منتخب کردہ کالم

لہور لہور اے .. خالد مسعود خان

لہور لہور اے .. خالد مسعود خان

تقریب کی سب سے نمایاں خوبی اس کی مسلسل بدنظمی تھی جس کے باعث کسی نہ کسی کونے میں ہمہ وقت توتکار جاری رہی۔ کبھی صحافیوںکے بیٹھنے کے لیے کرسیاں نہ تھیں اور کبھی سٹیج اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے شرکاء کے درمیان مسلم لیگی کارکنان براجمان ہوتے رہے۔ تقریب کی پہلی قطار والی کرسیوں پر شہر اور ضلع کے ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کے نام بڑے نمایاں انداز میں لگائے گئے تھے مگر کارکنوں نے پہلے ہی ہلے میں یہ ساری چٹیں پھاڑ کر پار لگا دیں اور خود ان کرسیوں پر جم کر بیٹھ گئے۔ انتظامیہ نے ان کو اٹھانے کی مقدور بھر کوشش کی مگر کارکنان اجتماعی طور پر آمادہ بہ بدتمیزی تھے اس لیے انتظامیہ نے کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے شریفانہ انداز میں پسپائی اختیار کر لی۔
مسلم لیگ کی قیادت کے اپنے مسائل تھے۔ وہ سب کے سب میاں شہبازشریف سے ملنے کے خواہاں تھے اور دوسری طرف میاں شہبازشریف اسی سے پہلوتہی فرما رہے تھے بالآخر خادم اعلیٰ کو کامیابی نصیب ہوئی اور کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو کسی طرح بھی باقاعدہ شرف ملاقات حاصل نہ ہو سکا۔ سٹیج پر پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ایم ڈی سبطین فضل حلیم‘ صوبائی وزیر نغمہ مشتاق‘ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن‘ وفاقی وزیر جاوید علی شاہ‘ حاجی سکندر حیات بوسن‘ میئر ملتان نوید آرائیں اور وزیراعلیٰ جلوہ افروز تھے۔ ان حضرات کے پیچھے بھی کرسیاں لگائی گئی تھیں اور سٹیج پر لگائی گئی ان کرسیوں پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ آنے والے سٹاف نے بیٹھنا تھا مگر بدانتظامی اور بدنظمی کا مظاہرہ سٹیج پر بھی پوری آب و تاب سے جاری تھا۔ ان کرسیوں پر بھی مقامی قیادت نے قبضہ کر لیا۔ سٹیج کی ان کرسیوں پر ملک غفار ڈوگر ایم این اے‘ شیخ طارق رشید سابقہ ایم این اے‘ حاجی احسان الدین قریشی ایم پی اے اور ایک آدھ دیگر لیڈر آ کر بیٹھ گئے۔ انتظامیہ نے میاں شہبازشریف کے ساتھ آنے والے سٹاف کے لیے مزید کرسیاں لگائیں تب جا کر کہیں سٹیج پر امن و امان بحال ہوا۔
جب پہلی قطار کی کرسیاں پُر ہو گئیں تو پھر باہر سے کرسیاں لا کر لگانے کی نئی روایت دیکھنے میں آئی۔ شرکاء کے درمیان میں گزرنے کا خالی راستہ بھی آہستہ آہستہ پر ہونا شروع ہو گیا اور سٹیج کے دائیں بائیں کرسیاں بھی لگنی شروع ہو گئیں اور پھر ایک نئے نقشے کے مطابق سارا پنڈال نئی صورت میں سامنے آیا۔ ضلع ناظم دیوان عباس بخاری کو کسی کارکن نے از راہ مروت اپنی سیٹ خالی کر کے دے دی وگرنہ کارکنان کرسی چھوڑنے پر مرنے مارنے کو ترجیح دے رہے تھے۔ حاجی سعید انصاری کو پچھلی قطاروں میں جگہ ملی۔ حاجی سعید انصاری سابقہ ایم پی اے اور آج کل ڈپٹی میئر ملتان ہیں۔ صرف ایک عبدالوحید آرائیں تھا جو مزے سے مجمع میں گھوم پھر رہا تھا اور کسی پریشانی میں مبتلا نہیں تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ اس کا بھائی بطور میئر نہ صرف سٹیج پر بیٹھا ہوا تھا بلکہ اُس نے تقریر بھی فرمانی تھی۔
عبدالوحید آرائیں آج کل ویسے بھی خوش ہے کہ اسے میاں صاحبان نے حلقہ این اے 150 ملتان سے ایم این اے کے لیے ہاں بھی کر دی ہے اور اسے اس سلسلے میں کام کرنے کا بھی کہہ دیا ہے۔ میں نے وحید آرائیں کو روک کر پوچھا کہ کیا اس بات میں صداقت ہے کہ اسے میاں صاحبان کے ملتان کے حلقہ 150 کے لیے Go Ahead کا سگنل دے دیا ہے۔ وحید آرائیں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے اور اب اس سلسلے میں واضح پیغام دے دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کی نااہلی کا کیا بنا؟ کیونکہ اس کی نااہلی کی مدت طے نہیں کی گئی اور عدالت نے اسے صرف نااہل قرار دے دیا تھا۔ اگر مدت کا ذکر نہ ہو تو یہ دوامی نااہلی ہوتی ہے۔ چوہدری نے نہایت اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر تسلی سے بات ہو گی۔
