منتخب کردہ کالم

میں کراچی جائوں گی…بابر اعوان

میں کراچی جائوں گی…بابر اعوان

میرا کراچی کا پہلا ٹرِپ بس صرف آناجانا ہی سمجھ لیں۔یہ سال 1974 کی بات ہے۔کراچی یونیورسٹی کے ایک مباحثے میں شرکت کے لیے اپنے کالج کی طرف سے گیا تھا۔
اگلے سال کالج یونین کے ٹرین ٹرِپ کو اسلام آباد سے کراچی تک لیڈ کیا۔ تب روشنیوں کا یہ عظیم شہر تفصیل سے دیکھا، جہاں رات بھی پوری رعنائی کے ساتھ جاگتی تھی۔میری اس دور کی ایک محترم ٹیچر بہت عرصے بعد ایک تقریب میں ملیں۔ تب کراچی قبضہ گروپ،چائنہ کٹنگ، بھتہ مافیا اور اغوا کاروں کے ہاتھوں یرغمالی رکھ دیا گیا تھا۔ سہمے ہوئے شہری دوسرے شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ٹیچر نے کہا: بابر ہم پھر اسلام آباد شفٹ ہوگئے ہیں، کراچی وہ پہلے والا کراچی نہیں رہا۔ کل شام پھر اسی محترم ٹیچر کا فون آیا۔کہنے لگیں: اب میں کراچی جائوں گی، بچوں سے کہہ دیا ہے میری باقی زندگی کراچی میں گزرے گی۔
ساتھ ٹیچر نے مجھ سے پوچھا:بابر میرا ایک کام کرو گے؟ عرض کیا ضرور، ضرورکیوں نہیں آپ حکم فرمائیں۔ کہنے لگیں: سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد صاحب کو میری دعا پہنچا دینا،جن کی وجہ سے میں نے کراچی واپس جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میری طرف سے ساتھ شکریہ کہنا، کراچی کی ٹرام ریلوے لائن بحال کرنے کا اور سرکلر ریلوے پھر سے آباد کرنے کا۔یہ گفتگو ہفتے کی شام کو ہوئی۔اتوار کو کچھ احباب ملنے کے لیے آئے، جو سپریم کورٹ کے ایک اور نابغہ جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توصیف کر رہے تھے۔ فاضل جج صاحب کے پُرکھوں نے اس ملک کی تشکیل میں بانیِ پاکستان حضرت قائدِ اعظمؒ کا جی داری سے ساتھ دیا۔اسی جذبے میں گُندھے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے یہ ریمارکس موضوعِ توصیف بنے ” ملک ہم سب کا ہے اور آزادیاں بھی برابر کی جنہیں کوئی سلب نہیں کر سکتا‘‘۔خاص طور سے الیکشن کمیشن کے قانونی دماغ کی جانب سے ملک کی آخری عدالت میںیہ کہنا کہ الیکشن ایکٹ 2017کی تادیبی شق نمائشی ہے اور اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی آبزرویشن۔
ملک کے طول و عرض میں اس وقت 2منظر نامے بطورِ مباحثہ میڈیا پرچھائے ہوئے ہیں۔جن میں بھارتی میڈیامنیجرز کا ایک کاروباری اصول بہت واضح ہے۔ جو یوں ہے”جودِکھتا ہے،وہ بِکتا ہے‘‘۔پہلے منظر نامے کے 2رُخ ہیں۔ اولین رُخ کافی عبرت ناک ہے ۔جہاں مخالفوں کا پیٹ پھاڑ کر ،کرپشن کا مال برآمد کرنے کے دعوے دار ،ان دنوں اپنی کرپشن کا مال بچانے کے لیے پائوںچاٹ کر پھٹے پیٹ والوں کے گلے لگنا چاہتے ہیں۔ قدرت کے تازیانۂِ عبرت کی برسات کو دیکھیں کہ آگے سے لارا لپا توملتا ہے سہارا نہیں‘ جس کی وجہ جان کاروں کی نظرمیں کراچی کی مشہورِ زمانہ فالودہ کہانی نہیں تو اور کیا ہوسکتی ہے؟
