منتخب کردہ کالم

قومی مسائل پر اتحاد کی ضرورت؛ ظہیر اختر بیدری

ہمارے ملک میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ اس حوالے سے بڑی دلچسپ اور منفرد ہے کہ اس تاریخ میں ایک بھی اتحاد قومی اور عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے نہیں بنا۔ اتحاد خواہ وہ سول حکمرانوں کے خلاف بنا ہو یا فوجی حکمرانوں کے خلاف، اس کا ہمیشہ ایک ہی مقصد رہا ہے کہ حکمرانوں کو ہٹایا جائے۔

ایوب خان ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا اس کے خلاف بھی سیاسی جماعتیں ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے متحد تھیں اس حوالے سے یہ اتحاد اس لیے بامعنی تھا کہ ایوب خان ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا اور جمہوری معاشروں میں فوجی ڈکٹیٹر کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن حیران کن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک منتخب جمہوری سربراہ حکومت تھا۔ اس کے خلاف محض چند سیٹوں پر دھاندلی کے الزام میں سب سے بڑا اور موثر اتحاد بنایا گیا اور اس اتحاد کے ذریعے نہ صرف بھٹو کو اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ ضیا الحق جیسے لٹھ مار فوجی ڈکٹیٹر کو عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا اور عوام کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی نہ صرف 10 سال تک ایک فوجی آمر کو برداشت کرتے رہے بلکہ اس کی حکومت کا حصہ بن کر عوام کے مسائل میں اضافہ کرتے رہے۔

آج کل سیاسی جماعتوں میں نواز حکومت کے خلاف اتحاد بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اگرچہ کہ نواز حکومت کے خلاف کسی سیاسی اتحاد کے بننے کے امکانات کم ہیں لیکن بالفرض محال اگر کوئی سیاسی اتحاد بن بھی جائے تو اس کا واحد ایجنڈا صرف نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا ہی ہو گا اور اگر کوئی اتحاد نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب بھی ہوگیا تو۔۔۔۔عوام کے مسائل نہ صرف جوں کے توں رہیں گے بلکہ ان میں ممکنہ طور پر اضافہ ہی ہو گا کیونکہ نواز شریف کی جگہ ممکنہ طور پر ان کی پارٹی کا کوئی فرد ہی لے گا۔

اس اتحادی کلچر کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی کسی سیاسی جماعت کو نہ قومی مسائل سے کوئی دلچسپی ہے نہ عوامی مسائل کی کوئی پرواہ ہے۔ ہماری برسر اقتدار اشرافیہ ہمیشہ یہ بہانہ کرتی ہے کہ عوام کے مسائل انھیں ورثے میں ملے ہیں لیکن یہ بہانہ تراشتے وقت ان کی یادداشت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ ماضی میں برسر اقتدار رہنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں اور اس ملک کے 20 کروڑ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مسائل کے حل نہ ہونے کی جتنی ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ ذمے داری موجودہ حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ماضی اور حال دونوں کی حکومتوں کو عوامی مسائل سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں رہی۔

حال کی سیاست میں سب سے زیادہ فعال تحریک انصاف ہے، تحریک انصاف نے 2014ء میں جو بھونچال مچانے والی تحریک چلائی اس کا واحد ہدف بھی حکومت یعنی نواز شریف ہی تھے اور پانامہ لیکس کے حوالے سے جو تحریک چلائی گئی اس کا ہدف بھی شخص واحد نواز شریف ہی رہے۔ کیا تحریک انصاف کے قائدین یہ نہیں جانتے کہ نواز شریف کو ہٹانے سے قومی اور عوامی مسائل اپنی جگہ باقی رہیں گے۔ بلاشبہ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ کسی حکومت کو ہٹانے سے نہ قومی مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ عوامی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں جمہوری سیاست کا محور قومی اور عوامی مسائل ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں تو قومی اور عوامی مسائل کو کسی نہ کسی حد تک اہمیت دی جاتی ہے لیکن پسماندہ ملکوں کی جمہوریتوں میں قومی اور عوامی مسائل جان بوجھ کر پس پشت ڈالے جاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان جمہوریتوں میں اقتدار کے مالک اشرافیہ کے اکابرین ہوتے ہیں عوام کے نمایندے نہیں۔ جب تک اس صورتحال کو سمجھا نہیں جاتا محض حکمرانوں کو ہٹانے کا بے مقصد بے معنی کھیل جاری رہے گا۔ اور قومی اور عوامی مسائل ہمیشہ حل طلب ہی رہیں گے۔

اس بدترین اور بے معنی اتحادی کلچر سے چھٹکارا پانے کے لیے ان جماعتوں کو آگے آنا پڑے گا جو قومی اور عوامی مسائل کو اپنے ایجنڈے کا پہلا آئٹم سمجھتی ہیں، خواہ یہ جماعتیں کتنی بھی کمزور کیوں نہ ہوں۔ اس حوالے سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عوامی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو سخت مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی گاڑی دولت کے پیسوں پر چلتی ہے اور عوامی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں دولت سے محروم رہتی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عوام سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ جمہوریت سے سخت بیزار ہیں اگر عوامی سیاست کرنے والی جماعتیں قومی اور عوامی مسائل کے حل پر کوئی اتحاد بناتی ہیں تو جلد یا بدیر انھیں عوامی پذیرائی مل سکتی ہے اور عوام انھیں سر آنکھوں پر بٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ایسی سیاسی جماعتیں تذبذب سے نکل کر میدان سیاست میں خلوص اور عزم کے ساتھ آئیں اور عوام تک رسائی حاصل کریں۔