منتخب کردہ کالم

لودھراں سیمپل….جاویدچوہدری

جمہوریت کا جوہڑ

لودھراں سیمپل….جاویدچوہدری

ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی لودھراں میاں نواز شریف کے لیے غیبی مدد اور عمران خان کے لیے آخری کیل ثابت ہوا‘ این اے 154 ریفرنڈم نکلا اور اس ریفرنڈم نے میاں نواز شریف کی تمام غلطیوں‘ کوتاہیوں اور سیاسی بد اعمالیوں پر پردہ ڈال دیا‘ میاں نواز شریف کونئی لائف لائین مل گئی.

یہ درست ہے پاکستان مسلم لیگ ن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہو رہی تھی ‘ یہ دیمک لگی چوکھٹ بنتی جا رہی تھی لیکن پھر آخری ضمنی الیکشن ہوا اور میاں نواز شریف کو نئی زندگی مل گئی‘ جس کے ساتھ ہی عمران خان کے اقتدار کی آخری امید بھی دم توڑ گئی ‘2018ء کاسیاسی نقشہ سامنے آ گیا‘ ہم آگے بڑھنے سے پہلے این اے 154 کا ذرا سا جائزہ لیں گے۔

لودھراں کا این اے 154 پانچ برسوں میں بدقسمت حلقہ ثابت ہوا‘ یہ بنیادی طور پر جہانگیر ترین کا حلقہ تھا‘ ترین صاحب نے حلقے میں ذاتی اخراجات سے بے شمار کام کرائے ‘ جس نے کھمبا مانگا ترین صاحب نے دے دیا‘ جس نے ٹرانسفارمر مانگا‘ جس نے سڑک مانگی اور جس نے نوکری مانگی جہانگیر ترین نے ذاتی جیب سے دے دی‘ یہ علاقے کے تمام بااثر لوگوں سے بھی واقف تھے۔
Learn more
Advertisement

یہ قومی سطح کے لیڈر بھی تھے لیکن جب 2013ء کے الیکشنوں کے نتائج نکلے توصدیق بلوچ نے آزاد حیثیت میں86 ہزارایک سو77اورجہانگیر ترین نے 75 ہزار 9سو 55 ووٹ لیے‘ یہ اچنبھے کی بات تھی‘ یہ اچنبھہ پی ٹی آئی کو پورے ملک میں نظر آیا‘ عمران خان کو 2013ء میں کامیابی کا یقین تھا‘ یہ یقین انھیں روحانی طاقتوں کے ساتھ ساتھ فیصلہ کن قوتوں نے بھی دلا رکھا تھا لیکن جب نتائج آئے تو عمران خان سکتے میں چلے گئے ‘ خان صاحب نے 2013ء ہی میں دھاندلی کا واویلہ شروع کر دیا‘ 2014ء کا دھرنا ہوا اور یہ دھرنا ملک کی ہر چیز بدل گیا۔

جہانگیر ترین نے الیکشن ٹریبونل ملتان میں دھاندلی کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی تھی‘ 26 اگست 2015ء کو فیصلہ آ گیا‘ الیکشن ٹریبونل نے این اے 154 کے نتائج کالعدم قرار دے دیے یوں صدیق بلوچ اور جہانگیر ترین ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے‘ وہ الیکشن عمران خان اور میاں نواز شریف کی فلاسفی کا امتحان تھا‘ حکومت نے الیکشن جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا‘ میاں نواز شریف نے 6نومبر 2015ء کو لودھراں میں خطاب کیا اور لودھراں کے عوام کے لیے اڑھائی ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کر دیا۔

پیکیج میں دو فلائی اوورز ‘ زرعی یونیورسٹی اورکامرس کالج بھی شامل تھالیکن حکومت کی طرف سے بھرپور زور کے باوجود صدیق بلوچ ہار گئے‘ جہانگیر ترین نے 38ہزار7سو86ووٹوں کی لیڈلی‘ پاکستان تحریک انصاف نے بھرپور جشن منایا‘ یہ جشن 15دسمبر 2017ء تک جاری رہا‘سپریم کورٹ نے15 دسمبر کو50 سماعتوں اور 101 گھنٹے کی عدالتی کارروائی کے بعد جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا‘ الیکشن کمیشن نے این اے 154 میں تیسری بار الیکشن کا اعلان کر دیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو ٹکٹ دے دیا جب کہ دوسری طرف کوئی شخص پاکستان مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ میاں نواز شریف نے صدیق بلوچ کو الیکشن لڑنے کا حکم دیا لیکن انھوں نے جواب دیا میاں صاحب میں پچھلے دو الیکشنوں میں ٹھیک ٹھاک خرچ کر چکا ہوں‘ میں اگر فروری میں بھی الیکشن لڑتا ہوں اور جولائی اگست میں بھی تو یہ میرے لیے مشکل ہو جائے گا۔