اس ہفتے ملک کی آخری عدالت نے 2بڑے احکامات جاری کیے۔ بے نام جعلی اکائونٹس کی آزادانہ تفتیش کوممکن بنانے کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں زیرتفتیش ملزموں کو کراچی سے شہرِ اقتدار شفٹ کرنے کا حکم ۔ جب کہ دوسری اہم پیش رفت سانحہ ماڈل ٹائون میں بے گناہ مارے جانے والوں کی داد رسی کے حوالے سے ہوئی۔اس سانحہ پر نئی جے آئی ٹی بنانے کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی،جس میں شریف برادران سمیت 139نامزد ملزمان کو نوٹس بھی جا ری ہوگئے۔اس منظر نامے کا دوسرا پرتِ کمال 20کروڑ لوگوں کے جمہوری ملک کی تقدیر فوراً بدل دینے کے لیے ہے۔ اسی لیے ”ریلو کٹیّـ ‘‘سے شروع کرکے ”یو ٹرن‘‘ پر کروڑوں لفظ،لاکھوں گھنٹے اور کئی میٹرک ٹن دلائل خرچ کیے جا رہے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے قوم کا اصلی مسئلہ ریلو کٹا یا یو ٹرن ہے۔جو خواتین و حضرات اپنی سیاسی دکان کو مصروف رکھنے کے لیے ایگزیکٹیو کے معاملات میں جوڈیشری کی مخالفت کا ڈھول گلے میں ڈالے رکھتے ہیں،کیا ان سے یہ سوال نہیں پوچھا جا سکتا کہ کراچی میں ٹرام ٹرین کی بندش سے جمہوریت کی مضبوطی کا کیا تعلق ہے۔اور اگر جسٹس گلزار احمد صاحب کے اس تاریخی حکم کے نتیجے میں کراچی کی ٹرام ٹرین پھر سے چل پڑی تو جمہوریت کیا جمہوری کچرے کے پسندیدہ ڈھیر میں دب جائے گی ۔
ویسے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے جمہوریت کی مغربی میم صاحب کا یہ فرمان پھر سے دہرانے میں ہرج نہیں۔جو میم صاحب نے اپنی شان میں خود تخلیق کر رکھا ہے۔
(Government of the people. By the people. For the people)
اطلاعاً عرض ہے اس سلسلے کے پرجوش مباحثے میں” پیپلز ‘‘یعنی عوام آپ کو جہاں بھی نظر آئیں،اس پہ سرُخ حاشیہ لگا کر سوشل میڈیا پرڈال دیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔
ڈس انفارمیشن ،مِس انفارمیشن ، خواہش پر مبنی خبریں اور تجزیے 2 نقطوں پر مرکوز ہیں۔ ماسوائے چند کے جو اصلاحِ احوال چاہتے ہیںاور دردمندی کے ساتھ اس سفر کو کھوٹا ہونے سے بچانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ باقی ایجنڈاسیدھا ہے۔ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کا فوکس نیشنل وسائل کی لوٹ مار کے مجرموں سے ہٹا دیاجائے۔ یہ اس ایجنڈے کا آئٹم نمبر ایک ہے اور اگر آپ ایک ایک کر کے اس مباحثے کے قافلہ سالاروں کو شناخت کرنا چاہیں تو 2طرح کے چہروں سے پردہ سرک جائے گا۔