منتخب کردہ کالم

لبیک یا اقصیٰ…بابر اعوان

لبیک یا اقصیٰ…بابر اعوان
مفسرِ قرآن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم و مغفور سے علمی دوستی تھی۔ قرآن پاک کے طالب علم کی حیثیت سے تبلیغ ان کا اوڑھنا بچھونا اور سیاست اوائل عمری کی یاد۔ دونوں موضوعات پر وہ اچھا بولتے تھے‘ جو مجھے بہت اچھا لگتا تھا‘ کیونکہ میرا اپنا بہت سا وقت اور وسائل انہی دونوں میدانوں میں صرف ہوتے ہیں۔
گریٹر اسرائیل کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘ جس میں ایک حدیث شریف کی روشنی میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ جغرافیائی تقسیم پر گریٹر اسرائیل حاوی ہونے کا اشارہ دیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے بڑی عقیدت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ یہودی کبھی مدینۃ النبیﷺ میں داخل نہ ہو سکیں گے۔ جس دن امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کے سلسلے کا خوف ناک ترین اعلان کیا‘ عین اسی روز ایک عرب اخبار نے اپنے صفحہ اوّل پر ایک کارٹون چھاپا تھا۔ کارٹون میں صدر ٹرمپ کا بایاں ہاتھ اس کی پتلون کی جیب میں دکھایا گیا‘ جب کہ دائیں ہاتھ کا لمبا بازو ٹرمپ کے سامنے جھکے ہوئے عرب حکمرانوں پر سے گزر کر اسرائیل کے شدت پسند وزیر اعظم نیتن یاہو کو پکڑا رہا ہے۔ برادر عرب ملکوں کے احترام میں اس کارٹون کا عنوان میں جان بوجھ کر یہاں نقل نہیں کر رہا۔ ہاں البتہ عرب دنیا میں میرے جیسوں کی بے بسی کا اظہار سماجی رابطے کے نیٹ ورک پر کچھ یوں ہو رہا ہے ”یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے پر 45 ملکی مسلم اتحادکی جامع حکمت عملی سامنے آ گئی: ٹرمپ کو اجتماعی بدعائیں دینے پر اتفاق ہو گیا‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بے شمار پیغامات کے ذریعے مسلم حکمرانوں اور کمان داروں کو غازی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ(1169ء تا 1192ء عیسوی) کی یاد دلائی جا رہی ہے۔ میری ذاتی کیفیت یہ ہے کہ بے بسی کی وجہ سے اپنے آپ کو کوستا رہتا ہوں۔ اس کیفیت میں ساتھ ساتھ محترم حسن نثار صاحب کی نعت شریف دہراتا ہوں‘ جس کا مکھڑا ہے ”تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا‘‘۔ یہاں یہ بات نہ کہنا کنجوسی ہو گی کہ حسن نثار صاحب کی اس شہرہ آفاق نعت شریف کا موضوع اس قدر جاندار، نفس مضمون اس قدر گہرائی و گیرائی والا اور پیرایہ اظہار اس قدر برجستہ اور سادہ ہے کہ روح میں اتر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے سینکڑوں دیگر لوگوں نے اس قافیے، ردیف، حتیٰ کہ حسن نثار صاحب کے الفاظ تک پر طبع آزمائی کر ڈالی۔ میرے نزدیک یہ برادرم حسن نثار کے لئے ایک انوکھا اعزاز ہے۔ مجھے اپنے قبیلے کے قافلہ سالار شاعر جناب احمد ندیم قاسمی ؔصاحب بھی یاد آ رہے ہیں۔ جنہیں ہر ملاقات میں، میں ہر دفعہ ملک صاحب کہہ کر پکارتا تھا‘ اور وہ قہقہہ لگا کر میرا ہاتھ پکڑتے یا مجھے گلے لگاتے۔ قاسمیؔ صاحب نے خاتم المرسلینﷺ کے حضور القدس شریف کا کرب یوں عرض کیا:
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
