منتخب کردہ کالم

میاں !’’اتفاق ‘‘ میں برکت ہے۔محمدبلال غوری

مغل بادشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد اس کے دونوں بیٹے اعظم شاہ اور عالم شاہ بادشاہت کے دعوے دار تھے۔ عالم شاہ چونکہ دہلی سے دور کابل کا حکمران تھا اس لئے اورنگ زیب کی وفات کے بعد اعظم شاہ تخت نشیں ہو گیا۔ عالم شاہ کابل سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچا اور یہاں سے اپنے کار خاص منعم خان کی معیت میں لشکر لے کر دہلی کا قصد کیا۔ اُدھر دہلی سے اعظم شاہ اور اس کے بیٹے شہزادہ بیدار بخت کی فوج نے کوچ کیا۔ مِتھرا کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو عالم شاہ نے ایک درویش کے ہاتھ صلح کا پیغام بھیجا۔ عالم شاہ نے اپنے خط میں لکھا کہ بفضلِ خدا ہم دونوں ایک وسیع و عریض سلطنت کے وارث ہیں جس میں کئی ریاستیں اور راجدھانیاں شامل ہیں۔ عقل و خرد کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دونوں کی تلواریں ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں اور اس وراثت کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ گو میں بڑا بھائی ہوں اور میرا حق فائق ہے مگر میں اس بٹوارے کا اختیار تمہیں سونپتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ آپس کی لڑائی کے ذریعے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ اعظم شاہ مزاجاً بھی گھمنڈی تھا مگر اقتدار کے نشے نے اس کے غرور میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا۔ اس نے یہ پیشکش نہایت حقارت سے ٹھکرا دی اور پیغام لانے والے کو کہا کہ وہ اپنے بھائی کو کل میدان جنگ میں جواب دے گا اور اس کی تلوار یہ فیصلہ کرے گی کہ مغلیہ سلطنت کا بادشاہ کون ہو گا۔
مورخین بتاتے ہیں کہ عالم شاہ کی فوج سات کوس کے فاصلے پر خیمہ زن تھی مگر اس تذلیل کے باوجود بھی اس نے پیش قدمی سے گریز کیا۔ اس دوران عالم شاہ کی فوج کا ایک افسر چند سپاہیوں کے ہمراہ اعظم شاہ کے لشکر کی طرف آ نکلا تو شہزادہ بیدار بخت کی فوج نے ان سب کو قتل کر ڈالا۔ اس واقعہ کے بعد عالم شاہ کی فوج نے زوردار حملہ کیا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اعظم شاہ کی سپاہ تاش کے پتوں کی مانند بکھر گئی۔ بادشاہ اعظم شاہ اور اس کا بیٹا شہزادہ بیدار بخت مارے گئے اور عالم شاہ کے پیش خیمہ کے سردار رستم خان نے ہاتھی پر پڑی اعظم شاہ کی لاش سے سر کاٹ لیا اور انعام و اکرام کی آرزو میں دوڑتا ہوا عالم شاہ کے خیمے میں پہنچا۔ عالم شاہ نے بھائی کا خون آلودہ سر دیکھا تو اپنے بال نوچنے لگا اور بے ساختہ رونا شروع کر دیا۔ رستم خان کو انعام کے طور پر بہت سی گالیاں ملیں۔ اگرچہ عالم شاہ کو اپنے بھائی اور بھتیجے کی وفات کا بیحد رنج تھا مگر اقتدار کے حصول کی بنیادی شرط ہی یہی ہوا کرتی ہے کہ اس میں رشتوں کا لحاظ اور جذبات کا احساس نہ ہو۔
مغلیہ سلطنت کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس میں ایسے دردناک قصے بکثرت ملتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ تخت چھن جانے کے خوف سے باپ نے بیٹے کو قید کر دیا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بیٹے نے ہوسِ اقتدار میں باپ کو قتل کر ڈالا۔ بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ”بہوبلی‘‘ میں بھی محلاتی سازشوں سے پردہ اٹھانے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں درپردہ کیسی کیسی سرد جنگیں برپا رہتی ہیں اور اقتدار کے طلب گار کس طرح ایک دوسرے کے خلاف چالیں چلتے ہیں۔ جب کسی شاہی خاندان کے اقتدار کا ٹمٹماتا چراغ بجھنے لگتا ہے تو ایسی وراثتی لڑائیاں اور اقتدار کی رسہ کشی کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ کہاں وہ جاہ و جلال اور عظمت و سطوت کہ پورے ہندوستان میں مغلوں کا سکہ چلتا تھا، سومنات کے بت منہ کے بل گر جاتے تھے اور کسی کو سرتابی کی جرات نہ ہوتی تھی اور کہاں یہ تحقیر اور پستی کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو دفن ہونے کے لئے دیارِ وطن میں دو گز زمین بھی نہ مل سکی۔
