منتخب کردہ کالم

مسلم لیگ ن اور ریاستی ادارے….حذیفہ رحمن

پڑوس

مسلم لیگ ن اور ریاستی ادارے….حذیفہ رحمن
ریاستی ادارے کسی بھی ریاست کا نظام و انصرام چلانے میں اہم کردا رادا کرتے ہیں ۔کسی بھی معاملے کا اچھا یا برا فیصلہ کرنا ان اداروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ماضی میں جب بھی ان اداروں نے کسی کے خلاف فیصلہ کیا تو کوئی بھی اس کو تبدیل نہیں کروا سکا۔ اسی ملک میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کو آمر ایوب خان کے مقابلے میں ہروایا گیا۔کیونکہ ریاستی اداروں نے اپنے باس کی جیت کا فیصلہ کرلیا تھا اور ہار محترمہ فاطمہ جناح کے حصے میں آئی۔اسی طرح بھٹو صاحب کی پھانسی بھی ایک شخص کی انا کی تسکین تھی۔دنیا کے بااثر ممالک بھی بھٹو صاحب کی پھانسی کو نہ رکوا سکے ،کیونکہ ریاستی اداروں نے فیصلہ کرلیا تھا۔نوازشریف دو تہائی مینڈیٹ لے کر آئے مگر طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا اور پھر جلا وطن کردیا گیا ۔لیکن کوئی کچھ نہ کرسکا ۔کیونکہ ریاستی اداروں کا فیصلہ تھا۔مگر کبھی کبھی ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ریاستی اداروں کے فیصلے بھی مسترد کردئیے جاتے ہیںاور ریاستی اداروں کا فیصلہ مسترد کرنے کی طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے۔عوامی طاقت کے سامنے سب اداروں کی تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ریاستی اداروں کا تھا۔مگر واپس چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر بحال کرانے کا فیصلہ عوام کا تھا۔عوام کا فیصلہ کامیاب ہوا اور پوری ریاستی طاقت بھی اپنے فیصلے کو برقرار نہ رکھ سکی۔اسی طرح جب بھی عوامی سمندر نے ریاستی اداروں کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اس میں کوئی بھی فرد یا ادارہ رکاوٹ نہیں ڈال سکے۔
آج سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی نشست کے ضمنی انتخابات پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ حکمران جماعت کے چند حلقوں کی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کو ہرانے کے لئے ریاستی اداروں نے بھرپور کوشش کی ۔کچھ وزراء نے پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے اغواہونے والے افراد کا ذکر بھی کیا۔سوال پوچھا گیا کہ پنجاب اور وفاقی حکومت ہونے کے باوجود اغوا کس نے کیا؟ مگر حکمران جماعت کے افراد سوال گو ل کر گئے۔ویسے جانتے تو سب ہی ہیں کہ اس ملک میں دن دیہاڑے کون اغوا کرسکتا ہے؟ اگر مسلم لیگ ن کے الزامات میںصداقت ہے تو معاملے کی جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔پولنگ اسٹیشنز پر نامناسب رویے کی شکایات بھی سامنے آئیں۔صحافیوں کو الیکشن کمیشن کے خصوصی اجازت نامے کے باوجود اندر جانے نہیں دیا گیا۔سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے خواجہ حسان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔کئی صحافیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس سے شکایات کیں کہ سیکورٹی کے نام پر انہیں الیکشن مانیٹرنگ سے روکا گیا۔اس معاملے کو بھی انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔اگر اس قسم کی شکایات عام انتخابات میں سامنے آئیں تو اس کے نتائج خوفناک ہونگے۔بین الاقوامی اخبارات نے ایک حلقے میں 44امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے معاملے کو بھی سنجیدگی سے اٹھایا۔اطلاعات ہیں کہ 44امیدواران میں سے اکثریتی آزاد امیدواران وہی لوگ تھے ،جو عام طور پر مسلم لیگ ن کی حمایت کرتے ہیں۔انہیں جان بوجھ کر کھڑا کروایا گیا ۔اس طرح نہ وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کی مہم چلا سکیں گے اور بلکہ ہر امیدوار چند سو ووٹوں کا نقصان کرے گا۔