منتخب کردہ کالم

میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم!…ارشاد بھٹی

میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم!

میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم!…ارشاد بھٹی

بھٹو صاحب نے اسکندر مرزا کو جناح سے بڑا لیڈر کہہ دیا، شہباز شریف نے نوا ز شریف کو قائد ِ اعظم کا سیاسی وارث بنادیااو ر میری قوم۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم ۔کل بولی نہ آج !
ویسے تو سب نے سن،پڑھ ہی رکھا ہوگا ،مگر پھر بھی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ ایسے تھے ہمارے قائد اور ایسا تھا قائد کا پاکستان ،گورنر جنرل ہاؤس کیلئے ساڑھے 38روپے کا سامان خریدا گیا ،قائد نے حساب دیکھ کر کہا ’’جو چیز یں فاطمہ کی، ان کے پیسے وہ دیں گی ،اپنی چیزوں کے پیسے میں خود دوں گااور جو کچھ گورنر جنرل ہاؤس کیلئے، وہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کی جائے ‘‘، زیارت میں سردی زیادہ ہوئی تو کرنل الٰہی بخش نئے گرم موزے خریدلائے ،قائد نے موزے دیکھے ،پسند فرمائے ،لیکن قیمت کا پتا چلا توبولے ’’کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں ‘‘ کرنل الٰہی بخش نے مسکرا کر کہا’’ یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں ‘‘ بولے ’’میرا اکاؤنٹ بھی توقوم کی امانت ،ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا فضول خرچ نہیں ہوناچاہئے ‘‘اور یوں پسند آئے موزے واپس کر دیئے ،زیارت میں نرس کی خدمت سے متاثر ہو کر ایک دن کہا’’بیٹی میں آپ کیلئے کچھ کر سکتا ہوں ‘‘نرس بولی ’’ سر میں پنجاب سے، میرا پورا خاندان پنجاب میں ،گھر والوں سے دور اکیلی رہ رہی ہوں ،اگر ہو سکے تو میری ٹرانسفر پنجاب کروا دیں ‘‘، یہ سن کر قائد نے اداس لہجے میں کہا’’سوری بیٹی یہ کام محکمہ صحت کا ،گورنر جنرل کا نہیں ‘‘۔
بیماری کے دوران ایک دن قائداعظم نے نرس سے پوچھا’’ مجھے کتنا ٹمپریچر (بخار ) ہے‘‘ تو اس نے یہ کہہ کر بتانے سے انکار کر دیا کہ’’ میں ڈاکٹر کے علاوہ کسی کو یہ نہیں بتا سکتی‘‘، قائد خوش ہو کر بولے ’’مجھے ایسے لوگ پسند ہیں ‘‘ ،مختار زمن کہتے ہیں ’’میرے والد آگرہ میں جج تھے ،ایک دفعہ قائد کسی کیس کے سلسلے میں آگرہ آئے، اس موقع پر مسلم لیگ نے جلسہ کرنا چاہا ،لیکن قائداعظم نے یہ کہہ کر جلسہ کرنے سے منع کر دیا کہ ’’میں اپنے کیس کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں، میں موکل کے خرچے پر جلسے میں شرکت نہیں کر سکتا، آپ جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو بعد میں کر لیں ،میں اپنے خرچے پر آؤں گا‘‘، نہرواور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیگم ایڈوینا کے مابین تعلقات ایک تاریخی حقیقت ،قائداعظم کو ایک بار کسی نے نہرو کے چار عشقیہ خطوط دیئے کہ اپنے سیاسی حریف کے خلاف استعمال کریں، قائد نے یہ کہہ کر خطوط ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے کہ ’’اس طرح کی گندی سیاست نہیں کر سکتا اور ایسا پاکستان نہیں چاہئے کہ جس کے حصول کیلئے اتنا نیچے گرنا پڑے ‘‘، قائداعظم 15اگست 1947کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اُٹھانے کیلئے آئے ،تقریب شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی ،آپ گورنر جنرل کی کرسی پر بیٹھ گئے، یہ دیکھ کر جسٹس سر عبدالرشید نے قائداعظم کے اے ڈی سی کو بلا کر کہا ’’محمد علی جناح نے ابھی حلف نہیں اُٹھایا، وہ گورنر جنرل کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے ‘‘،قائد اعظم کو معلوم ہوا تو نہ صرف فوراً کرسی سے اُٹھ گئے بلکہ جسٹس سر عبدالرشید سے معذرت بھی کی ۔
