منتخب کردہ کالم

منصبِ رسالت: مفتی منیب الرحمن

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مناصب میں سے رسالت سب سے اعلیٰ منصب ہے اور اس میں بھی سیّدُ الرُسل اور امام الانبیاء کا مقام سب سے اعلیٰ ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت (کا منصب) کسے تفویض فرمائے، (الانعام:124)‘‘۔اور ظاہر ہے جسے وہ یہ منصب تفویض فرماتا ہے ،اُس میں ساری انسانیت سے بڑھ کر قابلیت ،اہلیت اور روحانی کمالات بھی پیدا فرماتا ہے ، اس لیے رسول سب سے افضل واعلیٰ ہوتے ہیں اور امام احمد رضا قادری نے کہا: ؎
قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی
مُلکِ کونین میں انبیاء تاجدار
تاجداروں کا آقا ہمارا نبی
انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کے چُنیدہ اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اور بے شک وہ ہمارے نزدیک چُنے ہوئے پسندیدہ (بندے )ہیں ،(ص:47)‘‘اور فرمایا:”اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے رسولوں کو چُن لیتا ہے اور انسانوں میں سے (بھی)،(الحج:75)‘‘۔
رسول ، اللہ کے بندوں پر اللہ کی حُجت ہوتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اور ہم نے ایسے رسول (بھیجے)،جن کا قصہ ہم نے اس سے پہلے آپ کو بیان فرمایا اور ہم نے ایسے رسول (بھی) بھیجے، جن کا قصہ ہم نے آپ سے ابھی تک بیان نہیں فرمایا اور اللہ نے موسیٰ سے (بلاواسطہ) کلام فرمایا،(اور ہم نے جنت کی)خوش خبری دینے والے اور ( عذاب سے)ڈرانے والے رسول بھیجے، تاکہ رسولوں (کی بعثت )کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت نہ رہے، (النساء: 164-65)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی اور رسول ، اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت تمام کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں تاکہ بروزِقیامت کسی بشر کے پاس کفر وشرک ،فسق وفجور پر قائم رہنے کے لیے کوئی جواز ،کوئی بہانہ اور کوئی دلیل باقی نہ رہے ، حق کی حقانیت اور باطل کا بُطلان روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے ،(انفال:42)‘‘۔
رسول ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے با اختیار شارع اور مُقَنِّن (Lawgiver)ہوتا ہے ۔موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی: ”اور(اے اللہ!)ہمارے لیے اِس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں (بھی)،بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے، اللہ نے فرمایا: میں اپنا عذاب جسے چاہتا ہوں ،اُسے پہنچاتا ہوںاور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے ،پس میں اِس (دنیا وآخرت کی بھلائی)کو اُن لوگوں کے لیے لکھ دوں گاجو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریںگے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے ،(اور)جو لوگ اُس ”عظیم رسول نبیِ اُمّی‘‘ کی پیروی کریں گے ،جس کو وہ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ،جو اُن کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا اور جو اُن کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قراردے گا اور ناپاک چیزوں کو حرام قراردے گااور جو اُن سے اُن کے بوجھ اتار دے گااوراُن کے( گلوں کے) طوق اتاردے گا، سو جو لوگ اُس پر ایمان لائے اور اُس کی تعظیم کی اور اُس کی نصرت اور حمایت کی اور اُس نور کی پیروی کی جو اُس کے ساتھ نازل فرمایا گیا ہے ،وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں،(الاعراف:156-57)‘‘۔اِن آیاتِ مبارکہ کی رُو سے جو انعام موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے طلب کیا ، اللہ تعالیٰ نے اُسے خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی اُمّت کے لیے مقدر فرمایا اور اِس میں یہ بھی فرمادیا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے شارعِ مُجاز بناکر پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دینے کا اختیاربھی عطا فرمایا ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”سنو!مجھے کتاب عطافرمائی گئی ہے اور اُس کی مثل (یعنی میری سنت)بھی اُس کے ساتھ ہے،سنو!قریب ہے کہ ایک شخص پیٹ بھرا ہوا اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا (اور)کہے گا:اس کتاب (قرآن)کو لازم پکڑو،پس جو کچھ تم اس میں حلال پائو ،اُسے حلال جانو اور جو کچھ تم اِس میں حرام پائو، اُسے حرام جانو،سنو!میںتمہارے لیے پالتو گدھے اور کُچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں کو حرام قرار دیتا ہوں ،(ابودائود:4604)‘‘۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں ،جن کی حرمت کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں ہے ، مگر میں انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور یہ اختیار قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے ۔
