منتخب کردہ کالم

مسلمانوں میں خوف ضروری ہے (سویرے سویرے) نذیر ناجی

یو پی میں مسلمان ووٹروں کو مشروط حق رائے دہی دے کر، ہندوئوں کو بھاری اکثریت سے جیتنے کا موقع فراہم کر دیاگیا۔ عملی طور پر مسلمان ووٹ دینے سے محروم ہو چکے ہیں۔ اکثریت نے ووٹنگ سے گریز کر کے اپنے آپ کو خود ہی حق رائے دہی سے محروم کر لیا۔ بی جے پی کے نافذ کردہ فارمولے کے تحت، مسلمان خود ہی حق رائے دہی سے محروم رہ گئے۔ اب ایک ہی سوال کیا جارہا ہے کہ ”اتر پردیش میں یوگی جی کیا کر رہے ہیں؟‘‘ فون پر سوال پوچھنے والے میرے پرانے واقف کار ،حال ہی میں سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئے ہیں اور خاندانی طور پر کانگریس کے ووٹر ہیں۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، جواب انہی کی جانب سے آیا ”یوگی جی بوچڑخانوں کے خلاف کارروائی کرکے ٹھیک ہی تو کر رہے ہیں۔ مسلمانوں میں تھوڑا بہت ڈر پھیلانا ضروری ہے۔‘‘مجھے برسوں پہلے کے انہی کے الفاظ یاد آ گئے۔ ملک کے کئی حصوں میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھڑکنے والے سکھ مخالف فسادات نے انہیں بے چین نہیں کیا تھا بلکہ وہ ان فسادات کو ”کورس کریکشن‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔تب بھی انہوں نے کہا تھا سردار کچھ زیادہ ہی سر پر چڑھ گئے تھے۔ انہیں تھوڑا بہت سبق سکھایا جانا ضروری تھا۔میرے یہی پرانے خاندانی دوست اپنے ساتھ کام کرنے والے دلت (پسماندہ یا نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے) ملازمین کو کئی بار مزاحیہ لہجے میں ‘‘سرکاری داماد‘‘ کہتے رہے ہیں۔پسماندہ طبقے کے افراد کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دینے کے لیے منڈل کمیشن کی رپورٹ نافذ کروانے والے سابق وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ ان کے خیال میں سب سے بڑے ولین تھے۔یعنی ان کے خواب کے انڈیا میں مسلمانوں اور سکھوں کو ڈرا کر رکھناہوگا، دلتوں اور پسماندہ طبقے کی ”داماد‘‘ جیسی خاطر مدارات نہیں کی جائے گی۔ یعنی ملازمتوں اور یونیورسٹیوں میں انہیں ریزرویشن نہیں دیا جائے گا اور انڈیا کے پاس جوہری بموں کا ایسا ذخیرہ ہوگا جو پاکستان اور چین کو پلک جھپکتے ہی راکھ کر دے گا۔
اتر پردیش میں ”غیر قانونی‘‘ بوچڑخانوں (مذبح) کے خلاف جاری کارروائی کو یوگی کے فیصلہ کن لیڈر ہونے کے ثبوت کے طور پر دیکھنے والے وہ تنہا نہیں ہیں۔دہلی میں اوبر ائے ٹیکسی چلانے والے ایک ڈرائیور نے بھی بات چیت کے دوران کہا’ ‘کام ہوگا جی، کام ہوگا، اب دیکھو نا، بوچڑخانے بند تو کر رہے ہیں یوگی جی، اور بھی کام ہوں گے۔‘‘اور کام ہو رہے ہیں۔ بی جے پی رہنما آدتیہ ناتھ یوگی نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے فوراً بعد پارٹی کے انتخابی وعدوں کو نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔بوچڑخانوں کے ساتھ ساتھ ریستوراں، پارکوں، گلیوں، محلوں میں خاکی وردیوں میں ملبوس پولیس اہلکار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو روک کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ رہے ہیں، ان سے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کروا رہے ہیں اور اخلاقیات کے سبق سکھا رہے ہیں۔