منتخب کردہ کالم

’’مہاجر کیک‘‘ کی تقسیم…الیاس شاکر

’’مہاجر کیک‘‘ کی تقسیم…الیاس شاکر
سندھ تو تقسیم نہ ہو سکا لیکن سندھ تقسیم کرنے کی خواہش کرنے والی جماعت چار حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے… اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ہر جماعت خود کو کراچی کا ”ٹارزن‘‘ کہتی ہے… خود کو تگڑا سمجھتی ہے… لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو شہری سندھ کا نہ صرف نقشہ تبدیل ہو جائے گا بلکہ کراچی بھی ان جماعتوں کی طرح ان کے انداز میں ہی تقسیم ہو سکتا ہے۔
اہلیان کراچی اس وقت یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں کہ کراچی کا لیڈر ہے کون؟ لیڈرشپ اسی طرح تقسیم ہوتی رہی تو وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکے گا جس کے لئے ایم کیو ایم کو توڑا گیا تھا… ڈر یہ ہے کہ کہیں ایم کیو ایم کا بھی ”جئے سندھ تحریک‘‘ والا حال نہ ہو جائے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس دھڑے کا کون سا لیڈر ہے۔ جب طاقت ٹوٹتی ہے تو اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں مقاصد بہت دور چلے جاتے ہیں۔ روس کی تقسیم کے اثرات کئی ممالک آج تک بھگت رہے ہیں… سات سمندر پار سے آنے والی فوجوں نے خود کو ”مالک‘‘ قرار دے دیا ہے اور روس کو تقسیم کرنے والے مسائل کے ایسے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کے لئے وقت اور پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے… ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
سب سے بڑی لیڈرشپ کا دعویٰ اس وقت فاروق ستار کر رہے ہیں۔ مصطفی کمال کا کمال دیکھیں کہ وہ خود کو بیک وقت سندھ کا پارلیمانی اور بلدیاتی لیڈر قرار دیتے ہیں… آفاق احمد نہ صرف پرانے لیڈر ہیں بلکہ تقسیم کا پہلا نعرہ انہوں نے ہی لگایا تھا… چوتھا گروپ ایم کیو ایم لندن ہے جو کہتا ہے کہ یہ برانڈ ہمارا ہے ”کاپی رائٹس‘‘ ہمارے پاس ہیں اس لئے کراچی پر ہمارا حق ہے… سلیم شہزاد بھی ”مہاجرکیک‘‘ میں سے اپنا ”پیس‘‘ مانگنے کی تیاری کر رہے ہیں… سلیم شہزاد کے پاس جھنڈا ہے یا ”ڈنڈا‘‘ یہ کسی کو معلوم نہیں کیونکہ وہ ماضی میں بھی کراچی کی سیاست میں انٹری کی کوشش کر چکے ہیں… لیکن اب انہیں یہ ضرور بتانا پڑے گا کہ وہ مہاجروں کی پانچویں پارٹی کیوں بنا رہے ہیں اور ان کے ساتھ کون کون ہیں‘ سب کو سامنے آنا پڑے گا… فی الحال کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ چار قوتوں پر مشتمل ایم کیو ایم کا ”گول‘‘ کیا ہے… ایم کیو ایم کے زعما کو بھی معلوم نہیں کہ کل انہیں کیا کرنا ہے؟ ان کا کیا رول ہے؟ ان کو فنڈنگ کہاں سے ہو گی؟ ہر سیاسی جماعت کا ایک منشور ہوتا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی میں کون سا منشور جاری ہو گا؟ اور چار سے پانچ جماعتوں کے لئے ایک منشور جاری کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں دھڑے بندی کی تاریخ بہت پرانی ہے… لیکن اسے مقبولیت مسلم لیگ سے ملی۔ مسلم لیگ کا ایک دھڑا اگر اقتدار میں ہو تو باقی حزب اختلاف میں رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کہیں ایسا ہی نہ ہو جائے۔ ایک دھڑا اقتدار اور دوسرا اپوزیشن میں جا سکتا ہے۔ کراچی پہلے ”پیچیدہ‘‘ شہر تھا‘ لیکن اب یہ پیچیدگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ چار ماہر ”سیاسی ڈاکٹر‘‘ مل کر بھی اس کا علاج کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ان چاروں دھڑوں کو متحدہ کر دیا جائے اور سب کے پاس ایک ہی اصول‘ ایک ہی نعرہ‘ ایک ہی نظریہ اور ایک ہی منشور ہو… لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور سب کو انتخابی دنگل اور سیاسی جنگل میں الگ الگ اتار دیا گیا تو کراچی اتنا تقسیم در تقسیم ہو جائے گا کہ سب حیرت زدہ رہ جائیں گے… کسی بھی شہر کا آٹھ‘ دس حصوں میں تقسیم ہو جانا ہر لحاظ سے خطرناک ہوتا ہے۔ کل کیا کرنا ہے یہ بھی ایم کیو ایم (پاکستان) کو سوچنا ہے اور کل کیا ہو گا‘ یہ سوچ بھی ایم کیو ایم کے پاس ہونی چاہئے۔