حلقہ این اے 150 پر اس کا مقابلہ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی سے ہو گا۔ گزشتہ الیکشن میں اس حلقہ سے شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں رانا محمود الحسن تھا۔ دراصل اس حلقہ سے شاہ محمود قریشی نہیں جیتا تھا بلکہ رانا محمود الحسن ہارا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس حلقہ میں رانا محمود الحسن کی شہرت بڑی خراب تھی اور خاص طور پر اس کے بھائی کی وجہ سے یہ شہرت مزید خراب ہو گئی تھی۔ زمینوں پر قبضے سے لے کر اڈوں سے بھتے کی وصولی‘ یہ وہ وجوہات تھیں جو رانا محمود الحسن کے جوڑوں میں بیٹھ گئیں اور وہ یہ الیکشن ہار گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس حلقہ میں پی ٹی آئی کی طرف سے تو شاہ محمود قریشی ہی امیدوار ہے جبکہ مسلم لیگ نون کی طرف سے چوہدری وحید آرائیں امیدوار ہے۔ وحید آرائیں پہلے ایم پی اے تھا اور صوبائی وزیر جیل خانہ جات تھا اور دو شناختی کارڈزکی بنیاد پر نااہل ہو گیا تھا۔ اس کی خالی ہونے والی صوبائی نشست پر رانا محمودالحسن منتخب ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں وحید آرائیں بمشکل اس کی حمایت پر راضی ہوا تھا اور اس نے اپنا بھائی صرف اس شرط پر بٹھایا تھا کہ اسے ملتان کے میئر کے لیے ٹکٹ دیا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی رانا محمودالحسن کے گروپ کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے گھر کے حلقے سے بھی تقریباً ساری نشستیں ہار گیا۔
ضلع ملتان میں تقریباً چھ قومی حلقے ہیں۔ این اے 148 کا کچھ حصہ خانیوال میں بھی ہے تاہم یہ ملتان کا حلقہ ہی تصور ہوتا ہے۔ اس حلقہ سے شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور مسلم لیگ نون سے عبدالفغار ڈوگر میں مقابلہ متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کا بیٹا موسیٰ گیلانی امیدوار ہو گا۔ حلقہ این اے 149 ملتان سے پی ٹی آئی کی طرف سے ملک عامر ڈوگر امیدوار ہو گا جبکہ مسلم لیگ نون کی طرف سے بظاہر دو امیدوار بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ایک طارق رشید اور دوسرا گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کا فرزند آصف رجوانہ لیکن اس عاجز کا خیال ہے کہ آخری قرعہ فال جاوید ہاشمی کے نام نکلے گا کہ مذکورہ دونوں امیدواروں کا ملک عامر ڈوگر کے مقابلے میں کامیاب ہونا مشکل نظر آتا ہے کہ ملک عامر ڈوگر ان دونوں امیدواروں سے کہیں زیادہ فعال ہے اور شہر میں پی ٹی آئی کی پوزیشن بھی ٹھیک ہے۔ صرف جاوید ہاشمی اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہرا سکتا ہے مگر اس کی اپنی نیت کیا ہے اور مسلم لیگ نون کی قیادت کے دل میں کیا ہے؟ اس کا پتا تو الیکشن کے قریب چلے گا۔
خیر بات ہو رہی تھی اس بدنظمی سے بھرپور تقریب کی جو ملتان میٹرو بس سروس کے لیے چلائی جانے والی فیڈر روٹ کی بسوں کے افتتاح کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں سب سے مزیدار واقعہ یہ پیش آیا کہ سابقہ ایم این اے طارق رشید نے سٹیج سیکرٹری سے کاغذ لے کر ایک چھوٹی سی چٹ بنام وزیراعلیٰ لکھی جس میں وزیراعلیٰ سے وقت دینے کی درخواست کی تھی۔ وزیراعلیٰ نے دیگر ملنے والی چٹوں پر جن میں مختلف عوامی نمائندوں نے اپنے اپنے حلقے یا اجتماعی طور پر ملتان کے لیے ترقیاتی کاموں کے بارے میں درخواست کی تھی‘ اپنی تقریر میں ان منصوبوں بارے اعلانات کر دیئے۔ اگلے روز اخبارات میں دیگر باتوں کے علاوہ طارق رشید کی اس چٹ کا بھی ذکر تھا۔ طارق رشید نے پوچھنے پر ایسی کسی چٹ لکھنے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ یہ ان کے کسی سیاسی مخالف کی حرکت ہو سکتی ہے۔
وزیراعلیٰ نے تقریر کے بعد ساری چٹیں روسٹرم پر ہی چھوڑ دی تھیں۔ کوئی اخبار نویس یہ چٹیں اٹھا کر لے گیا اور صبح طارق رشید والی چٹ کا عکس اخبار میں چھاپ دیا جو طارق رشید کی لکھائی میں تھا۔
وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں ملتان کو لاہور کا ہم پلہ قرار دیا۔ تاہم یہ بات صرف تقریر کی حد تک تو ٹھیک ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے لاہور سے آئے ہوئے صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے دو وفاقی وزراء ملک سکندر بوسن اور جاوید علی شاہ کے بعد تقریر فرما کر ثابت کر دیا کہ ملتان اور لاہور کا کوئی موازنہ نہیں۔ لہور لہور اے۔