لیکن اگر آپ سکول یا کالج جانے والی کسی نوعمر لڑکی کے والد سے کہیں کہ یوگی کا یہ فیصلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، تو وہ سب سے پہلے آپ کے انسانی حقوق کو پامال کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔بہر حال یہ سچ ہے کہ جو کام اب تک ”ویلنٹائن ڈے‘‘ کو بجرنگ دل اور ہندو سینا جیسی سخت گیر تنظیموں کے کارکن زعفرانی پٹکے پہن کر کیا کرتے تھے، اس کام کو اب ریاستیں اور اس کی پولیس مکمل طور قانون کے دائرے میں انجام دے رہی ہیں اور اسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔یوگی انتظامیہ کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر یوپی پولیس اسے ہفتہ وصولی کا ذریعہ نہ بنا لے تو اس سے حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔
انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں بی جے پی سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ بی جے پی لیڈروں نے ہر پلیٹ فارم سے یوپی کے ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپیزمنٹ نہیں کرے گی۔اگر قبرستان کے لیے زمین ملتی ہے تو شمشان کے لئے بھی ملے گی۔ پارٹی کو اترپردیش کے چار کروڑ مسلمانوں میں سے اسمبلی بھیجے جانے لائق ایک بھی مسلمان نہیںملا۔ یا یوں کہیں کہ تلاش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔انتخابات کے نتائج آنے پر یہ ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی ”ٹیکٹیکل ووٹنگ‘‘ کسی کام کی نہیں رہی اور یہ بھی کہ ہندو نظریاتی پارٹی بی جے پی کو اپنی سیاسی کامیابی کے لئے مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے۔جن مسلمانوں کو اب تک اندرا گاندھی کی کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، اس سے پہلے انڈین لوک دل، دلت مزدور کسان پارٹی وغیرہ اپنے ساتھ رکھنا ضروری سمجھتی تھیں، انہیں بی جے پی اترپردیش کے سیاسی پس منظر سے باہر کر ہی چکی ہے۔ اب وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اعلان کر دیا ہے کہ غیر قانونی بوچڑخانوں کو گندگی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔میرٹھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ستیش پرکاش اسے براہ راست مسلمانوں اور دلتوں کے روزگار کے ذریعہ معاش پر کڑی ضرب کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ گوشت اور چمڑے کے کاروبار سے لاکھوں مسلمان اور دلت منسلک ہیں اور حکومت کے فیصلے سے ان کے روزگار پر اثر پڑے گا۔ اثر پڑتا ہے تو پڑتا رہے۔ لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پالیسی سازوں کو معلوم ہے کہ بوچڑخانوں کے خلاف کارروائی سے ایک علامتی پیغام بھی جاتا ہے۔ اسے ناپاکی کے خلاف پاکیزگی کے حامیوں کی مہم کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے یا یہ کہ گوشت کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی ناپاکی کے خلاف گورکھ ناتھ مٹھ کی ایک قسم کی مقدس مہم کے طور پر دیکھی جائے گی۔گوشت خوری کو کریہہ گناہ اور غلیظ کام ماننے والی برادریوں کے لیے بوچڑخانے بند ہونا ”رام راج‘‘ کی پہلی آہٹ جیسا ہے۔اس پر اگر میرے پرانے واقف کاروں اور دہلی کے اوبرائے ڈرائیور تک یہ پیغام جا رہا ہے کہ ناپاکی کے خلاف یوگی کی اس مقدس مہم سے ”مسلمانوں میں خوف‘‘ پھیل رہا ہے تو گورکھناتھ مٹھ کے ناظم کا نصف کام آسان ہو گیا ہے۔