غازی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ فاتح بیت المقدس، نجات دہندہ سرزمینِ فلسطین اور فاتح بلادالشام، اردن، لبنان اور مصر تھے۔ جس طرح غزوہ احزاب میں سارے اسلام دشمن اکٹھے ہو کر یثرب میں دنیا کی پہلی فلاحی ریاست پر حملہ آور ہوئے تھے‘ عین اسی طرح صلیبی جنگوں کے دوران کرہِ ارض کے سارے بادشاہ، کمانڈر اور فدائی جمع ہو کر غازی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ سے بیت المقدس چھیننے 16 مرتبہ آئے‘ لیکن ہر کروسیڈ کو افرادی قوت، عسکری برتری، گولہ بارود سمیت 16 بار منہ کی کھانی پڑی۔ تاریخ انسانی میں حربی معنوں سے غازی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کے خلاف مغرب کے سارے کروسیڈ عالمی جنگیں تھیں۔ چند سال پہلے انہی حقائق پر مبنی ہالی ووڈ کی فلم پر صہیونیوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ فلم کا نام تھا کنگڈم آف ہیون‘ (Kingdom of Heaven) جو اصل واقعات اور تاریخ کے اعتبار سے فکشن فلم نہیں بلکہ ڈاکومنٹری مووی ہے۔ اس کے چند مناظر میں نے گیرٹ ولڈر کی ایک فتنہ پرور، دل آزار فلم کے جواب میں اپنی فلم ”سلام‘‘ میں استعمال کیے جو انٹرنیٹ اور یُو ٹیوب پر آسانی سے میرے نام یا سلام کے نام سے سرچ کرکے دیکھی جا سکتی ہے۔ فاتح بیت المقدس غازی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ صلیبی افواج کے کمانڈر رچرڈ شیر دل کے بقول عظیم ترین سپہ سالار تھے۔ جب دشمن کی نظر میں عظیم ترین سپہ سالار کا انتقال ہوا‘ تو ان کے کفن کے لیے قرض حاصل کرکے عظیم فاتح کی تدفین کا انتظام کیا گیا۔ اس شہنشاہِ وقت کی وفات کے بعد جب غازی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کے ذاتی مال و ملکیت کا حساب لگایا گیا تو ایک گھوڑا، ایک تلوار، ایک زرہ، ایک دینار اور 36 درہم کے علاوہ ان کا کوئی اور اثاثہ نہ تھا۔ جس درویش سلطان نے سیدنا عمر ؓ کے بعد بیت المقدس فتح کیا‘ اس کی ساری زندگی دینِ اسلام اور قبلہ اوّل کے دفاع میں گھوڑے کی پشت پر گزری۔ آج سونے کے باتھ رومز میں رفع حاجت کرنے والے، سونے کے زینے پر چڑھ کر جہاز پر بیٹھنے والے مسلم حکمرانوں کا دور ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 25 فیصد دولت اور بڑے بڑے اثاثے مسلم حکمرانوں کے پائوں کے نیچے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کا وہ پہلا قبلہ‘ جس کی طرف خاتم المرسلینﷺ نے خود نمازیں پڑھیں اور پڑھائیں‘ آج غیر کے قبضے میں ہے۔ ٹرمپ اسرائیل کو ٹرمپ ٹاور تو تحفے میں دے سکتا ہے مسجدِ اقصیٰ کبھی نہیں۔ لیکن تقدیس مشرق کے ثناء خواں شاہ، سلطان جلالِ ٹرمپی کے سامنے ”چوں‘‘ کرنے کی ہمت سے بھی محروم ہیں۔
خاکِ فلسطیں؟ خون میں غلطاں
قبلہ اوّل؟ چاک گریباں
مسجدِ اقصیٰ؟ شعلہ بداماں
مردِ مسلماں؟ یہ بھی دیکھا؟
وائے مقدر! یہ پسپائی
اف رے ہزیمت! یہ رسوائی
ربِّ محمدؐ تیری دہائی
نرغے میں اسلام ہے تنہا
اے کاش! ایک ارب ستر کروڑ مسلمانوں کے حکمرانوں، خادمین، بادشاہوں تک کوئی ہسپانیہ کی تاریخ کا آخری ورق پہنچا دے۔ جب آخری مسلمان بادشاہ ابو عبداللہ سقوطِ غرناطہ کے بعد سپین بدر کیا گیا تو طائوس و رباب کا انجام دیکھنے وہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر جا کر رک گیا۔ اپنے وطن سے بے دخل ابو عبداللہ نے غرناطہ پر آخری نظر ڈالی اور زار و قطار رونے لگا۔ اس وقت اس کی ماں نے اسے ان تاریخی الفاظ سے مخاطب کیا:
“do not cry like a woman for that which you could not defend as a man”
(ترجمہ) ”اس کے لئے عورتوں کی طرح مت رو جس کی خاطر تم مردوں کی طرح لڑ نہیں سکے‘‘۔
لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا فلسطین، لبیک یا اُمّہ۔