اتنی بڑی تعداد میں امیدوار سامنے لانے کی ایک منطق یہ بھی تھی کہ ایک ووٹر کا نام 44پولنگ ایجنٹ اپنی لسٹوں میں تلاش کریں گے۔اس سے انتخابی عمل سست ہوجائے گا اور فتح کا مارجن کم کیا جاسکتا ہے۔مسلم لیگ ن کے لوگوں نے شکایات کیں کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی دس سے پندرہ ہزار افراد مختلف پولنگ اسٹیشنز کی حدود میں موجود تھے ۔مگر انہیں ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا۔اسی طرح حالیہ ضمنی انتخاب میں سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال مذہبی جماعتوں کے حوالے سے رہی۔سزا یافتہ شخص کی تصویر لگا کر ووٹ مانگے گئے۔جبکہ ایک ایسا شخص جس کی وجہ سے ہمارا دوست ملک چین سمیت پوری دنیا ہم سے ناراض ہے۔اس کی تصاویر لگا کر ایک امیدوار کی حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ اس امیدوار کا تعلق اس جماعت سے نہیں ہے بلکہ آزاد امیدوار یعقوب شیخ جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید کے وژن پر عمل کررہا ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر کے ساتھ کالعدم تنظیم کے بانی کی تصویر اور ساتھ آزاد امیدوار کی تصویر لگا کر وو ٹ مانگے گئے۔بھلا ہم نے پوری دنیا کو کیا پیغام دیا ہے؟ کیا ریاستی ادارے مل کر ان امیدواروں کو نہیں روک سکتے تھے؟ آج ایک قومی اخبارنے بھی سپریم کور ٹ آف پاکستان کے ایک معزز جج کے حوالے سے ریمارکس تحریر کئے ہیںکہ کالعدم جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی کھلی چھٹی،ان پر کس کی چھتری تھی۔بہرحال بالا معاملات پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کریں گے۔اگر 2018کے عام انتخابات میں یہی پریکٹس دہرائی گئی اور کالعدم جماعتوں کو کسی کاووٹ کاٹنے کے لئے استعمال کیا گیا تو شاید فتح کا مارجن کم کرنے میں تو کامیاب ہوجائیں مگر اس سے جو پاکستان کا دنیا بھر میں امیج بنے گا ۔اس کے دو رس نتائج خطرنا ک ہونگے۔یہ کالعدم جماعتیں کبھی بھی پاکستان کا چہرہ نہیں ہوسکتیں۔دنیا بھر کے اشاعتی اداروں و نشریاتی اداروں نے لاہور کے ضمنی انتخاب میں ان کے کردار پر کھل کر تنقید کی ہے۔
باقی بات رہی مسلم لیگ ن کی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود حالیہ الیکشن کٹھن ترین تھا۔اگر تمام بالا الزامات کو درست مان لیا جائے تو بھی صورتحال خرابی کی طرف جارہی ہے۔اگر مسلم لیگ ن کے گڑھ میں فتح کو مشکل بنایا جاسکتا ہے تو کمزور حلقوں کا کیا ہوگا۔عام انتخابات میں اگر یہی عمل دہرایا گیا تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے دیکھا جائے۔لاہور کے مضبوط حلقے میں چند ہزار کی فتح مسلم لیگ ن کے اکابرین کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مقتدر اداروں سے لڑ کر پاکستان میں انتخابی سیاست کرنا بہت کٹھن کام ہے۔اگر انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن کے ساتھ زیادتیاں کی گئی ہیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم خامیوں سے بھرپور تھی۔ریلیاں نکالنے اور سوشل میڈیا پر تصاویر سے ووٹ نہیں ملتے۔بلکہ کارنر میٹنگز اور مناسب حکمت عملی سے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔انتخابات والے دن مسلم لیگ ن کے پاس کوئی موثر حکمت عملی نہیں تھی۔موجودہ حالات میں یہی مارجن 20سے25ہزار بھی کیا جاسکتا تھا۔مگر اہم ترین انتخابی معرکے میں نئی ٹیم اتاری گئی ۔جس کے پاس کوئی معقول تجربہ نہیں تھا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کے اپنے حلقے میں دس سے پندرہ ہزار مسلم لیگی ووٹر سڑکوں پر تھا اور کوئی انہیں ووٹ کاسٹ کرانے والا نہیں تھا۔باقی نوازشریف صاحب کے لئے ایک شعر ہے
بس اک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا