منتخب کردہ کالم

قِصّہ ایک بُھوت کے پھنسنے کا!…ایم ابراہیم خان

کامیابی اور ناکامی...ھارون الرشید

قِصّہ ایک بُھوت کے پھنسنے کا!…ایم ابراہیم خان

ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ انسان کا اختیار پیار پر ہے نہ شادی پر۔ کہتے ہیں دل کا کیا ہے، کسی پر بھی آسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پیش کی جانے والی مثال میں ایک بے وقوف سے جانور کی مادہ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے مگر ہم یہاں اُس کا نام لیکر اپنے کالم میں چڑیا گھر کا سماں پیدا نہیں کرنا چاہتے!
چاہنے پر کوئی پابندی ہے نہ چاہے جانے پر اختیار۔ انسان کسی کو بھی اپنی چاہت کے پنجرے میں بند کرسکتا ہے۔ شمالی آئر لینڈ کی امانڈا نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ کچھ مدت پہلے کی بات ہے اُسے ایک بھوت سے پیار ہوگیا! یہ بھی خوب رہی۔ انسان اور بھوت؟ یہ تو سُنا تھا کہ عشق بھوت بن کر انسان کے دل و دماغ پر سوار ہو جاتا ہے۔ مگر انسان کسی بھوت کو دل دے بیٹھے یعنی بھوت ہی پر سوار ہو جائے اِسے تو ”انتہائے فن‘‘ کہیے! پیار کرنے والے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ؎
جب چل پڑے سفر کو تو کیا مُڑکے دیکھنا
دنیا کا کیا ہے، اُس نے صدا بار بار دی
امانڈا نے کیا سوچ کر بھوت سے پیار کیا، یہ بات پوچھی نہیں جاسکتی کیونکہ پیار کرنے والوں سے پیار کا سبب پوچھنا بیٹھے بٹھائے دردِ سر کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیار کو درست ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کے دلائل کا آپ کے سامنے ڈھیر لگادیں گے اور آپ کی کوئی دلیل قبول تو درکنار، سننا بھی گوارا نہیں کریں گے۔
امانڈا نے جب اپنی انوکھی پریم کہانی کے بارے میں اہلِ خانہ اور دوستوں کو بتایا تو وہ پہلے حیران اور پھر خوفزدہ ہوگئے۔ خوفزدہ تو ہونا ہی تھا۔ امانڈا کے حلقۂ احباب میں کئی تھے جو امانڈا میں ون وے دلچسپی لیتے تھے۔ جس کسی نے بھی امانڈا پر ڈورے ڈالنے کا سوچ رکھا تھا وہ رقیبِ رُو سیاہ کی حیثیت سے بھوت کو مقابل پاکر خوف سے کانپے گا نہیں تو اور کیا کرے گا!
گھر والوںکو بھی پریشان ہونا تھا۔ امانڈا کوئی کنواری حسینہ تو ہے نہیں۔ اس کے پانچ بچے ہیں اور شوہر نے چھوڑ دیا ہے۔ بچے یوں پریشان ہوئے کہ انہیں ماں کی ضرورت ہے یعنی اس کی طرف سے توجہ درکار ہے اور ایک بھوت راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ سابق شوہر یہ سوچ کر خوش ہوا ہوگا کہ چلو، ایک بھوت کو بھی پتا تو چلے کہ میں نے کیا کیا ستم جھیلے ہوں گے!
امانڈا نے گزشتہ دنوں اپنے محبوب یعنی بھوتوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے جیک سے سگائی کی اور پھر شادی کرلی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امانڈا اور جیک کا افیئر کسی بھی صورت کرنٹ افیئر نہ تھا کیونکہ جیک سترہویں صدی کا تھا یعنی بھوت کی حیثیت اختیار کیے ہوئے جیک کو تین صدیاں بیت چکی ہیں! وہ جنوبی امریکا کے ملک ہیٹی کا سمندری قزاق تھا۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ تھا کہ جیک غیر شادی شدہ مرا تھا۔ ہوسکتا ہے امانڈا کے ذہن میں خیال کوندا ہو کہ فی زمانہ بیوی کو اُس کی مرضی کے مطابق شاپنگ کرانے کے لیے شوہر کا ڈاکو ہونا تقریباً ناگزیر سا ہوگیا ہے!
یہ بات بہت عجیب لگی کہ امانڈا نے بھوت بھی چُنا تو تین صدیاں پہلے کا۔ اور وہ بھی کنوارا۔ گویا مرتے دم تک جیک کو اندازہ ہی نہ ہوسکا تھا کہ گھریلو زندگی کیا ہوتی ہے۔ اب بخوبی اندازہ ہو جائیگا۔ سمندر میں ڈاکے ڈال کر اس نے خدا جانے کتنوں کو بربادی کے سمندر میں غرق کیا ہوگا مگر خود گھریلو زندگی کے کنویں میں ڈوبنے سے محفوظ رہا!
