منتخب کردہ کالم

لاہور کا جلسہ اور اس کے بعد…ڈاکٹر رشید احمد خان

لاہور کا جلسہ اور اس کے بعد…ڈاکٹر رشید احمد خان

17جنوری کو لاہور میں ہونے والے پاکستان عوامی تحریک‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے مشترکہ جلسے کو ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جلسے سے پہلے قصور میںمعصوم بچی زینب کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل اور جون 2014ء میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں 14 نہتے شہریوں کی شہادت پر پاکستان عوامی تحریک نے احتجاج کا اعلان کر کے صوبائی حکومت کے خلاف مشترکہ اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کا موقع دیا تھا۔ زینب کے رونگٹے کھڑے کرنے والے قتل کے واقعہ کے خلاف قصور کے عوام کا احتجاج ایک قدرتی امر تھا لیکن اس احتجاج میں سرکاری اور نجی املاک کو جس طرح نقصان پہنچایا گیا وہ اس کا ایک انتہائی افسوسناک پہلو تھا۔ مظاہرین نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو تو نشانہ بنایا ہی تھا‘لیکن ہسپتالوں پر حملہ ناقابل فہم اور قابل مذمت تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ احتجاجی جلوس میں شریک مظاہرین نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے گھروں اور ڈیروں پر حملے کیے‘ حالانکہ ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام کے مشتعل ہجوم کی نفسیات کا تجزیہ کرنے والوں کی رائے میں چونکہ لوگوں کی عزت‘ جان اور مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے اس لئے زینب کے قتل اور اس پر عوام کے فوری ردعمل میں حکومت اور حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف اس قسم کی کارروائیاں قابل فہم اور بعض اوقات ناگزیر ہوتی ہیں لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اسے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف عوام کی کھلی بغاوت کا نام دیا۔ ان کے خیال میں ان پرتشدد مظاہروں کے پیچھے دراصل حکومت کی کارکردگی پر عوام کا عدم اطمینان اور اہم مسائل حل کرنے میں ناکامی پر عوام کا غم و غصہ ہے جو ایک آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح عرصہ سے اندر ہی اندر پک رہا تھا۔
حکومت مختلف جماعتوں نے سمجھا کہ اسے مزید ہوا دی جا سکتی ہے اور اسے صوبائی حکومت کے خلاف ایک وسیع تحریک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی اثناء میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ماڈل ٹائون کے شہداء اور زخمی انسانوں کو انصاف دلانے کیلئے احتجاجی جلسے کا اعلان کر دیا گیا۔ جس طرح زینب کے قتل پر اپوزیشن رہنمائوں نے متاثرہ خاندان سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ اسی طرح ماڈل ٹائون کے شہیدوں کو انصاف دلانے کیلئے بھی اپوزیشن رہنمائوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور سینئر قیادت نہ صرف زینب کے والدین سے اظہار ہمدردی اور حمایت کیلئے ان کے گھر گئی بلکہ پاکستان عوامی تحریک کے پروگرام سے یک جہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری سے اہم سیاسی رہنمائوں مثلاً آصف علی زرداری‘ عمران خان چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے لاہور میں ملاقات بھی کی۔ بہت سے تجزیہ نگاروں اور تبصرہ کرنے والوں نے اسے ”ن‘‘ لیگ کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ایک متحدہ محاذ کی تشکیل قرار دیا اور جب بلوچستان میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے استعفیٰ دیا اور اس کی جگہ مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا تو بڑے سینئر مبصرین اور ٹی وی ٹاک شوز میں اکثر نظر آنے والے ”ماہرین‘‘ نے ان واقعات کو حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اقتدار کے خاتمہ کا پیش خیمہ (Beginning of the End) قرار دے دیا مگر مال روڈ لاہور کے جلسے ‘جسے خود تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما نے فلاپ قرار دیا ہے‘ کے بعد سیاسی منظرنامہ یکسر مختلف صورتحال پیش کر رہا ہے۔ لاہور کے جلسے میں زرداری اور عمران خان کو ایک ہی سٹیج پر بٹھانے کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف ایک ہیں‘ لیکن عمران خان کے زرداری کی موجودگی میں سٹیج پر بیٹھنے سے انکار نے ثابت کر دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کسی بھی ایشو پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اکٹھی نہیں ہو سکتیں اور معصوم بچی زینب کے لواحقین سے ہمدردی اور ماڈل ٹائون شہداء کے مسئلے پر ڈاکٹر طاہر القادری سے یک جہتی کا مظاہرہ کر کے یہ دونوں جماعتیں دراصل اپنے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل چاہتی ہیں۔ ویسے بھی قومی سیاست کے اہم مسائل مثلاً آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد‘ پارلیمانی بالادستی‘ پارلیمانی نظام حکومت اور سویلین بالادستی پر پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف‘ تحریک انصاف کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیادہ قریب ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ لاہور کے جلسے میں شیخ رشید اور عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ کی توہین کی مذمت کرنے میں پیپلز پارٹی نے ذرہ بھر بھی دیر نہیں کی بلکہ عمران خان کی طرف سے پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کے خلاف بلاول بھٹو زرداری اور قائد حزب اختلاف نے الگ الگ بیانات جاری کئے۔ قومی اسمبلی میں بھی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جو قرارداد منظور کی گئی‘ اس کی حمایت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم کے ساتھ اکٹھی تھیں۔ سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں عمران خان اور شیخ رشید کی طرف سے پارلیمنٹ پر ”لعنت‘‘ بھیجنے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔ پیپلز پارٹی کے اس موقف کو پارلیمنٹ کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی پسند کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن)
کے بعض حلقے بھی پیپلز پارٹی کے اس مثبت رویے کو سراہتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں جہاں پیپلز پارٹی کے رہنما مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے‘ کیوں کہ پنجاب میں ان کا مقابلہ اسی جماعت سے ہے‘ وہاں پہلے کے مقابلے میں ان کے تیروں کا رخ تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف زیادہ ہوگا کیونکہ اول الذکر پیپلز پارٹی کی سیاسی اور انتخابی حریف ہے جبکہ عمران خان کی طرف سے پیپلز پارٹی پر حملے پارٹی کے تشخص اور نظریے کی مخالفت کے مترادف ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف پر سخت تنقید اور حملوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دونوں پارٹیاں ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کے حق میں ہیںاور یہی قدر مشترک آنے والے دنوں میں دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا موجب بن سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں چند کوششوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہو کیونکہ مسلم لیگ ن موجودہ سیاسی کشمکش میں آئی سولیٹ نہیں ہونا چاہتی اور اس کی پوری کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان قربت کی پینگیں نہ بڑھیں تاکہ حکومت کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا کوئی متحدہ محاذ قائم نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں لاہور میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ملاقات کے اختتام پر جو بیان جاری کیا گیا ہے‘ اس میں اگرچہ یہ کہا گیا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے آئندہ انتخابات اور سینیٹ کے الیکشن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے امکان پر بحث کی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مولانا فضل الرحمن ‘جن کی جماعت وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے‘ ماضی میں پیپلز پارٹی کے بھی اتحادی رہ چکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کو اپنی سب سے بڑی مخالف تحریک انصاف کی طرف جانے سے روکنے اور مسلم لیگ (ن) کے قریب لانے کیلئے مولانا صاحب کی خدمات استعمال کریں اور اس کی وجہ موجودہ سیاسی نظام کو ممکنہ طور پر درپیش خطرات ہو سکتے ہیں جن پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا موقف یکساں ہے۔