رسول مُطاعِ مُطلَق ہوتا ہے ،اِس سے مراد یہ ہے کہ رسول کی اطاعت غیر مشروط طور پر لازم ہے اور جب رسول اللہ ﷺ کا فرمان سامنے آجائے اور اُس کی نسبت آپ کی طرف شرعی معیارات کے مطابق ثابت ہو ،تو وہ حجت ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اوراُن کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں ،پھر اگر کسی چیز میں تمہارا آپس میں اختلاف ہوجائے ،تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو،اگرتم اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو،یہی (شِعار)بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے، (النساء:59)‘‘۔اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسولِ کریم ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کولازم فرما دیا ہے ،جب کہ دوسرے کسی بھی صاحبِ اختیار واقتدار کی اطاعت مشروط ہے، اُس پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے، دلیل کی بنیاد پر اُس سے اختلاف کیا جاسکتاہے اور حتمی فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوگا۔سو جس کی بات قرآن وسنت کے مطابق ہوگی ،وہ تسلیم کی جائے گی اور جس کی بات اُن کے خلاف ہوگی ،اُسے رد کیا جائے گا۔پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کا مظہر بھی رسول کی اطاعت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”اور جس نے رسول کی اطاعت کی ،اُس نے در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی، (النساء:80)‘‘۔اور فرمایا: ”اور جس نے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کی ،تو اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی ، (الاحزاب:71)‘‘۔اور یہی بات رسول اللہﷺ نے حدیث میں بیان فرمائی :
”سو جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی ،تو اُس نے در حقیقت اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی ،تو اُس نے در حقیقت اللہ کی نافرمانی کی اور محمد ﷺ لوگوں کے درمیان وجہِ امتیاز ہیں،(بخاری:7281)‘‘۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو سیدُنا محمد ﷺ سے وابستہ ہوگیا ،وہ اللہ کا ہوگیا اورجس نے اپنا رشتہ آپﷺ سے توڑ دیا ،وہ اللہ کے ہاں راندۂ درگاہ ہوا۔
اطاعت کے معنی ہیں :”فرمانبرداری کرنا ،حکم ماننا ‘‘۔سو اِطاعت اللہ اور رسول دونوں کی لازم ہے۔ جبکہ اتباع کے معنی ہیں : ”پیروی کرنا ،نقشِ قدم پر چلنا، سیرت کو اپنانا ‘‘۔لہٰذا اِتباع صرف رسول اللہ ﷺ کی ہوسکتی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”(اے رسول!)کہہ دیجیے:اگر تم اللہ سے محبت کے دعوے دار ہو تو میری پیروی کرو ،اللہ (خود) تمہیں اپنا محبوب بنالے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے ،(آل عمران:31)‘‘۔ سوچیے! جب رسول کا سچا پیروکار اور آپ کی سیرتِ طیبہ کو اپنانے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے ،تواُس کی بارگاہ میں خودذاتِ رسالت مآبﷺ کی محبوبیت کا عالَم کیا ہوگا!۔اس لیے آپﷺ نے اپنی محبت کو ایمان کے لیے معیار ومدار قرار دیتے ہوئے فرمایا:”اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھے اپنے والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ جانے،(بخاری:14)‘‘۔
عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں :ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ حضرت عمر بن خطاب کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے تو عمر نے عرض کی:یارسول اللہ!آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں مگر اپنی جان پیاری لگتی ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں(اِس سے میری محبت کاحق ادا نہیں ہوتا )،اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ، تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب جانے بغیر مومن نہیں ہوسکتے ، اِس پر حضرت عمر نے عرض کی: (یارسول اللہ!)اللہ کی قسم!اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ،تو نبی ﷺ نے فرمایا: عمر!اب تمہارے ایمان کا تقاضا پورا ہوا، (بخاری:6632)‘‘۔
اس حدیث کی تشریح میں علماء نے فرمایا: جس کے دل میں نفسِ محبتِ رسول نہیں ،وہ سِرے سے مومن ہی نہیں اور جس کے دل میں کمالِ محبتِ رسول نہیں ہے ،اُس کا ایمان کامل نہیں ہے۔ الغرض ایمان کا مدار محبتِ رسول پر ہے اور محبتِ رسول کی ظاہری پہچان اطاعت واتباعِ رسول ہے ۔آپ ﷺ کی اطاعت واتباع سے انحراف کرنے والے کا دعوائے عشق ومحبتِ رسول ہمیشہ مَحلِ نظر رہے گا۔بعض واعظینِ کرام ایک حدیث کی تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ اُس سے بے عملی کی ترغیب ملتی ہے، یہ شِعار درست نہیں ہے ، حدیث یہ ہے: ”انس بن مالک بیان کرتے ہیں :ایک شخص نے نبیﷺ سے سوال کیا :یارسول اللہ!قیامت کب قائم ہوگی؟، آپﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لیے کیاتیاری کی ہے؟،اُس نے عرض کی: نمازوں ،روزوں اور صدقات کا کوئی بہت بڑا ذخیرہ تو نہیں ہے ، لیکن میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: تمہارا حشر اُس کے ساتھ ہوگا،جس کے ساتھ تم محبت کرتے ہو، (بخاری: 6171)‘‘۔توایک صحابی کے بارے میں کیاہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ فرائض، واجبات اور سُنن پر عامل نہیں ہوگا اور مُحرّمات ومکروہات اور مفسدات سے مُجتنِب نہیں ہوگا۔ہماری رائے میں صحابی نے یہ بات عَجز وانکسارکے طور پر کہی،کیونکہ اپنی بندگی پر ناز کرنا اہلُ اللہ کا شِعار کبھی نہیں رہا۔لیکن احادیث کی تشریح اِس انداز سے ہونی چاہیے کہ لوگوں میں اعمالِ صالحہ کے لیے ترغیب اوراُن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا خوف پیدا ہو،الغرض لوگوں کو بے عملی پر جَری بنانا روحِ حدیث کے منافی ہے۔
پسِ نوشت:اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ، مولانا محمد یٰسین ظفر،مولانا عبدالمالک اور مولاناقاضی نیاز حسین نقوی نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے میں نے سندھ اسمبلی کے پاس کردہ تبدیلی مذہب بِل اورپیس اینڈ ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کی رپورٹ کے حوالے سے ”جاگتے رہیو‘‘ اور”پیش رفت‘‘کے عنوان سے جو دوکالم لکھے،وہ اُن کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اُن کی حمایت کو ریکارڈ پر لایا جائے۔