منتخب کردہ کالم

چوہدری پرویز الٰہی سے سیاسی مکالمہ اور نیا منظر نامہ ۔۔۔۔۔ مزمل سہروردی

چوہدری پرویز الٰہی سے سیاسی مکالمہ اور نیا منظر نامہ ۔۔۔۔۔ مزمل سہروردی

چوہدری پرویز الٰہی کے چہرہ پر مسکراہٹ اور خوشی سر عام نظر آرہی تھی۔ میری ان سے کافی عرصہ بعد ملاقات تھی۔ ملتے ہی انھوں نے پوائنٹ اسکور کیا کہ تم تو پچھلی ملاقات میں مجھے کہہ رہے تھے کہ تمہیں نواز شریف جاتے نظر نہیں آرہے ۔ اب کیا کہتے ہو۔ میں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ نواز شریف اس طرح نا اہل ہو جائیں گے۔

ایسی جے آئی ٹی بن جائے گی۔ اور جے آئی ٹی یہ سب کچھ کر دے گی۔ جب آپ سے پچھلی ملاقات ہوئی تب ابھی سپریم کورٹ اس طرح کیس نہیں سن رہی تھی اس لیے میرے خیال میں نواز شریف کے جانے کے امکانات بہت کم تھے۔ انھوں نے کہا کہ لیکن میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ نواز شریف جا رہا ہے۔ میں نے کہا آپ کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع تھی جو میرے پاس نہیں تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے قہقہہ لگایا، کہنے لگے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی۔ یہ میرا ایمان تھا ۔میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان اللہ کی پکڑ میں آچکا ہے۔ اس اللہ کی پکڑ سے ان کا بچنا ممکن ہے۔ یہ درست ہے کہ راحیل شریف کے جانے کے بعد سب سمجھ رہے تھے کہ نواز شریف محفوظ ہو گئے ہیں۔ لیکن میرا ایمان تو اللہ پر تھا کہ کچھ بھی ہو جائے یہ بچ نہیں سکتے۔ اس لیے میں مسلسل کہہ رہا تھا کہ نہیں بچ سکتے۔

ویسے تو چوہدری پرویزالٰہی نیم سنجیدہ آدمی ہیں۔ وہ مسکراتے بھی زیر لب ہی ہیں۔ لیکن آج وہ زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا اب کیا ہو گا ۔ کہنے لگے کیا مطلب، میں نے کہا شریف فیملی واپس آئے گی۔ کہنے لگے چوہدری شجاعت حسین نے کہہ تو دیا ہے کہ نہیں آئیں گے۔ چوہدری شجاعت حسین کے اس واضح بیان کے بعد اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔آپ کا خیال ہے کہ انھوں نے ایسے ہی کہہ دیا ہے۔ ہم ایسے ہی کچھ نہیں کہتے۔ سوچ سمجھ کر کہتے ہیں۔ وہ اب نہیں آئیں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اور وہ پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے باہر ہی رہیں گے۔

جب میری اور چوہدری پرویز الٰہی کی بات ہوئی تھی تب اسحاق ڈار کے قابل ضمانت وارنٹ نہیں نکلے تھے۔ ان کے بینک اکاؤنٹ بھی منجمد نہیں ہوئے تھے۔ تاہم نیب نے شریف خاندان کے ریفرنس میں سمن کی دوبارہ تعمیل کا حکم جاری کر دیا تھا۔ لیکن مریم نواز کا یہ اعلان ابھی سامنے نہیں آیا تھاکہ شریف خاندان احتساب عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو گا۔ اب اگر مریم نواز کا اعلان ہی سامنے رکھیں اگر انھوں نے پیش نہیں ہونا تو پھر پاکستان آنا کیسے ممکن ہو گا۔ اگر پاکستان واپس آئیں گے تو پیش بھی ہونا پڑے گا۔ کیونکہ گرفتار کر کے پیش کیا جائے گا۔

پاکستان میں رہ کر پیش نہ ہونے والی حکمت عملی نہیں چل سکتی۔ وہ پرویز مشرف ہی تھے جو پاکستان میں رہ کر بھی پیش نہ ہوئے۔ ورنہ ملک میں رہ کر پیش ہونا ہی پڑے گا۔اس تناظر میں تو اسحاق ڈار نے بھی اگر واپس آنا ہے تو نیب ریفرنس میں پیش ہونا ہو گا۔اور چاہے انھوں نے پیش ہونا یا نہیں لیکن وزیر رہنا اب ممکن نظر نہیں آتا۔ عمران خان پر نیب کا کوئی کیس نہیں۔ اس لیے ان کے کیسز کی شریف فیملی کے کیسز سے مماثلت ممکن نہیں۔ تاہم عمران خان بھی اب آخری حد پر پہنچ رہے ہیں جہاں انھیں پیش ہونا پڑے گا۔

بات کہاں سے کہاں چلی گئی میں تو چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ اپنی ملاقات لکھ رہا تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آگے کیا ہوگا۔ انھوں نے کہا ایسا کچھ نہیں ہوگا جو ماضی میں ہو چکا ہے۔ کوئی پرانا اسکرپٹ کسی کے پاس نہیں ہے۔ جو ہو گا نیا ہوگا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔میں نے کہا بالکل نیا۔ کہنے لگا بالکل نیا۔ وہ اس سے آگے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

