ہوتی جو مہنگے اور پیچیدہ علاج ہیں اُن کا بوجھ ہر حال غریب عوام کو ہی اُٹھانا ہو تا ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان نے رحیم یار خان کے حالیہ خطاب میں ان تمام توجہ طلب مسائل ے متعلق اطمنان بخش لائحہ عمل پیش کیا ہے ۔ ہسپتالوں کی باقائدہ Up gradationکی جائے گی جس میں موجودہ ہسپتالوں کے معیار کو بلند کیاجائے گا ۔ علاوہ اَزیں وزیر اعظم نوازشریف نے دو مزید اہم اعلان کیئے ہیں پہلا تو یہ کہ ملک بھر میں 50جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال قائم کیئے جائیں گے اور وہ

سہولتیں جو سرکاری ہسپتال فراہم نہیں کر سکتا اگر غریب مریض اُن سہولتوں کے حصول کے لئے اگر کسی پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کروائے گا تو خرچہ حکومت کے ذمہ ہو گا ۔
وزیر اعظم پاکستان اس وقت مختلف قسم کے مسائل سے نبرد آزماہیں ۔ پاکستان کے اندر سیاسی کشمکشیں اپنے عروج پر ہیں، کراچی میں غیر یقینی کی صورتحال ہے ، بھارت نے پاکستان کو للکارنا شروع کیا ہوا ہے اور وزیر اعظم کے گرد پانامہ کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے یقیناًوزیر اعظم کا صحت کی سہولتوں کے متعلق پالیسی بیان بہت اہمیت رکھتا ہے ۔
پاکستان کے عوام جوشیلے بھی ہیں اور ہمدرد بھی کیاہی اچھا ہو کہ آئندہ آنے والے دنوں میں ہم عوام بھی صحت کے پروگرام میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں اور جو جس حیثیت میں مدد کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے ۔ کیا یہ 20کڑوڑ لوگ مل کر اپنے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتے ۔ جس جذبے سے ہم کرکٹ کا میچ دیکھتے ہیں اور جیت کے جشن میں گلی گلی پر رونق بنا دیتے ہیں اس ہی جذبے سے اگر ہم پاکستان کی ترقی کے لیئے کام کریں تو شاید دھرنوں کے لئے لوگ دستیاب ہی نہ ہوں۔
ہمیں بحیثیت قوم اپنی منزل کو شناخت کرنا ہے اور سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پاکستان کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتا ہے ۔ پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا مہرہ بنی ہوئی ہے جس کو وہ جب چاہتی ہے جیسے چاہتی ہے استعمال کرتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم پاکستان کا مہرہ بن جائیں اوراس وطن عزیز کی ترقی اور سالمیت کے لیئے کوشاں رہیں ۔
صحت کے میدان میں ترقی کرنے کے لیئے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے لیئے عوام کا تعاون ناگزیر ہے آئیں ہم عہد کریں کہ ہم پاکستان کی ترقی اورخو شحالی میں بھر پور کردار ادا کریں گے اور ملک کی ترقی کا راستہ روکنے والے ہر کردار کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کریں گے ۔