میاں نواز شریف نے صدیق بلوچ کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کی کوشش کی لیکن اس کا کہنا تھا‘ سر میں 2018ء میں ایم پی اے کا الیکشن لڑنا چاہتا ہوں‘ میں اگر ضمنی الیکشن ہار گیا تو مجھے جنرل الیکشنمیں ووٹ نہیں ملیں گے‘میاں نواز شریف نے مجبوراً پیر اقبال شاہ کو ٹکٹ دے دیا‘ میاں صاحب اقبال شاہ کونہیں جانتے تھے‘ انھوں نے صرف جہانگیر ترین کو ٹف ٹائم دینے کے لیے پیر اقبال شاہ کو ٹکٹ دیا۔

پیر اقبال شاہ ان پڑھ اور قومی سطح پر غیر معروف شخص ہیں‘ میاں نواز شریف کو ان سے کامیابی کی کوئی توقع نہیں تھی‘ ن لیگ کا خیال تھا یہ جہانگیر ترین کی سیٹ ہے‘ یہ انھیں ہی ملے گی تاہم یہ چاہتے تھے علی ترین اور پیر اقبال شاہ کے درمیان کم سے کم مارجن ہو‘ یہ بھی حقیقت ہے پاکستان مسلم لیگ ن الیکشن سے قبل یہ توقع بھی کھو بیٹھی تھی۔

آپ پارٹی کی مایوسی کا اندازہ کیجیے میاں نواز شریف نے اس دوران پانچ بڑے جلسے کیے لیکن یہ خود لودھراں گئے اور نہ ہی حکومت کے کسی لیڈر‘ وزیر اور جادوگر نے حلقے میں قدم رکھا‘ پارٹی کے 99 فیصد رہنما پیر اقبال شاہ کے نام اور شکل سے واقف نہیں تھے‘ ن لیگ نے این اے 154کے لیے ووٹ تک نہیں مانگے‘ میاں نواز شریف نے کسی میڈیا ٹاک‘ کسی پریس کانفرنس اور کسی میٹنگ میں این اے 154 اور پیر اقبال شاہ کا نام نہیں لیا۔

یہ ٹکٹ دینے کے بعد اپنے امیدوار کومکمل طور پر بھول چکے تھے جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 10 فروری کو لودھراں میں جلسہ کیا‘ عمران خان نے اس جلسے میں دعویٰ کیا ’’میں نے نواز شریف کو نکال دیا اب شہباز شریف کی باری ہے‘‘۔ جہانگیر ترین خود بھی حلقے میں بیٹھے رہے اور پاکستان تحریک انصاف کے درجن بھر بڑے لیڈر بھی۔

ترین خاندان کو اپنی فتح کا اس قدر یقین تھا کہ علی ترین سرعام دعویٰ کر رہے تھے ہم نے 2015ء میں 40 ہزار کی لیڈ لی‘ ہم اب 50 ہزار کی لیڈ لیں گے‘ عمران خان نے بھی بڑے یقین سے کہا‘ این اے 154 کے نتائج کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن ٹوٹ جائے گی‘ آپ علی ترین کا اعتماد دیکھئے‘ یہ الیکشن کے دن اپنا پولنگ بوتھ چھوڑ کر پاکستان مسلم لیگ ن کے خیمے میں بیٹھ گئے‘ یہ وہاں چائے پیتے اور ووٹروں کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے حلقے کو ن لیگ کے اثرورسوخ سے بچانے کے لیے فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے کا مطالبہ بھی کیا‘ الیکشن کمیشن نے یہ مطالبہ مان لیا اوریوں یہ الیکشن فوج کی نگرانی میں ہوا لیکن 12 فروری کی شام جب نتائج آئے تو دونوں جماعتیں ششدر رہ گئیں‘ پیر اقبال شاہ نے ایک لاکھ13ہزار 8سو27 ووٹ لیے اور علی ترین کے 87ہزار 5سو71ووٹ نکلے یوں میاں نواز شریف کا کھمبا 26ہزار 2سو56ووٹوں کی لیڈ سے جیت گیا۔