میں نے کہا نااہلیوں سے کیا ہو گا۔ اگر نواز شریف کی نا اہلی کے بعد بھی ن لیگ کا ووٹ بینک قائم ہے ۔ اس طرح عمران خان کی نااہلی کے بعد بھی تحریک انصاف کا ووٹ بینک قائم رہے گا۔اگر نواز شریف نا اہلی کے بعد اپنی جماعت پر کنٹرول قائم رکھ سکتے ہیں تو عمران خان اگر نااہل ہو بھی جائیں گے تب بھی ان کا اپنا پارٹی پر کنٹرول قائم رہے گا۔ چوہدری پرویز الٰہی پھر مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔ کہنے لگے جب میں کہہ رہا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا جو پرانا ہے ۔ نیا ہو گا تو آپ لوگوں کو بات سمجھ کیوں نہیں آرہی۔ میں نے کہا میں مانتا ہوں کہ میں طفل مکتب ہوں۔ ناسمجھ ہوں، کم علم ہوں ، آپ ہی بتا دیں کیا ہو گا۔

انھوں نے کہا آپ جاتنے ہیں کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں میں سب سے زیادہ تعداد گجرات کے لوگوں کی ہے۔ آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو گجرات کے لوگ ضرور ملیں گے۔ گزشتہ انتخاب سے قبل ہماری جماعت کو فنڈز کی ضرورت تھی۔ بیرون ملک میں مقیم گجرات کے لوگ ہماری مدد کرنے کو تیار تھے۔

لیکن مجھے یاد تھا کہ پرویز مشرف نے جب سیاسی جماعتوں کے لیے قوانین بنوائے تھے تو انھوں نے بیرونی فنڈنگ پر پابندی لگوائی تھی۔ ہم نے تب اس کی مخالفت کی تھی لیکن مشرف کا موقف کہ نواز شریف اور بے نظیر دونوں باہر ہیں یہ باہر سے پیسہ بھیج کر الیکشن خراب کریں گے۔ اس لیے میں نے ایس ایم ظفر اور خالد رانجھا کو بلایا اور انھیں کہا بیرون ملک مقیم گجرات کے ہمارے لوگ ہماری جماعت کو فنڈز دینا چاہتے ہیں، کیا ہم یہ فنڈز لے لیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا۔ اگر مسئلہ ہے تو حل بتا دیں۔ دونوں نے چند دن کا وقت مانگا۔اور پھر چند دن بعد انھوں نے کہا بیرونی فنڈنگ کے قریب بھی مت جائیے گا ۔ آپ کی سیاسی جماعت پر پابندی لگ جائے گی ۔ اور ہم نے اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کر دیا کہ قانون آپ سے فنڈز لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

میں نے کہا کہ تحریک انصاف نے تو بیرونی فنڈنگ کا اقرار کر لیا ہوا ہے۔ کہنے لگے ہاں انھوں نے اقرار کر لیا ہوا ہے اور پھنس گئے ہوئے ہیں۔ لیکن میں نے کہا ن لیگ کا تو ایسا کوئی کیس نہیں ہے۔ کہنے لگے مسلم لیگ نے تو اپنی جماعت لندن میں بھی رجسٹرڈ کروائی ہوئی ہے اور وہاں سے بھی 29 کروڑ کی ایک ٹرانزیکشن موجود ہے۔ میں نے کہا کہاں ہے کہنے لگے والیم ٹین میں ہے۔ اسی لیے تو والیم ٹین کھولنے کی بات نہیں کرتے۔ سب کچھ موجود ہے۔ خود بخود کھل جائے گا۔ کہنے لگے اور کچھ نہیں پوچھو گے۔ بس یہی تک۔ آگے خود پتہ کرو۔ سب کچھ میں نے نہیں بتانا۔ پھر موضوع بدل گیا اور بات سیاست سے کہیں اور چلی گئی۔

چوہدری پرویز الٰہی کی بات پر اگر یقین کیا جائے تو کیا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پر پابندی لگنے جا رہی ہے۔ اگلے انتخابات سے پہلے اگر ایسا ہو گیا تو ماحول ہی بدل جائے گا۔ کیا الیکشن کمیشن ان کو نئی جماعتیں رجسٹرڈ کروانے کا موقع دے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ممکن ہو سکے گا۔ کیا یہ دونوں جماعتیں اپنے انتخابی نشان کھو دیں گی۔ اگر اسکرپٹ کو ملا کر پڑھا جائے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نہ صرف قیادت بلکہ ان یہ جماعتیں بھی نا اہل ہونے جا رہی ہیں۔ پھر کیا ہو گا۔اگر یہ لوگ متبادل جماعتیں رجسٹرڈ نہ کروا سکے تو کیا ہوگا۔ کیا یہ آزاد الیکشن لڑیں گی۔ یہ ممکن نہیں۔ سب کو ایک نشان نہیں ملے گا۔ ہر سیٹ پر الگ نشان ہو گا۔ جیتنے والے گھوڑوں کا کیا بنے گا۔ مخصوص سیٹوں کا کیا بنے گا۔ خواتین کی سیٹوں کی نامزدگی ہو گی۔اس لیے شائد چوہدری پرویز الٰہی ٹھیک کہہ رہے ہیں سب نیا ہو گا کچھ بھی پرانا نہیں ہو گا۔