منتخب کردہ کالم

مادرِ جمہوریت ۔’’نشانِ پاکستان‘‘..بشیر ریاض

پی ایس ایل فائنل اور کراچی!.

مادرِ جمہوریت ۔’’نشانِ پاکستان‘‘..بشیر ریاض

اکتوبر 1969ء کے وسط میں جناب ذوالفقار علی بھٹو بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ لندن تشریف لائے۔ میں ان سے ملنے آیا۔ ملاقات کے دوران بھٹو صاحب نے بیگم صاحبہ سے میرا تعارف ان الفاظ کے ساتھ کروایا۔ یہ میرے دوست بشیر ریاض ہیں۔ یہ سن کر مجھے عجیب سی خوشی کا احساس ہوا اور فخر بھی۔ بیگم صاحبہ سے اس تعارف کے بعد وہ جب بھی لندن آتیں تو ان کے ساتھ ملاقات ہوتی رہی۔ مارچ1973ء میں پاکستان آیا تو بیگم صاحبہ سے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ صدر بھٹو آپ سے جلد ملاقات کریں گے۔ انہوں نے یہ پیش کش کی کہ میں پاکستان آ کر ان کے ساتھ کام کروں۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں لندن میں ہی ٹھیک ہوں اور وہاں میں آپ کے لیے ہی کام کر رہا ہوں۔ 1973ء میں وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو لندن دورہ پر آئے تو کیمبرج ہوٹل میں بیگم صاحبہ سے آمناسامنا ہوا۔ وہ ملکہ الزبتھ کے ساتھ چائے کے لیے مدعو تھیں۔ ان کے ہمراہ مس بے نظیر بھٹو اور شاہنواز بھٹو بھی تھے۔ بیگم صاحبہ نے میرا ان سے تعارف کرایا۔ اور یوں ان کے بچوں کے ساتھ یہ تعارف بعد میں قریبی رشتہ میں استوار ہوا۔
بیگم نصرت بھٹو عزم و استقلال کا پیکر اور آمرانہ قوتوں کے خلاف مزاحمت اور جمہوریت کی علامت تھیں۔ جنرل ضیا کے گھنائونے مظالم کا انہوں نے جس بہادری اور جرأت مندی سے مقابلہ کیا وہ جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ایک شاندار مثال ہے۔ انہوں نے مسلسل قیدوبند کی مشکلات اورتکالیف برداشت کیں لیکن سر نہیں جھکایا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے کارکنوں کو جنرل ضیا کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف یہ پیغام دیا تھا کہ ہمارے سر کٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے۔ ہم پاکستان کے لیے نسل در نسل لڑیں گے۔ اس اعلان سے کارکنوں کو بہت حوصلہ ملا۔ ان میں جوش پیدا کر دیا اور جنرل ضیا کی ظالمانہ کارروائیوں کا آہنی عزم سے مقابلہ کیا۔
جناب بھٹو کی شہادت کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے بطور چیئرمین پی پی پی مارشل لاء کے خلاف سینہ سپر ہوگئیں ۔انہوں نے جرأت و بہادری کے ساتھ عوام کے جمہوری حقوق کی آواز بلند کی۔ انہیں جدوجہد سے روکنے کے لیے جیل اور گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ لیکن اس بہادر خاتون نے مضبوط اعصاب کے ساتھ تمام مشکلات اور مصائب برداشت کیے۔ اپنی قائد کی پیروی میں کارکنوں نے جمہوری جدوجہد میں بہادری کے نئے باب رقم کیے اور اپنے کردار اور عمل سے سیاست کو عبادت کا درجہ دے کر پاکستان پیپلزپارٹی کا پرچم سربلند رکھا۔ انہیں یہ تقویت بیگم صاحبہ کی ولولہ انگیز قیادت سے ملی۔ قذافی سٹیڈیم میں بیگم صاحبہ پر تشدد کیا گیا اور زخمی بیگم صاحبہ کی تصویر دنیا کے تمام اخبارات میں شائع ہوئی جس سے جنرل ضیا کی بربریت آشکار ہوئی اور جنرل ضیا کی مارشل لائی حکومت کا سیاہ چہرہ بے نقاب ہوا۔
