منتخب کردہ کالم

مصلحت آمیزی؟ .. کالم منیر بلوچ

مصلحت آمیزی؟ .. کالم منیر بلوچ

6 اکتوبر کی شام آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پنجگور میں شہید ہونے والے ایف سی کے ونگ کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل عامر کے اہل خانہ سے تعزیت کیلئے ان کی رہائش گاہ پہنچے تو وطن پراپنی جان قربان کرنے والے اس خاندان کا صبر اور حوصلہ دیدنی تھا جس سے جنرل باجوہ سمیت قوم کو زبردست حوصلہ ملا ۔۔۔۔ پنجگور میں ایف سی کے قافلے پر حملہ کرتے ہوئے بلوچ علیحدگی پسندوں کے بھیس میں بھارتی دہشت گردوں نے جس انداز سے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی اس سے صاف لگتاہے کہ یہ کوئی عام بلوچ نہیں بلکہ کسی انتہائی تربیت یافتہ فوج کے کمانڈوز ہیں ‘براہمدغ بگٹی اور مہران مری کی جانب سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈکی جانے والی ویڈیو سے عیاں ہے ۔2016 میں یکم جنوری سے سات مارچ تک صرف کوئٹہ کے ملتان چوک اور زہوب چھائونی میں ہونے والے خود کش حملوں میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے بارہ جوان شہید اور44 زخمی ہوئے۔ اس سال یکم جنوری سے 30 ستمبر تک بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں بلوچستان میں دہشتگردی کی34 کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز اور شہریوں سمیت 77افراد شہید اور115 زخمی ہو چکے ہیں۔امریکہ اور اسرائیل کی غلامی میں جکڑا ہوا عالمی میڈیا بھارت کی اس قتل و غارت اور دہشت گردی کو بلوچ عوام کی آزادی کی جنگ کا نام دیتا ہے لیکن جب اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرار داد کی تکمیل کیلئے کشمیری عوام ان پر قابض بھارتی فوج کے خلاف سڑکوں پر نکلتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کا نام دے دیا جاتا ہے ؟
اپنے وطن اور اس کی سکیورٹی فورسز پر خود کش حملوں کی جب بھی کوئی خبر سنائی دیتی ہے تو بے اختیار دل سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ کاش دشمن کے ہم پر کئے جانے والے خود کش حملوں کی ہمیں بھی کوئی اسی طرح اطلاعات دینا شروع کر دے جس طرح ” یہاں سے با اختیار دوست‘‘ نے بھارتی حکومت کو ایک خفیہ اور تیز رفتار پیغام کے ذریعے خبردار کیا تھاکہ کشمیر اور بھارت کے دارلحکومت دہلی سمیت ان کے صوبے گجرات اور کچھ دوسری اہم جگہوں پر لشکر طیبہ اور جیش محمد کاروائی کر سکتی ہے۔ یہ حوالہ یا ذکر کوئی ایسے ہی سنی سنائی نہیں بلکہ ریکارڈ کی بنیاد پر کہی جا رہی ہے کیونکہ گزشتہ برس پاکستان کی جناب سے بھارت کے خیر خواہوں نے اسے خبردار کیا کہ کہیں نہ کہیں سے لشکر طیبہ کے آٹھ سے دس خود کش حملہ آور بھارت میں داخل ہو چکے ہیں جو کسی بھی وقت وہاں تباہی و بربادی کی بڑی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ گجرات میں لشکر طیبہ یا جیش محمد کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں یہاں تک بتا دیا گیا کہ لشکر طیبہ کے یہ ”دہشت گرد ‘‘دوارکا اور جونا گڑھ کے مندر وں سمیت گجرات کے ساحلی علاقوں kutch یاsaurashtra کے قریب بھی کارروائی کر سکتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دہشت گرد سومنات یا احمد نگر میں بھی دہشت گردانہ کارروائیاں کریں؟ ۔۔۔ اور پھرجب پٹھان کوٹ پر ”حملہ ‘‘ہوتا ہے تو سب نے دیکھا اور سنا کہ میاں نواز شریف حکومت نے مرید کے میں لشکر طیبہ کے لوگوں کے خلاف پٹھان کوٹ حملے کیFIR درج کراتے ہوئے اس تقریر کی یاد کر دی جس میں ۔۔۔۔لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں کارگل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں ”بھارتی میڈیا کے لوگوں کو بتا یا گیا کہ بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر بھارت کے خلاف جنرل مشرف کے شب خون پرشکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فوج نے مجھ پر اور بھارت کی عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جس پر میں نے واجپائی صاحب سے کہا کہ آپ کی جگہ اگر میں ہوتا تو یہی کہتا کہ بھارت کی پیٹھ میں جنرل مشرف نے چھرا گھونپاہے۔۔گھبرائیں نہیں آپ کا بدلہ میں اس سے لوں گا ؟۔اندازہ کیجئے کہ لوگ پانامہ کو رو رہے ہیں یہاں تو کھیل ہی کچھ اور کھیلا جا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کو ان کے ملک میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کے بارے میں دی جانے والی اطلاعات کے بعد بھارت کے سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال کے جنوری2000 میں ” دی ہندو‘‘ کو دیئے گئے انٹر ویو میں یہ کہنا کہ” مجھے پاکستان کی حدود سے کشمیر میں گھس آنے والے مجاہدین کی اطلاعات نواز شریف نے دی تھیں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے‘ آئی کے گجرال کا یہ انٹرویو آج سے47 برس قبل جب سامنے آیا تھا تو کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن چونکہ یہ خبر بھارتی اخبارات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اہم اخبارات میں بھی شائع ہو ئی تھی جس کی ابھی تک کسی بھی جانب سے تردید نہیں آئی ۔ بھارت بلوچستان، لائن آف کنٹرول اور افغان سرحد پر ایک ایک کرتے ہوئے پاک فورسز کو نشانہ بنائے جا رہا ہے اور ہم ہیں اس سے دوستی کی بھیک مانگتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے؟ کشمیری اور سکھ جوان جو اپنے لئے علیحدہ وطن کی جدو جہد کر رہے تھے کیا ان کی آزادی کی جنگ پاکستان کے خلاف تھی؟ اگر بنگلہ دیشی عوام کی طرح سکھ بھی اپنے لئے علیحدہ آزاد اور خود مختار ملک کی جدو جہد کر رہے ہیں تو پاکستان کے کچھ ذمہ دار سیا سی حضرات کو اس سے کیا تکلیف ہے؟ کشمیریوں کی مدد کی جائے تو آپ ڈان لیکس کے ذریعے شور مچانے لگتے ہیں کہ ” نان سٹیٹ ایکٹر‘‘ بھیجے جا رہے ہیں لیکن جب ہندو بلوچ فورم بنایا جائے تو آپ کی زبان بند رہتی ہے؟جنیوا میں آزاد بلوچستان کی تشہیری مہم چلائی جائے آپ مہر بلب رہتے ہیں۔۔ صرف ایک ہی لفظ آپ کی زبان سے نکلتا ہے کہ” حافظ سعید ہم سب کا دشمن ہے‘‘ ۔آپ ہیں کون آپ کا تعلق اور وفا داری کس سے ہے؟۔ نریندر مودی سمیت بھارت کا ہر وزیر اعظم اور جنر ل بپن راوت کی طرح ہر آرمی چیف بنگلہ دیش کی سر زمین پر کھڑے ہو کر فخریہ انداز میں دنیا بھر کو سناتا ہے کہ ” ہاں وہ ہم ہی تھے جنہوں نے پاکستان توڑا ہے۔ وہ ہم ہی ہیں جنہوں نے مکتی باہنی کے بھیس میں اپنے کمانڈوز پاکستان کی حدود میں داخل کئے ‘وہ ہم ہی تھے جنہوں نے مکتی بانی کے ساتھ شامل ہو کر بنگلہ دیش بنانے میں جدو جہد کی ‘‘ اورایسا کہتے ہوئے انہیں کوئی شرم نہیں کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کوئی بین الاقوامی یا سفارتی اور فوجی دبائو نہیں تو پھر ہمارے ان حکمرانوں کے بارے میں کیا کہا جائے جو شیو سینا اور راشٹریہ سیوک سنگھ والوں کو مخبریاں کرتے ہیں؟ لاشے گرتے‘خرمن پھنکتے اور عصمتیں پامال ہوتی ہیںاور بلوچستان میں ہر روز ایک پاکستانی کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے تو پھر یہ دوستی اور مصلحت نما بزدلی کیوں؟۔ کبھی کسی دن۔۔۔ایک گہرا گھائو اسے بھی لگا دیں؟۔