منتخب کردہ کالم

منو بھائی: ایک دوست اور کامریڈ…ڈاکٹر لال خان

منوبھائی کا آخری خواب...حا مد میر

منو بھائی: ایک دوست اور کامریڈ…ڈاکٹر لال خان

جمعرات 19 جنوری کی صبح منیر احمد قریشی ، جو عوامی سطح پر اپنے قلمی نام ‘منو بھائی ‘سے مشہور تھے، لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 84برس تھی۔ عمومی طور پر وہ ایک شاعر، صحافی اور ڈرامہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ساٹھ سال سے زائد عرصے تک مختلف اخبارات کے لیے مضامین لکھتے رہے۔ ایسے چند لکھاری اور صحافی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیںلیکن منو بھائی سب سے الگ تھے۔ وہ پاکستان کے سب سے مشہور ترقی پسند لکھاریوں میں سے ایک تھے۔ اُنہیں مارکسی نظریات اور سوشلسٹ انقلاب پر کامل یقین تھا۔ اُن کی زندگی اور جدوجہد کے اِس پہلو کو مین سٹریم میڈیا نے ہمیشہ سماج سے پوشیدہ رکھا۔ اُن کی نسل انسان سے ہمدردی اور محبت کسی جذباتیت یا طبقاتی جبر پر مبنی سماج میں پھیلی اخلاقی اقدار کی وجہ سے نہیں تھی۔ اپنی زندگی کی شروعات میں اُنہیں طبقاتی تعصب کا سامنا رہا اور بعد میں مختلف ترقی پسند لکھاریوں اور بائیں بازو کے دانشوروں کی صحبت میں منو بھائی نے نابرابری اور استحصال کی سائنسی وجوہات کا ادراک حاصل کیا۔
وہ اپنی پوری زندگی قلم کے ذریعے محکوموں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ لیکن اُنہوںنے صرف اپنی تحریروں کے ذریعے ہی جدوجہد نہیں کی بلکہ وہ خود بھی ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے ساتھ بحیثیت سرگرم کارکن اور یونینسٹ شریک رہے۔ 1950ء اور 1960ء کی تحریکوں میں منو بھائی پیش پیش تھے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی آمریت کے دوران ریاست کی جانب سے اُنہیں جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک دفعہ جب منو بھائی لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایک پبلک میٹنگ کا انعقاد کررہے تھے تو اس وقت کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی نے اُن سے رابطہ کرکے دس ہزار روپے رشوت دینے کی کوشش کی۔ یہ رقم ٹھکرا دی گئی۔ اس انکار پر منو بھائی کا ملتان تبادلہ کردیا گیا۔ انہوں نے ہمت و حوصلے کے ساتھ اس جبر کا سامنا کیا۔
وہ 1968-69ء کی انقلابی تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور جوش و ولولے کے ساتھ اس کا حصہ بنے۔ منو بھائی نے حکومت کے خلاف بہت سے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا۔ وہ کمپنی گارڈن، جسے بعد میں لیاقت باغ کہا جانے لگا، کے بالمقابل راولپنڈی کے علاقے آریا محلہ میں رہتے تھے۔ وہ کم تنخواہ پر گزارہ کرنے والے صحافی تھے اور ایک اوسط درجے کے گھر کی دوسری منزل میں کرایے پر رہتے تھے۔ 68-69ء کی تحریک نے ان کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ ان تاریخی واقعات کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔اگرچہ منو بھائی نے بحیثیت ڈرامہ نگار ہمیشہ سماج میں طبقاتی تضادات کو واضح طور پر آشکار کیا لیکن اُن کا ایک سٹیج ڈرامہ ”جلوس‘‘ سب سے الگ تھلگ تھا۔ یہ ان کا اپنا بھی پسندیدہ تھا اور زندگی کے آخری ایام میں اکثر اس کا ذکر کرتے تھے۔
اس ڈرامے کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے آڈیٹوریم میں بھی پیش کیا گیا۔ ‘جلوس‘ دراصل انقلابی تحریک کے دوران راولپنڈی کی طالبات کے آرمی گیریژن کے سامنے دھرنے سے متاثر ہوکر لکھا گیا تھا۔ یہ طالبات نالہ لئی کے پل کو عبور کرکے فوجی کنٹونمنٹ میں جانا چاہتی تھیں لیکن پولیس نے انہیں روک لیا۔ چھ گھنٹوں تک رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ بالآخر بیگم نصرت بھٹو، جو تحریک کے سرخیل ذوالفقار علی بھٹو کی شریک حیات تھیں، آئیں اور کنٹونمنٹ تک طالبات کی قیادت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو خصوصی طور پر اس سٹیج ڈرامے کو دیکھنے آئے اور جدوجہد اور بغاوت پر مبنی اس طرح کا متاثر کن ڈرامہ لکھنے پر منو بھائی کو مبارک دی اور گلے لگایا۔