مرزا تنقید بیگ نے یہ خبر پڑھی تو ان کی رگِ ظرافت ایسی پھڑکی کہ ہمیں بلا بھیجا۔ ہم پہنچے تو وہ پوری تیاری کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اہل خانہ کو چائے بسکٹ کا آرڈر دیا۔ ہمارے پہنچنے پر جب وہ پہلی فرصت میں چائے بسکٹ کا آرڈر دیتے ہیں تو ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ ہماری کلاس لینے کی تیاری کیے بیٹھے ہیں! خیر، گرما گرم چائے اور خستہ بسکٹس کے عوض تھوڑی سی کلاس کوئی بُرا سودا نہیں۔ اپنی کلاس لیے جانے کے دکھ سے زیادہ اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ مرزا جیسے خسیس کی جیب سے کچھ نکلا تو سہی!
گفتگو کا آغاز اس نکتۂ جاں فزا سے ہوا کہ امانڈا نے ایک بھوت کا سکون غارت کرنے کا فیصلہ کرکے انسانوں کی طرف سے بھوتوں کو مزا چکھانے کا اہتمام کیا ہے۔ ہم نے حیران ہوکر پوچھا اس میں کسی بھوت کا سکون غارت ہونے اور اسے انسانوں کی طرف سے مزا چکھانے کا پہلو کہاں سے نکل آیا تو وہ بولے ”دیکھو بھائی، امانڈا نے شادی کا فیصلہ کرکے جیک کو ‘نئی زندگی‘ کی طرف لانے کی کوشش کی ہے۔ جیک کو اب اندازہ ہوسکے گا کہ اُس نے تین صدیاں پہلے سمندری ڈاکو کی حیثیت سے جو زندگی بسر کی وہ کس قدر پرسکون تھی اور گھریلو یعنی شادی شدہ زندگی کے جھمیلے کیا ہوتے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ بھوت کی حیثیت سے اُس نے جو زندگی اب تک گزاری ہے وہ بھی کچھ ایسی ہنگامہ پرور نہ رہی ہوگی۔ بس یوں سمجھ لو کہ جیک کی پُرسکون زندگی کے لیے اب ‘سمے سماپتی کی گھوشنا‘ ہوئی ہے اور گھریلو زندگی کے ہنگامے کو ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے!‘‘
ہم سے مرزا کی بات ہضم نہ ہوسکی۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ مرزا جب بھی کسی کو گھریلو زندگی کے جال میں پھنستا ہوا دیکھتے ہیں تو اُن کی باچھیں کِھل اٹھتی ہیں کیونکہ یہ صورتِ حال ان کے لیے ع
کوئی تو ہو جو مِری وحشتوں کا ساتھی ہو
کی کیفیت پیدا کردیتی ہے، چاہے گھر گرہستی کے جال میں پھنسنے والا کوئی بھوت ہی ہو! مرزا اس خیال سے بھی بہت شاداں و فرحاں دکھائی دیئے کہ تین صدیوں سے بھوت بن کر لوگوں کو خوفزدہ کردینے والے جیک کو اب معلوم ہوگا کہ خوفزدہ ہونا کیا ہوتا ہے! لوگوں کو بہت ڈرا لیا۔ اب ذرا گھریلو ذمہ داریوں کا پوٹلا سَر پر دھرا جائے گا تو لگ پتا جائے گا اور وہ تین صدیوں کے گناہوں پر توبہ کرتا پایا جائے گا!
ہم نے مرزا کی خدمت میں عرض کیا جیک نے امانڈا کے خواب میں آکر شادی کی تجویز پیش کی تھی۔ یعنی معاملہ ع
لو، آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
والا تھا۔ یہ سن کر مرزا کی باچھیں مزید کِھل اٹھیں۔ انہوں نے کہا ”اِسی کو تو کہتے ہیں آ بیل، مجھے مار۔ بلکہ یہاں تو ‘بیل‘ نے ‘گائے‘ سے کہا ہے کہ آ اور مجھے مار۔ ہوسکتا ہے اب ہمیں یہ تماشا دیکھنے کو ملے کہ کوئی بھوت اپنی بھوت گیری چھوڑ کر خاتونِ خانہ کے قدموں میں غلاموں کی طرح ڈیرا ڈال لے! امانڈا نے ایک انوکھا تجربہ کرکے گھریلو زندگی کے جاں گُسل اثرات کو بھوتوں کی دنیا تک پھیلانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جیک کی معرفت اب دوسرے بھوتوں کو بھی معلوم ہوسکے گا کہ گھریلو زندگی کے نام پر انسانوں کو کیسے کیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
رہا امانڈا کے پانچ بچوں کا معاملہ … تو ہوسکتا ہے کہ وہ بے چارے ماں کو ایک بھوت کے ساتھ زندگی بسر کرتی دیکھ کر اِسی زندگی میں یعنی جیتے جی بھوت بن جائیں! سترہویں صدی کے بھوتوں کو بھی تو اندازہ ہونا چاہیے کہ اکیسویں صدی کے انسان کی سوچ کہاں جاکر اٹک گئی ہے۔ اکیسویں صدی کی عورت اپنے پانچ بچوں کو ایک طرف ہٹاکر سترہویں صدی کے بھوت کو اپنا سکتی ہے یہ حقیقت بھوتوں کو اکیسویں صدی کی ”بلندیٔ فکر‘‘ سے روشناس کرانے کے لیے انتہائی کافی ہوگی!