پہلے وہ جو اس لوٹ مار کے بینی فشری ہیں۔ان سے پچھلے ایک جمہوری عشرے کے اثاثے عام کرنے کے لیے کہاجائے تو لوگ انکشافاتپرانگلیاںکاٹ رکھیں گے۔ دوسرے وہ جن کا باعزت دہی کلچہ نورجہاں کے گانوں پرچلتا ہے۔ ملکۂِ ترنم نے اپنے آخری دنوں کے ایک انٹرویو میں جس کاحوالہ دیا۔انٹرویو کرنے والی نے پوچھا: بہت سے گانے والیاں اپنے نام کے ساتھ جہاں کا لاحقہ لگا کرآپ کے گانے گاتی ہیں۔یہ دیکھ کر آپ کو غصہ نہیں آتا۔مادام نے جوان دیا: غصہ کس بات کا‘میری وجہ سے جن کا دال دلیا چل رہا میں ان کو کیونکر روکوں۔آپ انہیں جمہوریت کا پھل فروٹ کھانے والے بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ بے چارے دہی کلچے کے مارے نوازشریف کے حق میں قطری خط کی آمد کو پانامہ کیس کی موت کا پروانہ کہتے رہے۔ قومی اسمبلی سے سابق وزیرِاعظم کے خطاب کو خالق دینہ ہال میںابوالکلام کے دفاع سے بھی آگے لے گئے۔
اب جب کہ نوازشریف نے قطری شہزادے کے خط سے منہ موڑ لیا۔ اپنے بیٹوں کو غیرملکی بنا دیا۔ ان کے نام جائیدادوں کوکمائی مخلوق کاکارنامہ کہا، تویہ اس تاحیات نااہل بطلِ حریت کی سٹریٹیجی ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں پارلیمنٹ بے لبادہ ہو گئی۔ جھوٹ بولنا ہو تو پارلیمنٹ میں چلے۔جی بھر کر دروغ فروشی کریں اور پھر آئین کے آرٹیکل 66کے پیچھے چھپ جائیں۔ بے چارہ بے زبان آرٹیکل 66 دروغ فروشوں کا کیا بگاڑے گا۔
ویسے آپس کی بات ہے۔ آئین کا آرٹیکل 66کہاں کہتا ہے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر بولے جانے والے جھوٹ کو استثنیٰ دو۔ یہ تو ایسا جھوٹ ہے جس میں بحث کی بھی کوئی گنجائش نہیں ۔ دروغ گو نے اپنے لفظوں میں کہا ، یہ ہیں وہ سارے ثبوت اور ذرائع جن کے ذریعے ہم نے یہ اثاثے بنائے۔ اب ایک سال بعد ہی شہزادہ جاسم کے خط کی طرح پارلیمنٹ کی تقریر بھی طائرِ لاہوتی کادفاع لے اُڑا۔ رہی وزیرِاعظم عمران خان کی یوٹرن والی گفتگو۔ واقعی اس کے مقابلے میں کمائی مخلوق کا مؤقف درست ہے،جس نے ملک کا قرضہ 700ارب ڈالر سے 2700ارب ڈالر کردیا لیکن شیر کے بچے یوٹرن لینے پر راضی نہ ہوئے۔
بات شروع ہوئی تھی کراچی ٹرِپ سے جہاں سے شہرِ پاکستان سے میری محبت کاآغازہوا۔ریڈی میڈشرٹس دیکھنے گیا، ونڈوشاپنگ چھوڑ کرنکلنے لگا۔ایمپریس مارکیٹ کادکاندار باہر آگیا۔ بولا: ایک مہربانی فرمائیے گا،کپڑا،سلائی،ڈیزائن جوپسند نہیں آیا وہ بتا دیں ۔ہم کمپنی کوکہہ کرآپ کے معیار کی شرٹ بنوارکھیں گے‘ اگلی دفعہ پھرتشریف لائیں۔میں واپس مڑا ایک شرٹ خریدی اور سیلزمین شپ کی تواضع کی سرشاری لے کر شہرِاقتدار میںواپس آگیا۔اب میں پھر کراچی جائوں گا۔ اسی دکان پر… پھر اسی دکان پر۔