5 ریاستوں کے انتخابی نتائج نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اب سیاست میں کامیابی موروثی نہیں ہے۔ اب محنت اور تدبر کے ساتھ بنائے گئے انتخابی لائحہ عمل سے فتح حاصل ہوتی ہے۔ سیاست میں ذرا سی غفلت اقتدار سے اسی طرح زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت کو محروم کر دیتی ہے جس طرح اپنی تیز رفتاری کے زعم میں خرگوش نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے ہدف پر توجہ رکھنے والے کچھوے سے شکست کھائی تھی۔ یہ زمانہ مینجمنٹ کا ہے۔ جس نے بہتر اور مدبرانہ انداز سے انتخابی میدان میں قدم رکھا، اسی کی کامیابی ہوتی ہے اور جس نے یہ سوچ لیا کہ ہم تو اقتدار کے حق دار ہیں ہی اور عوام ہمیں ہی کامیاب بنائیں گے وہ مات کھا گیا۔ اتراکھنڈ کے سابق وزیراعلیٰ ہریش راوت نے اپنی پارٹی میں ہونی والی بغاوت سے کوئی سبق نہیں سیکھا، وہ تو اُن کی قسمت اچھی تھی جو اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے ایک ایماندار اور فاضل چیف جسٹس نے بیباکی کا اظہار کرتے ہوئے گورنر کی رپورٹ سے مشکل میں آئی اتراکھنڈ حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا اور اسی فیصلے کی بنیاد پر سپریم کورٹ کو ہریش راوت کی منتخب حکومت کے حق میں فیصلہ سنانا پڑا۔ فسطائی طاقتوں کی اتراکھنڈ کی منتخب کانگریس حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے کی سازش ناکام ہوئی۔ لیکن ہریش راوت نے مشکل کی اس گھڑی سے باہر نکلنے کے بعد یہ نہیں سوچا کہ چند سال کے بعد الیکشن آنے والے ہیں اور انہیں ایسے کام کرنے چاہئیں جس سے وہ عوام کے دلوں کو جیت لیں۔ انہوں نے یہ اقتدار بی جے پی سے حاصل کیا تھا اور ان کو اپنے دور اقتدار میں اتنا اچھا کام کرنا چاہیے تھا کہ عوام دوبارہ ان کے حق میں ووٹ ڈالتے اور وہ اتراکھنڈ کے اقتدار پر دوبارہ قابض ہوتے۔ لیکن الیکشن نتائج نے بتایا کہ اتراکھنڈ کے عوام ہریش راوت سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے ہاتھ کا ساتھ دینے کے بجائے اس پہاڑی ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کر کے پانچ سال بعد پھر ”گل‘‘ کھلا دیا۔ بالکل یہی حال پنجاب میں اکالی دل کے ساتھ ہوا۔ وہاں 10 سالہ دور اقتدار سے اکالی دل اپنے مفادات میں ہی گم تھا۔ مرکز میں برسراقتدار پارٹی کی حلیف تھی۔ اس لئے بادل گروپ نے سوچا انہیں کون اقتدار سے نکال سکتا ہے۔ منشیات نے پنجاب میں عوام کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ پنجاب کے انہیں حالات پر شاہد کپور اور کرینہ کپور کی فلم ”اڑتا پنجاب‘‘ بنی تھی۔ بادل حکومت کے ایک وزیر پر منشیات کے ناجائز کاروبار کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ عوام کے جذبات اور احساسات کو اکالی دل حکومت نہیں سمجھ سکی۔ ان کی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں کجریوال بریگیڈ نے بہت اہم رول ادا کیا۔ دوسری طرف کیپٹن امریندر سنگھ نے پورے تدبر کے ساتھ انتخابی لائحہ عمل بنا کر الیکشن میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ عوام نے امریندر سنگھ پر بھروسہ جتاتے ہوئے کانگریس کو اقتدار سونپ دیا۔ پنجاب میں کجریوال کی ”عام آدمی پارٹی‘‘ کو دوسرے نمبر پر آنا پڑا۔ اکالی دل اپنی بے پروائیوں اور عوام سے بے توجہی کے سبب شکست سے دوچار ہوئی اور اپنے ساتھ حلیف پارٹی کو بھی لے ڈوبی۔
اتر پردیش کے نتائج نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ جو پارٹی عوام کے جذبات کو سمجھتی ہے، اس کے احساسات کا خیال رکھتی ہے اور اقتدار کے نشے میں چور نہیں ہوتی ،اسے کامیابی ملتی ہے۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کو اگر مستقبل میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو ان کو بہت گہرائی سے ان وجوہ پر غور کرنا ہو گا جن کے سبب انہیں زبردست ہار کا سامنا کرنا پڑا۔