منتخب کردہ کالم

متعصب نظر حقیقت شناس نہیں ہوتی: زمرد نقوی

تمام اندازے غلط اور تمام تخمینے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نومبر میں ٹی وی کے بول بجھکڑوں کو یکے بعد دیگرے دو صدمات اٹھانے پڑے۔ پہلا جب عمران خان نے اسلام آباد لاک کرنے کا اپنا منصوبہ بدل دیا۔ صدمے سے ان کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان پر کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ ان کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے ہوں۔ وہ منصوبے جن پر ان کے مستقبل کا دارومدار ہو۔ وہ بادشاہ گر بننا چاہتے تھے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے پیچھے کچھ کچھ اور قوتیں بھی شامل تھیں ۔ ہمارے تجزیہ کاروں کو حالیہ امریکی انتخابات سے سبق سیکھنا چاہیے جب پورے امریکی و مغربی میڈیا کے سارے اندازے، تجزیے اور پول منہ کے بل گر پڑے۔ وہ پول جو 30 کروڑ کے ملک امریکا میں صرف تین ہزار افراد کی رائے پر انحصار کر رہا تھا۔

دوسرا صدمہ ان خودساختہ رائے عامہ بنانے والوں کو اس وقت اٹھانا پڑا جب 21 نومبر کو سابق آرمی چیف راحیل شریف نے چھاؤنیوں میں الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں۔ میری دی ہوئی 20 تاریخ کو اس لیے یہ عمل شروع نہیں ہو سکا کہ اس دن اتوار تھا۔ پھر میری دی ہوئی تاریخ 26 نومبر کو جب نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان ہوا تو ان پر قیامت ہی گزر گئی۔ یاد رہے کہ 26 تاریخ کا مجموعہ بھی 8 ہی بنتا ہے جس کے اثرات کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں۔ جنرل راحیل شریف سے ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ ان کو قوی امید تھی کہ ایک شریف دوسرے شریف کی چھٹی کرا دے گا۔

آخر تک ان کی یہ امید پوری نہ ہو سکی۔ جب راحیل شریف آرمی چیف مقرر ہوئے تو اس وقت بھی میڈیا اور پوری قوم کا مخمصہ یہی تھا کہ کون سا جنرل فوج کا سربراہ ہو گا۔ بڑی دماغ سوزی ہوئی۔ بڑے گھوڑے دوڑائے گئے لیکن نگاہ انتخاب نواز شریف کی راحیل شریف پر ٹھہری جو سینئر موسٹ نہیں تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہم اپنی پسند و ناپسند اور تعصبات کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں سامنے کی چیز اپنی شخصی کمزوری کے سبب نظر نہیں آتی۔

اپنی اس کمزوری کے سبب ایک آسان سوال کا جواب بھی ہماری سمجھ سے باہر ہو جاتا ہے۔ وہ آسان سوال جو کوہ ہمالیہ کو سر کرنے سے زیادہ مشکل ہو گیا کہ جنرل راحیل شریف کی جگہ نیا آرمی چیف کون ہو گا۔ جواب بہت آسان تھا کیونکہ دونوں سابقہ اور موجودہ آرمی چیف میں ایک چیز کامن ہے کہ دونوں آرمی چیف مقرر ہوئے تو سینئر موسٹ نہیں تھے۔ دونوں کا فوج کے ایک ہی شعبے سے تعلق تھا۔

سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف وزیراعظم نواز شریف کا درست انتخاب ثابت ہوئے۔ انھوں نے جنرل مشرف کی طرح ان کی حکومت کا تختہ نہیں الٹا اور ان کی حکومت کو 2014ء کے دھرنے سے بھی بچا لیا جس میں حکومت کا جانا یقینی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ نواز شریف جنرل راحیل شریف کے دور میں مسلسل دباؤ کا شکار رہے لیکن یہ دباؤ اسی دباؤ کا تسلسل تھا جس کا زرداری حکومت مسلسل پانچ سال شکار رہی اور زرداری حکومت پر دباؤ ڈالنے میں نواز شریف نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ مسلسل آٹھ سال سویلین حکومتیں دباؤ میں رہیں۔

پاکستان کے حالات خاصے پیچیدہ ہیں۔ اندرون ملک فوج دہشتگردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے، بلوچستان کی صورتحال، بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر سنگین فوجی محاذ آرائی نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ گزشتہ 8 سال میں سویلین حکومتوں کی کارکردگی بہت زیادہ اچھی نہیں رہی۔ نتیجہ زرداری کی جلاوطنی اور نواز شریف کی بیماری کی شکل میں نکلا۔ امید ہے 8 سال بعد جمہوری حکومت کو اپنی کارگردگی بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔ نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اب کنٹرول لائن کی صورت حال میں بہتری آئے گی۔‘‘ ان کے اس بیان میں معنی کا سمندر پنہاں ہے۔

اب کچھ اعداد کی باتیں۔ عدد 8 کے اثرات کیا ہوتے ہیں اس کا تازہ ترین ثبوت دنیا کے عظیم انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کی موت ہے۔ 2008ء میں بیماری کے باعث اقتدار سے دستبردار ہو گئے اور ٹھیک 8 سال بعد 2016ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ آج کی نسل ان کے بارے میں نہیں جانتی لیکن ایک زمانہ تھا جب چی گویرا اور کاسترو امریکی سامراج کے ستائے دنیا کے اربوں مظلوم عوام کی دل کی دھڑکن تھے۔

ان کی زندگی میں سامراج ان پر کیچڑ اچھالتا رہا اور آج بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کا نقاب اوڑھے کچھ نام نہاد دانشور اس پر تنقید کر کے اپنی اصلیت کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کے مطابق امریکا کے دس صدور نے کاسترو کی جان لینے کی کم از کم 634 مرتبہ کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔ اسے کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ کاسترو جلسوں میں عوام سے پوچھتے کہ ایسا کیوں ہے کہ بہت سے لوگ ننگے پیر رہیں تاکہ کچھ لوگ چمکتی دمکتی لگژری کاروں میں سفر کر سکیں۔ کچھ لوگ 70 برس کی زندگی گزاریں جب کہ اکثریت 35 برس کی عمر میں دنیا سے انتقال کر جائے۔

وہ کہتے تھے کہ میں دنیا کے ان بچوں کی طرف سے آواز اٹھاتا ہوں جنھیں بستر کے نام پر پھٹی ہوئی چادر اور روٹی کاایک ٹکڑا نہیں ملتا۔ فیڈل کاسترو کا ملک کیوبا دنیا کا وہ ملک ہے جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ نہ وہاں کوئی بے روزگار ہے نہ غربت، ہر شہری کو گھر میسر ہے۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کی سہولتیں ہر ایک کو مفت میسر ہیں۔ کیوبا میں نہ کوئی بھیک مانگنے پر مجبور ہے نہ جسم فروشی پر نہ ہی وہاں کی معیشت سود پر مبنی ہے۔ جب کہ ہم جیسے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے حامل ملکوں میں جن کی معیشت کا دارومدار سود پر ہے، بھیک، جسم فروشی عام نظر آتی ہے۔ ایک طرف فیڈل کاسترو دوسری طرف ہمارے جیسے امریکی سامراج کے غلام حکمران طبقات اور ان کے کاسہ لیس جہاں 20 کروڑ کی نصف آبادی رات کو بھوکوں سوتی ہے… شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

میثاق جمہوریت کا کیا مستقبل ہے اگلے سال کا وسط اس بارے میں بتائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997