قائد اعظم کی بات چھوڑیں ،قائد ملت خان لیاقت علی خان کو لے لیں، بھارتی پنجاب میں کرنال کی 360گاؤں کی جاگیرکے مالک اورنوابی دور میں اکثر ایک لباس دوسری مرتبہ نہ پہننے والے لیاقت علی انگلینڈ پڑھنے گئے تو خادم، خانساماں اور ڈرائیور ساتھ لے گئے، روزانہ بیسوؤں لوگوں کو کھانا کھلاتے، پاکستان بنا تو نہ صرف اپنی ساری دولت ارضِ پاک پر قربان کردی، یہاں ایک انچ زمین نہ لی، بلکہ دلی میں اپنی کوٹھی پاکستانی سفارتخانے کو عطیہ کر دی اور پھریہی خان لیاقت علی جب وزیراعظم بنے تو وہ وقت بھی آیا کہ جب 2 اچکنیں ،پیوندلگی 3پتلون اور بوسکی کی ایک قمیض رہ گئی اور حالت یہ ہوئی کہ وزیراعظم کیلئے مختص چینی کا کوٹہ ختم ہوتا تو نواب خاندان پھیکی چائے پیتا ۔
یہ تو چند جھلکیاں ،ایسی بیسوؤں مثالیں اور بھی ،بتانا صرف یہ کہ ایسے تھے ہمارے قائد اورایسا تھا قائد کا پاکستان ،یہاں بھٹو صاحب کی کیا بات کرنی ،وہ جاچکے ،انکی پارٹی زرداری صاحب میں گم ہو چکی، ہاں یہ ضرور بتانا کہ جس سکندر مرزا کو ذوالفقار بھٹو نے قائداعظم سے بڑا لیڈر قرار دیا ،اسی سکندر مرزا کو جب بھٹو صاحب کے منہ بولے باپ ایوب خان نے جلا وطن کیا اور جب وہ کسمپرسی کے عالم میں جلاوطنی کاٹ رہے تھے تو بھٹو صاحب نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی ،جہاں تک بات ہے میاں برادران کی تو یہ سوچ کر ہی شرم آجائے کہ یہ وقت بھی آنا تھا کہ میاں نواز شریف کو قائد کے پاکستان کا مقدمہ لڑنا تھا جبکہ شہباز شریف نے نواز شریف کو قائد کا سیاسی وارث کہنا تھا ،اخیر ہی ہوگئی ۔
اب یہ کیا بتانا ،سنانا اور سمجھانا کہ 1981میں سیاسی ہوئے شریف خاندان نے کیا کِیا ،ملک وقوم کی خدمت کی یا اپنی empireکھڑی کی اورسیاست میں آنے سے پہلے کیا تھے ،بعد میں کیا ہوئے اوراب کیاکیا نکل رہا، یہ سب پوری دنیا جان چکی بلکہ حفظ کر چکی، یاد آیامعروف صحافی ایماڈنکن کی 1990میں کتاب ’’Breaking the curfew ‘‘ آئی ،اپنی کتاب میں ایماڈنکن بتائے کہ میں نے شریف خاندان کے اتفاق گروپ کے ایک بڑے عہدیدار سے جب پوچھا کہ ’’ 80اور90کے دروان اتنی فیکٹریاں ،ملیں، دولت اور اتنی ترقی، یہ سب کیسے ہوا‘‘تو وہ عہدیدار بولے ’’ بی بی یہ سب اللہ کا فضل اور ہماری محنت ہے ‘‘، جب سے یہ پڑھا تب سے یہ سمجھ نہ آئے کہ اگر آج اللہ کے اس فضل اور محنت کے بارے میں پوچھا جارہا تو اتنا غم اور غصہ کیوں۔؟بات کہاں سے کہاں نکل گئی ،ذکر ہورہا تھا کہ نواز شریف صاحب نے کہا وہ قائد کے پاکستان کا مقدمہ لڑ رہے جبکہ شہباز شریف نے فرمایا کہ قائداعظم کے سیاسی وارث نواز شریف، تو محترم قائدین اطلاعاً عرض ہے کہ قائد اعظم صادق اور امین تھے ،قائداعظم نے کبھی عوام ،پارلیمنٹ او رعدلیہ کو بے وقوف نہیں بنایا ،قائد اعظم کی خفیہ جائیدادیں ،کمپنیاں اور چھپے اکاؤنٹس نہیں تھے ،قائد اعظم کی کبھی منی ٹریل غائب نہیں ہوئی ،قائداعظم نے کبھی کوئی این آر او نہیں کیا، قائد اعظم نے اپنی ذات کیلئے کبھی آئین وقانون میں ترمیم نہیں کروائی ،قائداعظم نے انگریز دور میں بھی کسی عدالت پر حملہ نہیں کروایا ،اسے جانبدار نہیں کہا، کسی جج کی کردار کشی نہیں کی ،قائداعظم نے فاطمہ جناح کے علاوہ کسی رشتہ دار کو گورنر ہاؤس میں نہیں رکھا،قائداعظم 30تیس گاڑیوں کے کارواں میں سفر نہیں کرتے تھے اور قوم کے 64کروڑ 100دوروں پر نہیں اڑادیا کرتے تھے اورپھر میرے محترم قائدین آپ ہی بتائیں مارشل لائی چھتری تلے پروان چڑھے ،چھانگے مانگے اور ڈیلیں کرتے، اربوں کھربوں پتی قائد کے پاکستان کا مقدمہ کیسے لڑسکتے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سے نااہل ہو چکا شخص بھلا قائد اعظم محمد علی جناح کا سیاسی وارث کیسے ہو سکتا ہے ،لہٰذا برائے مہربانی ا پنے سیاسی گورکھ دھندوں سے میرے قائد اور قائد کے پاکستان کو دور ہی رکھیں، حالانکہ مجھے یہ معلوم کہ میرے کہنے سے آپ کو رُکنا نہیں کیونکہ یہاں کچھ کہنے یا کرنے سے بھلا کون کسی کو روک سکا، یہاں توبھٹو صاحب نے سکندر مرزا کو جناح سے بڑا لیڈر کہہ دیا، شہباز شریف نے نواز شریف کو قائداعظم کا سیاسی وارث بنا دیااور میری قوم، لکڑ ہضم پتھر ہضم ،کل بولی نہ آج ۔