ہم اگر این اے 154 کے نتائج کا تجزیہ کریں تو ہم چند دلچسپ فیصلوں تک پہنچیں گے‘ یہ درست ہے عمران خان نے میاں نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں فارغ کرا دیا‘ یہ اس وقت نیب کورٹ میں مقدمات بھی بھگت رہے ہیں‘ میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا بھی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کو اگلے الیکشن جیل میں رہ کر لڑنا پڑیں گے تاہم کیس کمزور ہیں یوں یہ اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو جائیں گے لیکن یہ معجزہ اگلی حکومت کے دور میں ہی ہو گا۔

میاں نواز شریف کو فارغ کرانا عمران خان کی بہت بڑی کامیابی تھی مگربدقسمتی سے عمران خان اپنی اس کامیابی کو ووٹوں میں تبدیل نہیں کر سکے‘ وجہ ان کا لائف اسٹائل ہے‘ عمران خان نے خود کو بنی گالہ‘ میڈیا ٹاک‘ سوشل میڈیا‘ جلسوں اور اپنے چند نالائق حواریوں تک محدود کر رکھا ہے‘ یہ انٹرویو بھی صرف اپنے پسندیدہ اینکرز کو دیتے ہیں‘ عمران خان کی میڈیا ٹیم اس نیک کام کے لیے بھی خواتین اینکرز کو اہمیت دیتی ہے۔

عمران خان چند اینکرز کے علاوہ کسی کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے‘ خان صاحب کے حواری ایم این اے بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں‘ آپ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کے پروگراموں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو پوری جماعت کا مائینڈ سیٹ معلوم ہو جائے گا چنانچہ آپ خود سوچئے جو لوگ میڈیا کے معاملے میں اتنے سلیکٹو ہوں وہ ملک کے ستر فیصد دیہی ووٹروں کو کتنا وقت دیتے ہوں گے؟ چنانچہ عمران خان اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود ملک کے 80 فیصد ووٹروں تک نہیں پہنچ سکے۔

لودھراں کے لوگوں نے 2015ء میں جہانگیر ترین کے سر پر تاج رکھا لیکن ترین صاحب نے جیتنے کے بعد دو سال مڑ کر اپنے حلقے کی طرف نہیں دیکھا‘ حلقہ ان کے منشیوں کے رحم و کرم پر رہا جب کہ اس کے مقابلے میں میاں شہباز شریف نے لودھراں کے لیے ترقیاتی کاموں کا انبار لگا دیا‘ پنجاب حکومت نے 48 بیسک ہیلتھ یونٹس میں سے 28 کی سروسز کو چوبیس گھنٹے کر دیا‘ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کو بھی جدید کر دیا گیا۔

یونیورسٹی کا کیمپس بھی بن گیا ‘ طالبات کو ماہانہ وظائف بھی دیے گئے‘ لودھراں سے خانیوال تک سڑک بھی بنا دی اور اسکول اور کالج بھی اپ گریڈ ہو گئے‘ میاں نواز شریف بھی بار بار ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پوچھ کر عوام کی ہمدریاں حاصل کر تے رہے چنانچہ میاں نواز شریف کا بیانیہ اور شہباز شریف کے ترقیاتی کام اور عمران خان کے بنی گالہ‘ عون چوہدری کی سروسز‘ دن میں ایک بار میڈیا ٹاک ‘ کسی پسندیدہ خاتون اینکر کو انٹرویو اور ہیلی کاپٹر اور جہازوں میں سیروں نے رنگ دکھایا۔

عمران خان لودھراں میں بری طرح ہار گئے اور میاں نواز شریف کا کھمبا جیت گیا‘ لودھراں دونوں کے لیے سیمپل ثابت ہوا‘ مجھے خطرہ ہے عمران خان نے اگر اپنی روش نہ بدلی‘ یہ بنی گالہ سے نہ نکلے‘ انھوں نے عون چوہدری جیسے لوگوں سے جان نہ چھڑائی‘ انھوں نے اپنا طرز عمل تبدیل نہ کیا توجنرل الیکشن میں ملک کا ہر حلقہ ان کے لیے لودھراں ثابت ہو گا اور میاں نواز شریف جیل میں بیٹھ کر بھی اگلا الیکشن جیت جائیں گے‘ یہ تاریخی طاقت کے ساتھ واپس آئیں گے اور تمام فیصلہ ساز قوتوں کی قوت کچل کر رکھ دیں گے‘ہمیں ماننا پڑے گامیاں نوازشریف کا بیانیہ کامیاب ہوتا اور عمران خان کے دعوے ناکام ہوتے چلے جارہے ہیں