چند برس ہوتے ہیں کہ کسی بھارتی اخبار کے ذریعے معلوم ہوا، انڈیا کے سرکاری ادارے کول انڈیا نے بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی پر ترس کھاتے ہوئے اسے درجہ چہارم کی ملازمت دینے کا فیصلہ ہے۔ خبر کی تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ بہادر شاہ ظفر کے سلسلہ نسبت سے تعلق رکھنے والے محمد بیدار بخت کی اہلیہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کلکتہ کے مضافات میں چائے کا کھوکھا چلاتی ہیں۔ ان کی چار بیٹیاں بیاہی گئی ہیں ایک بیٹی مادھو ماں کے ساتھ چائے کے ڈھابے پر کام کرتی ہے جسے بھارتی سرکار نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے نوکری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مغل قصہ پارینہ ہو گئے، بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی مگر شاہانہ مزاج کی جھلک اب بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں لڑائیاں تو اب بھی ہوتی ہیں مگر انداز اور اطوار بہت بدل گئے ہیں۔ پرانے زمانے میں بادشاہ کمانڈر انچیف ہوتا تھا مگر اب کمانڈر انچیف ہی اصل بادشاہ ہوتا ہے۔ اب چھوٹے اور بڑے بھائی اپنے لائو لشکر کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نہیں ہوتے۔ دریا میں رہتے ہوئے بیر رکھتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ اس وقت تک ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں جب تک سالار اعلیٰ گھائل نہیں ہو جاتا۔ اب کھانے میں زہر ملا کر راستے سے نہیں ہٹایا جاتا بلکہ دشمن سے درپردہ ہاتھ ملا کر تخت سے گرایا جاتا ہے۔ اب کوئی چھوٹا بھائی یا اس کا فرزند ارجمند تلوار سونت کر حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ فصیل شہر کے کسی برج پر بیٹھے غنیم کے ہاتھوں کچھ اس طرح تیر برسائے جاتے ہیں کہ ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی مانند کھڑے اپنوں کے دامن پر خون کی کوئی چھینٹ نہیں پڑتی۔
اقتدار اور اختیار کے لالچ میں اب بھائی کا سرکاٹنے کا چلن نہیں بلکہ اس کی ٹانگیں کھینچے اور درپردہ سازشوں سے ناک کٹوانے کا رجحان ہے۔ خدا جانے اب بھی عالم شاہ کی طرح بڑے بھائی کی طرف سے لڑائی اور جگ ہنسائی سے گریز کی پیشکش کی جاتی ہے یا نہیں اور چھوٹا بھائی اس پیشکش پر کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے، البتہ انعام و اکرام کے لالچ میں بھائی کا سر کاٹ کر پیش کرنے والے رستم خان اب بھی بہت ہیں۔
تب اور اب کے حالات میں تغیر و تبدل تو بہت ہے مگر اب بھی بہت سی باتیں مشترک اور کئی قدریں سانجھی محسوس ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پرانے زمانے کے شاہی خاندان میں اختلافات کی دراڑیں پڑتی محسوس ہوتیں تو موقع کی تاک میں بیٹھے دشمن ان حالات سے فائدہ اٹھاتے، ابھرتے سورج کو دیکھ کر راستہ متعین کرنے والے موقع پرست درباری گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے اور یوں اس آپا دھاپی میں اقتدار اور اختیار مٹھی میں بند ریت کی مانند شاہی خاندان کے ہاتھوں سے پھسلتا چلا جاتا۔ آج بھی شاہی دربار کی یہ روایات قائم و دائم دکھائی دیتی ہیں۔ تاریخ کے چوراہے پر جلی حروف میں لکھا ہے:
میاں! ”اتفاق‘‘ میں برکت ہے مگر اقتدار کی ہوس بصارت چھین لے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کی تاریخ پڑھنے بیٹھیں تو دیار وطن کے تازہ ترین سیاسی حالات و واقعات کی مطابقت و مشابہت سے گاہے یوں لگتا ہے جیسے تاریخ خود کو دہرائے چلے جا رہی ہے اور ہم ابھی تک مغلوں کے عہد میں ہی زندہ ہیں۔