کتاب ”پاکستان کی اصل کہانی ، 1968-69ء کا انقلاب‘‘کے لیے انٹرویو کے دوران منو بھائی نے کئی ایسے واقعات کا ذکر کیا جن سے ان طوفانی واقعات کے دوران ابھرنے والے کرداروں کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ منوبھائی نے مصنف کو ایک اور اثرانگیز واقعہ سنایاکہ، ”ہم 1970ء کی گرمیوں میں الیکشن مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ گاڑی میں جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور سے جہلم جا رہے تھے۔مصطفی کھر (بعد میں گورنر پنجاب) ڈرائیونگ سیٹ پر جبکہ حنیف رامے (بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب)پچھلی سیٹ پر میرے ساتھ تھے۔ جب ہم گجرات پہنچے تو مقامی فیکٹریوں سے نکلنے والے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مزدوروں نے بھٹو کی گاڑیوں کے قافلے کو روکا اور بھٹو سے خطاب کرنے کو کہا۔ کچھ نے تپتی سڑک پر لیٹ کرروڈ بند کردی۔بھٹو پریشانی کے عالم میںتھے کہ پہلے ہی دیر ہو چکی ہے اور جہلم بھی پہنچنا ہے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کھر نے بھٹو سے مختصر تقریر کی سفارش کی۔ ایک جوشیلے خطاب کے بعد جب بھٹو گاڑی میں دوبارہ بیٹھ چکے اور قافلہ روانہ ہوا تو مزدوروں نے ”سوشلزم، سوشلزم‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ جب قافلہ کچھ دیر چلا تو بھٹو نے پیچھے مڑ کر رامے اور مجھے مخاطب کرکے کہا ”ہمیں ان چیزوں پر شاید یقین نہ ہو لیکن ان لوگوں کو واقعتاً ان چیزوں پر یقین ہے۔‘‘
اسی طرح ایک دفعہ منو بھائی نے ‘مساوات ‘ اخبار کے لیے بھٹو کی پھانسی کے بعد نصرت بھٹو کے انٹرویو کی روداد سنائی کہ جب وہ آخری دفعہ راولپنڈی کی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے گئیں تو بھٹو نے شکایت کی، ”پارٹی میرے لیے کچھ کر کیوں نہیں رہی ہے؟ میں نے عوام اور پارٹی کے لیے بہت کام کیا ہے‘‘ اس پر نصرت بھٹو نے جواب دیا، ”ذوالفقار! تم نے اپنے پیچھے کوئی بالشویک پارٹی نہیں چھوڑی تھی کہ وہ تمہاری آزادی کے لیے فیصلہ کن تحریک چلاتی۔‘‘
ضیا آمریت کے دوران منو بھائی کو بے انتہا سینسرشپ کے عالم میں لکھنا پڑتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی طریقے سے شائع ہونے والے اپنے مضامین کے ذریعے اُنہوں نے مزاحمت جاری رکھی۔ ایک ایسے دور میں جب ایک تھیوکریٹک ریاست ہر ترقی پسند آواز کو کچل رہی تھی منو بھائی اس جبر کے حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ اپریل 1986ء کی بے نظیر کی جلاوطنی سے واپسی سے منو بھائی کو بہت سی امیدیں تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کی پالیسیوں سے انہیں شدید مایوسی ہوئی۔
1990ء کی دہائی میں اپنی پیشہ ورانہ صحافت کی زندگی کے ساتھ ساتھ ایک دفعہ پھر اُنہوں نے مارکسی فلسفے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ ”طبقاتی جدوجہد‘‘ رسالے کے مارکسی ساتھیوں کے انتہائی قریب تھے جو پاکستان میں تنظیمی، ٹریڈیونین اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے مارکسی انقلابی قوتوں کی تعمیر کر رہے تھے۔ وہ مین سٹریم اخباروں کے علاوہ کئی سالوں تک ”طبقاتی جدوجہد‘‘ رسالے کے لیے مارکسی نقطہ نظر سے خصوصی مضامین لکھتے رہے۔ منو بھائی نے ان سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کامریڈوں کی حتی الامکان مدد کی۔ پچھلی دو دہائیوں میں انہوں نے اپنی پنجابی شاعری کے بہترین شاہکار تخلیق کیے جو حکمرانوں کی رجعتیت اور نظام کی سماجی معاشی اور اخلاقی زوال پذیری کو واضح کرتے ہیں۔ اُن کے اُس دور کے مضامین انتہائی محتاط طریقے سے سرمایہ داری کے زوال اور پاکستان اور پوری دنیا کے سماجوں پر اس کے تباہ کن اثرات کو واضح کرتے ہیں۔
منو بھائی ایک محبت کرنے والے انسان، ایک مخلص دوست اور کامریڈ اور ایک محنتی استاد تھے۔ انہیں آرٹ، میوزک، سیر و تفریح اور ادب سے شغف تھا۔ ان کی محفل میں شادمانی اور خوشگواری کا احساس ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں بھی انہوں نے پرجوش انداز میں اپنے مارکسی فلسفے، معاشی تجزیے اور تاریخی ارتقا کے علم میں اضافہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ محرومی اور ذلت کی شکار انسانیت کوان اذیتوں سے نجات ملے۔ سماج کو تبدیل کرنے کی ان کی جدوجہد اور امید کی میراث ہمیشہ زندہ رہے گی۔