بیگم نصرت بھٹو پر دوسرے درجہ کا ذہنی تشدد بھی کیا گیا۔ ان کی جواں سال بیٹی بے نظیر بھٹو کو قیدونظربند کرکے بیگم صاحبہ سے علیحدہ رکھا گیا۔ سکھر جیل میں بے نظیر بھٹو پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ جیل میں گرمی کی شدت بھی ان کا حوصلہ پست نہ کر سکی اور نئے عزم کے ساتھ جنرل ضیا کے جبر کو چیلنج کرکے اس کی نیندیں حرام کر دیں۔ قائدعوام کے عدالتی قتل کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے سیاسی اور جمہوری جدوجہد تیز کر دی۔ پاکستانی عوام ان کے ساتھ تھے۔ انجام کار جنرل ضیا نے اپنی بزدلی تسلیم کرکے 16اکتوبر 1979ء کو عام انتخابات منسوخ کردیئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار مساوات کو بند کر دیاگیا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی اس بزدلانہ کارروائی سے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کو گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا۔ انہوں نے حوصلہ مندی سے ظلم اور جبر برداشت کیا۔ کارکنوں نے کوڑے کھانے کی مثالیں قائم کیں اور جئے بھٹو کے نعروں سے سیاسی فضا گونجنے لگی۔
یہ بدترین تاریک دور تھا۔ بیگم صاحبہ نے اپنے دونوں بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی جدائی کا غم برداشت کیا۔ اور جنرل ضیا کی امیدوں کی کمر توڑ دی۔ ان کا جذبۂ حریت تابناک رہا۔ بیگم صاحبہ طویل قید کے دوران موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ جنرل ضیا کی کوشش تھی کہ وہ اس مرض سے جانبر نہ ہو سکیں لیکن عوامی اور بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے انہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ بیگم صاحبہ 22نومبر 1982ء کو جرمنی کے شہر میونخ پہنچیں۔ ان کی ہمشیرہ بہجت حریری ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بے حد کمزور ہو گئیں تھیں، بیگم صاحبہ علیل تھیں۔ انہوں نے یورپی ممالک سے آئے ہوئے پارٹی کارکنوں سے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
”ملک میں جمہوریت، مارشل لاء کے خاتمہ، انسانی حقوق اور آئین کی بحالی کے لیے یورپ میں مقیم پاکستانیوں اور پارٹی کارکنوں کا یہ فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور مارشل لاء کی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر سراپا احتجاج بن جائیں اور ملک میں مارشل لا کے بظاہر مضبوط لیکن اندر سے کھوکھلے ستونوں کو آخری ٹھوکر لگا کر زمین بوس کر دیں۔‘‘
بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ایک طرف پارٹی کو سنبھالا۔ لوگ اور مایوسی کے شکار کارکنوں کو حوصلہ دیا اور دوسری طرف ضیا آمریت کے خلاف مزاحمت کی ایسی تحریک شروع کی جو پاکستان میں ایک مثال ہے۔23مارچ1928ء کو پیدا ہونے والی بیگم نصرت بھٹو 23اکتوبر2011ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ انہیں مادرِ جمہوریت کا خطاب دیا گیا اور پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ ”نشانِ پاکستان‘‘ دیا گیا۔ ان کی جدوجہد سے خواتین میں سیاسی و سماجی شعور کے دروازے کھول دیئے۔ بیگم صاحبہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا وہ کردار میں جس کے انمٹ نقوش قائم و دائم رہیں گے۔ ان کی عظمت کے گیت گائے جاتے رہیں گے اور اس بہادر اور جرأت مند خاتون کو پاکستان کے غریب عوام ہمیشہ عزت و احترام اور عقیدت سے یاد رکھیں گے۔ ان کی سالگرہ پر پارٹی کارکنوں کا فرض ہے کہ بیگم صاحبہ کی عظیم قربانیوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنا کر جمہوری روایات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے متحرک رہیں۔