منتخب کردہ کالم

میں لندن پلٹ نہ بن سکا: عبدالقادر حسن

گزشتہ دنوں حالات کچھ اس طرح سے ناموافق رہے کہ ایک دن کالم ہی نہ لکھ سکا جب کہ چند خبریں ایسی موصول ہوئیں جو ایک نہیں کئی کالموں کا موضوع تھیں۔ مثلاً ہمارے لیڈر میاں محمد نواز شریف کو تاج برطانیہ نے زبردست پذیرائی بخشی اور اپنا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا اعلان کیا، تادم تحریر چونکہ میاں صاحب نے اس اعزاز یعنی ’سر‘ کے خطاب سے انکار نہیں کیا اس لیے یہ موضوع زندہ ہے اور نہ جانے کب تک زندہ رہے گا۔ ہمارے ایک لیڈر کو تاج برطانیہ نے ایسی ہی پذیرائی دی تھی اور علامہ محمد اقبال کو سر کا خطاب دے دیا تھا۔ ہمارے اس شاعر نے ’سر‘ کا خطاب لینے سے معذرت نہیں کی تھی بلکہ یہ شرط لگا دی تھی کہ ان کے استاد کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔

انگریزوں نے یہ شرط بھی پوری کر دی اور علامہ اقبال کے محترم استاد کو بھی علامہ کی خواہش پر خطاب دے دیا۔ یہ زمانہ انگریزوں کی بادشاہی کے عروج کا زمانہ تھا اور سلطنت برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی رعایا کے ایک بڑے فرد کی بات مان لی اور ان کے استاد کو ان کی خواہش کے مطابق خطاب دے دیا۔ اس طرح علامہ محمد اقبال سر اقبال بن گئے۔ علامہ کی ذات گرامی کے پیش نظر اس برطانوی خطاب پر کئی تبصرے بھی کیے گئے اور اس کے خلاف مضامین بھی شایع ہوئے لیکن علامہ نے یہ خطاب قبول کر لیا۔

اس زمانے میں برطانوی حکمران کی نافرمانی بہت معنی رکھتی تھی اگرچہ علامہ اقبال کسی سرکاری خطاب کے محتاج نہیں تھے ان کا مقام ایسے خطابات سے بہت اونچا تھا لیکن حالات کا اشارہ ہی کچھ کم نہ تھا چنانچہ علامہ محمد اقبال سر محمد اقبال ہو گئے البتہ انھوں نے اپنے استاد کی پذیرائی بھی کرا دی اور ان کے اس برطانوی اعزاز کی مخالفت میں کچھ کمی آ گئی۔ ویسے برطانوی سامراج کے زمانے میں اس کی مخالفت شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ یہ ایک بے رحم سامراج تھا اور ہر سامراج بے رحم ہوتا ہے۔

حکومت کوئی بھی ہو اس سے انکار آسان نہیں ہوتا آج بھی جب کہ برطانوی سامراج ایک کہانی بن چکا ہے لیکن ملکہ معظمہ بدستور تخت پر براجمان ہیں اور ان کے تخت و تاج پر بدستور ماضی کا سایہ موجود ہے پھر برطانیہ اس گئی گزری حالت میں بھی برطانیہ ہے اور ہماری سیاست کے بڑے فیصلے اب بھی برطانیہ کی سرزمین پر ہوتے ہیں اور ہمارے لیڈروں کے ذہن اس ملک کی فضاؤں میں جا کر کھلتے ہیں اس لیے وہ پاکستان کی سیاست کے بڑے فیصلے برطانیہ جا کر کرتے ہیں اور ہماری بڑی سیاسی خبریں لندن سے آتی ہیں۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم برطانوی سامراج کے ماضی کا قصہ بن جانے کے باوجود اس کے اثر میں ہیں، اثر میں کیا ہیں۔ ذہنی طور پر آج بھی برطانیہ کو اپنا آقا سمجھتے ہیں۔ آخر ڈیڑھ سو برس تک کی غلامی کئی نسلوں بعد ہی جائے گی۔ جب غلام بزرگوں کا خون رنگ بدل لے گا اور ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ ہم اب ایک آزاد ملک ہیں۔

یہ بات لازم ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو بھی معلوم ہو جو اب بھی اپنا ہر بڑا فیصلہ لندن جا کر کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی کئی وجوہات ہیں جن کا ذکر ہمارے سیاستدانوں کو اچھا نہیں لگے گا۔ بہرکیف صورت حال یہ ہے کہ ذہنی طور پر ہم اب بھی لندن کے غلام ہیں۔ یہ غلامی ایسی نہیں کہ برطانیہ ہمیں کوئی مدد دیتا ہے۔ اب تو وہ خود مدد کا محتاج ہے بلکہ یہ ذہنی غلامی ہے جو جاتے جاتے جائے گی اور ہمارے کچھ لوگ اپنے آپ کو ’لندن پلٹ‘ نہیں کہا کریں گے ورنہ ایک زمانے میں لوگ اپنے وزیٹنگ کارڈ اور خط لکھنے والے پیڈ پر اپنے نام کے ساتھ ’لندن پلٹ‘ کا اعزاز لکھا کرتے تھے کیونکہ ایک مدت تک لندن کا پھیرا اس قابل ہوتا تھا کہ اس کو اپنے نام کے ساتھ منسلک کر لیا جائے۔

لندن پلٹ کے یہ اثرات اب بھی ظاہر ہیں اور ہمارے سیاسی فیصلے لندن میں ہوتے ہیں۔ میں لندن میں کئی پاکستانیوں سے ملا ہوں جو وہاں مکانوں کے مالک تھے اور ان میں رہتے تھے۔ ایک پاکستانی پراپرٹی ڈیلر نے مجھے ایک بار پیش کش کی کہ میں لندن میں اپنی رہائش پر جو خرچ کرتا ہوں یہ انھیں دے دوں اور وہ قسطوں پر مجھے ایک مکان لے دیں گے جس کی آدھی قسط برطانوی حکومت ادا کرے گی اور باقی کی میں قرض لے کر ادا کروں گا اور اس طرح لندن میں ایک گھر کا مالک بن جاؤں گا لیکن میں نے نہ جانے کیوں معذرت کر دی جو ایک حماقت تھی ورنہ میں آج ایک معزز پاکستانی ہوتا جس کا لندن میں بھی مکان ہوتا جو لاہور میں تو نہیں بن سکا لیکن انگریز تیار تھے کہ مجھے اتنا قرض دے دیں کہ میں لندن کا ایک شہری بن جاؤں۔ افسوس میں اس آسان پیش کش کو قبول نہ کر سکا اور میں لندن پلٹ قوم یا لندن کا شہری نہ بن سکا۔