منتخب کردہ کالم

میاں مٹھو چوری کھانی ہے!…کشور ناہید

میاں مٹھو چوری کھانی ہے!

میاں مٹھو چوری کھانی ہے!…کشور ناہید

طوطے جن کو اشفاق احمد ’توتا‘لکھا کرتے تھے، ہالینڈکے لوگوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں جوتے، سیاستدانوں کو یاد کرا رہے ہیں کہ جب دم واپسیں رقم ہو گیا ہو تو انجام دکھانے کیلئے ایسے منظرنامے ظاہر ہوتے ہیں۔ ویسے جوتوں کا استعارہ تو اکبر الہ آبادی کے لفظوں میں انگریزوں کے بارے میں ’’اور جوتا چل گیا‘‘ اب تو یہ پرانا محاورہ ہے۔
یہ موسم پرندوں کے بچّے اور انڈے دینے کا زمانہ ہے۔ میرے گھر کی منڈیر پر کئی لالیاں اپنے بچّوں کو ’’چونکا‘‘ دیتی بڑی ہی پیاری لگتی ہیں۔ آج کل طوطوں کے بھی بچّے پیدا ہو رہے ہیں اور سیاستدانوں کی نئی نسل کو دیکھ کرگھاگ سیاستدان پوچھ رہے ہیں ’’میاں مٹھو چوری کھائو گے۔‘‘ جیسے جیسے حکومت کے ختم ہونے کے دن قریب آئیں گے جگہ جگہ اور محلّہ محلّہ آوازیں ابھریں گی ’’میاں مٹھو چوری کھائو گے۔‘‘
اس وقت میاں مٹھو مجھ سے بھی کئی باتیں پوچھ رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے شریف اور ایماندار فرحت اللہ بابر کو کیا ہوا تھا کہ دیگرسچّی باتوں کے علاوہ انہوں نے کہا کہ یہ جج صاحبان، اشعار کا حوالہ، کیوں دیتے ہیں۔ ہمارے سینئر جج کیانی صاحب کے علاوہ دنیا بھر کے حوالہ جات میں آپ کو شاعری کا حوالہ بہ کثرت ملے گا۔ میری پٹھان دوست مریانہ کی طرح فرحت بھائی کو بھی شاعری کا خاص

لگائو نہیں ہے مگر وہ شخص جس کا نام حاصل بزنجو ہے، جو شعراء کا دوست ہے، وہ بھی ہتھے سے ایسا اکھڑا کہ جو منہ میں آیا اناپ شناپ بولتا چلا گیا۔ میاں مٹھو! اس زمانے میں تم بھی سینیٹ کے الیکشن کے بعد، سمجھ گئے ہو کہ سوچ سمجھ کے چوری مانگنی اور کھانی چاہئے۔ میاں مٹھو! مجھ سے بار بار پوچھ رہے ہیں کہ آخر مریم نواز کو بار بار سونے کے ہار اور سونے کے تاج کیوں دیئے جا رہے ہیں۔ اس معصوم کو کوئی کتاب چاہے میکاولی کی ہی دو کہ اس کی زبان اچھی چلتی ہے، اس میں کچھ علم اور سیاست ڈالنے کیلئے، کسی صاحب علم کی ضرورت ہے۔ میاں مٹھو! یہ مت پوچھو کہ میں روز مریم نواز کے نت نئے کپڑے دیکھ کر حسد نہیں کرتی، خوش ہوتی ہوں کہ اگر برطانیہ کی ہونے والی نئی بہو روز نت نئے کپڑے پہن سکتی ہے تو ہماری نوجوان بیٹی کیوں نہیں پہن سکتی۔ میاں مٹھو! مجھے تنگ مت کرو، کیوں کہہ رہے ہو کہ میں اسے سیاستدان کیوں نہیں لکھ رہی! یہ بھی تمہاری بات غلط ہے کہ تم میاں مٹھو! کشمالہ طارق کو خواتین کی محتسب اعلیٰ ماننے سے گریز کر رہے ہو۔ بھئی سر پہ پڑے گی تو خود ہی سیکھ جائے گی۔
میاں مٹھو! پھر تم نے مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ بار بار پوچھ رہے ہو کہ آخر شہباز شریف نے یہ کیوں کہا کہ قائداعظم کے بعد، نواز شریف کی شکل میں ایک ہی سیاستدان سامنے آیا ہے۔ بھٹو صاحب کی آنے والی برسی کا بھی خیال نہ کیا۔ کچھ تو سوچا ہوتا کہ ہمسایہ دشمن ملک میں بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں، وہ کیا کہیں گے۔ اب پھر پوچھ رہے ہو کہ آخر پنجاب میں لڑکیوں کے اسکولوں میں ڈانس منع کیوں کیا گیا ہے۔ مٹھو میاں! یہ اسی طرح ہے کہ کل مودی صاحب اتنی دور ملک فرانس کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی بات کر رہے تھے۔ مٹھو میاں! تم نے ان سے جا کر کیوں نہیں پوچھا کہ بغل میں موجود ہمسائے کے بیچارے افسروں تک کو آپ تنگ کر رہے ہیں اور اتنی دور کی بات کر رہے ہیں۔ میاں مٹھو! یہ مت پوچھو کہ سعودی عرب میں تو عورتوں کیا مردوں کو بھی ڈانس کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
میاں مٹھو! مجھ سے اب اور سوال مت پوچھو کہ آج میں بہت دکھی ہوں۔ آئن اسٹائن کے بعد بہت بڑا سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ دنیا سے چلے گئے۔ میاں مٹھو! تمہیں تو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ یہ سائنسدان جس کو 1970میں فالج ہوا تھا، جس کی کتابوں کا ترجمہ کرنے کا شوق، ہمارے شہزاد احمد کو تھا، وہ ہر طرح کی معذوری کے باوجود تحقیق اور تحریر کا کام مشینوں کے ذریعے کرتا رہا۔ وہ دس منٹ میں مشکل سے ایک فقرہ بول سکتا تھا پھر بھی 2010میں اس کی آخری کتاب آئی تھی۔ اپنے وقت کا تجزیہ کیا تھا، جسے برباد کرنے، قیمے والے نان کھانے اور سڑک پر بے مقصد گھومتے ہوئے ہماری قوم، بہت فخر سے ٹیلی وژن پہ یہ فقرے دہراتی ہے کہ مذہب کے خلاف کوئی بات ہوئی تو قابل گرفت ہو گی۔ میاں مٹھو! جائو ذرا میرے دیہات کی مساجد میں جا کر جمعہ کا خطبہ تو سن آئو۔
میاں مٹھو!یہ بہار کے دن ہیں۔ پودوں کے علاوہ تمام جانور بھی نئی پیدائشوں کے موسم سے گزر کر خوشگواریت محسوس کر رہے ہیں تو پھر ہمیں نوزائیدہ سیاستدانوں کی بھی کھیپ ایسے نکالنی چاہئے جو سینیٹ کے منتخب ممبران جیسے نہ ہوں۔ کیوں بھئی، پیسے والے لوگوں کے ذریعے ہی تو اس ملک کی سیاست چل رہی ہے۔ ہم جیسے فقرا تو فرحت اللہ بابر ہیں جن کو رعایتاً سندھ سے ٹکٹ دینے کی بات کی گئی۔ یہ پٹھان بچّہ، اپنے ہاتھ پہ رکھی روٹی کھانے میں مشغول ہو گیا۔
مٹھو میاں! تم البتہ آج کے سیاسی مہروں سے پوچھتے رہو ’’چوری کھانی ہے؟‘‘