کراچی کی انتخابی تاریخ بہت ہی ”بے رحم‘‘ رہی ہے۔ 1970ء کی دہائی کے آخر تک یہاں کی مہاجر اکثریت میں سے زیادہ تر نے قومی دھارے کی دو مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو ووٹ دئیے۔ کراچی کی سیاست کے حوالے سے یہ حیران کن ہے کیونکہ کراچی ملک کا سب سے زیادہ کثیرالثقافتی اور بین الاقوامی شہر تھا اور ہے۔ مہاجر سماجی طور پر لبرل لیکن سیاسی طور پر قدامت پسند تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک اور یکجا گروہ کی صورت میں نہیں تھے… اور یہ اس دور کی بات ہے جب زیادہ تر جماعتوں پر مخصوص لسانی برادریاں ہی غالب تھیں۔ 1984ء میں قائم ہونے والی ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ایک الگ لسانی گروہ میں منظم کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا… اس نے برادری کی سماجی آزاد خیالی کو مہاجر قوم پرستی کے ایک خیالی تصور سے ملا دیا۔ یوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کو کراچی سے ”آئوٹ‘‘ کر دیا گیا۔ 1988ء سے پیپلز پارٹی سندھی اور بلوچ برادریوں کے ووٹوں کے سہارے شہر کی دوسری بڑی جماعت رہی۔ 2013ء میں کئی مہاجر ووٹ پی ٹی آئی کے حصے میں آئے۔ ایم کیو ایم اپنی دھڑے بندی سے نہ صرف کراچی کو اپنے ہاتھوں سے پیپلز پارٹی کے سپرد کر دے گی بلکہ شاید اس طرح پی ٹی آئی کو بھی افرا تفری سے بھرپور شہر میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کا موقع مل جائے ۔
کراچی کی سیاست اب کھینچا تانی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ شہر میں جس تیزی سے امن قائم ہو رہا ہے اتنی ہی سیاست بھی گرم ہو رہی ہے… سیاست میں پیسے کی مداخلت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ پیسے کی اتنی فراوانی میں چاروں جماعتوں کی ”درجہ دوم‘‘ کی لیڈرشپ کیا کردار ادا کرے گی؟ کراچی کی رہنمائی کس طرح کی جائے گی؟ کیا ”ڈیلیور‘‘ کیا جائے گا؟ کیا نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ یہ تمام سوالات اہل کراچی کے ذہنوں میں موجود ہیں۔
فاروق ستار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سارے ایم کیو ایم کے دھڑے موئن جودڑو بن جائیں گے… یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اپنے دھڑے کے بارے میں نہیں فرمایا کہ وہ بھی موئن جودڑو بنے گا یا پھر قدیم عجائبات کی دنیا میں شامل ہو جائے گا۔
کراچی کے مسائل اتنے ہیں کہ اب کسی بھی جماعت کو منشور بنانے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے… مسائل لکھتے جائیں منشور تیار ہوتا چلا جائے گا… مسائل حل کرتے جائیں ووٹ ملنا شروع ہو جائیں گے۔ ایسے ہی حالات حیدر آباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے ہیں‘ اس لئے یہی منشور ہر جگہ کام آ سکتا ہے۔
مردم شماری کے حالیہ نتائج کے خلاف تاحال کراچی سے کوئی تحریک شروع نہیں ہو سکی… جو اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے مسائل کراچی کے مسائل سے زیادہ ہیں۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے انتظامات نہیں کئے جا رہے‘ جس کی وجہ سے کراچی کی 37 فیصد آبادی362 کچی آبادیاںغیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہی ہیں… کراچی کی 46 فیصد آبادی کے پاس پینے کے پانی کے انفرادی اور 45 فیصد کے پاس اجتماعی کنکشن ہیں… 53 فیصد آبادی سیوریج اور ڈرینج کی سہولتوں سے استفادہ کر رہی ہے… 70 فیصد کے پاس بجلی اور 45 فیصد کے پاس گیس لائن ہے… کراچی میں آبادی پورے ملک سے بڑے پیمانے پر منتقل ہو رہی ہے… جبکہ برما، سری لنکا، انڈیا، افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش سے بھی آبادی کراچی کا رخ کر رہی ہے۔
ان تمام حالات کی روشنی میں تبصرہ نگار کراچی کی سیاست کو آئندہ انتخابات کے لیے مرکز نگاہ قرار دیتے ہیں۔ کون کون سی ایم کیو ایم مہاجر نعرے کے ساتھ انتخاب لڑے گی اور کون کراچی کے مسائل کو اپنا انتخابی نعرہ بنائے گا؟ اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہی سامنے آئے گا… لیکن ایک بات طے ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم دھڑوں کی آپسی چپقلش سے فائد اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گی۔