منتخب کردہ کالم

نئے سپہ سالار کو درپیش چیلنجز: اکرام سہگل

نئے سپہ سالار نے اس وقت اپنا عہدہ سنبھالا ہے جب ملک داخلی اور خارجی محاذوں پر کئی چلیجز سے دوچار ہے، لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان کی آزمایش کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ خارجہ محاذ پر بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں تیز کررہا ہے، ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں ہم نے ان کوششوں کا کھلم کھلا مظاہرہ دیکھا۔ بھارتی وزیر اعظم اس بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے اور افغان صدر اشرف غنی مودی کے ہم نوا رہے۔ اس کانفرس میں ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ روسی مندوبین نے پاکستان کی حمایت کی۔ روس کا یہ موقف بھارت کے لیے پریشان کُن ثابت ہوا۔

مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کے ماحول میں جنرل باجوہ نے اپنا عہدہ سنبھالا۔ اس تناظر میں جنرل قمر باجوہ کو تحمل کے ساتھ رد عمل کا ایسا مناسب انداز تلاش کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں آنا والا بگاڑ دور ہو جائے۔ یہ ابتدائی چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج ہے ۔

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکا میں آنے والی نئی انتظامیہ کی جانب سے کچھ حوصلہ افزا اشارے سامنے آئے ہیں۔ امریکا کے نو منتخب نائب صدر مائیک پینس نے ایک بیان میں کشمیر کو سنگین مسئلہ قرار دیا اور عندیہ دیاکہ ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات کاری کی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے نتیجہ خیز کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ادھر بھارت دوطرفہ مذکرات سے گریزاں ہے جب کہ ہم ثالثی پر اصرار نہ کرکے بھارتی موقف ہی کو تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ اس تناظر میں اگر صدر ٹرمپ کی جانب سے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کوئی پیشکش آتی ہے تو ہمیں اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔

’’ضرب عضب‘‘ آپریشن میں کئی دہشت گرد قانون کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں امن قائم ہوا اور دہشت گردوں کا صفایا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردپینترا بدل کر آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی سرگرمیاں اب پاکستان کے سرحدی علاقوں میں قائم اپنی کمیں گاہوں تک محدود ہوچکی ہیں، جہاں انھیں افغان انٹیلی جینس کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ جنرل قمر باجوہ کو اس حوالے سے اپنے پیش رو جنرل راحیل کے حاصل کردہ کامیابیوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پنجاب میں نون لیگ کی حکومت ان کے خلاف قومی ایکشن پلان (نیپ) کے تحت کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔

گورواں برس 27مارچ کو ایسٹر سنڈے کے موقعے پر لاہور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد جنرل راحیل شریف نے پنجاب بھر میں دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات جاری کیے تھے لیکن برق رفتاری سے شروع ہونے والی کوششیں جلد ہی مدہم پڑ گئیں۔ نئے سپہ سالار کو بارِ دگر ایسے عناصر کے خاتمے کی جانب توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔فاٹا میں مسلح گروہوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے بعد سیکیورٹی کی صورت حال میں بہتری آ رہی ہے اور سوات کو قومی دھارے میں واپس لانے میںکامیابی ملی ہے۔پاک چین راہ داری (سی پیک) منصوبے کو تاحال سنجیدہ خدشات کا سامنا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل اورکامیابی، امن کے لیے چیلنج ثابت ہونے والے عناصر کے خلاف فوج کی کام یابیوں سے مشروط ہے۔

بھارتی بحریہ کے افسر اور خفیہ ایجنسی را کے جاسوس کل بھوشن کے اعترافی بیان سے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ اسے یہاں وہ ساز گار ماحول میسر رہا جس کی مدد سے وہ کراچی اور بلوچستان میں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے بد امنی پھیلانے کے منصوبوں پر عمل درآمد کر انے میں کامیاب رہا۔ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال کی جانب سے کئی مرتبہ اس بات کا برملا اظہار کیا جاچکا ہے کہ بھارت بلوچستان میں انتشار پھیلانے کے لیے خفیہ اور کھلم کھلا اقدامات کرنے کی پالیسی رکھتا ہے۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے سپہ سالار کو سی پیک جیسے اہم ترین منصوبے کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔

پاک فوج کے ادارے میں اصلاحات ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ اصلاحاتی عمل کا آغاز آرمی کی پینشنز سے ہونا چاہیے۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر آج کوئی بطور کیپٹن ریٹائرڈ ہوتا ہے تو اسے ملنے والی پنشن کی رقم پندرہ برس قبل ریٹائرڈ ہونے والے لیفٹینٹ جنرل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا اس تفریق کو منطقی کہا جاسکتا ہے؟ اسی صورت حال کا سامنا سول سروسز میں بھی ہے۔ وہاں وفاقی سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے ’’نئے‘‘ پنشنر کو 1لاکھ 10ہزار روپے پنشن ملتی ہے جب کہ ’’پرانے‘‘ پنشنر کو صرف 12ہزار دو سو ہی گزر بسر کے لیے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اب ہمیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ’’یکساں عہدہ ، یکساں پنشن‘‘کے اصول کو اپنانا ہوگا۔

جس کے مطابق ریٹائرڈ ہونے والے افسران کا تعلق چاہے فوج، سول انتظامیہ یا عدلیہ سے ہو، انھیں یکساں اسکیل پر پنشن کی ادائیگی ہونی چاہیے۔ وفاقی محتسب کی جانب سے ’’پرانے‘‘ اور ’’نئے‘‘ پنشنرز کو یکساں سطح پر لانے کے لیے پرزور سفارشات بھی کی جاچکی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے اکتوبر 1992کے فیصلے میں بھی اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا تھا ’’ہر پینشنر کو پینشن کی مد میں اُتنی ہی رقم کی ادائیگی کی جائے جو اس کے گریڈ اور کیٹگری سے تعلق رکھنے والے کسی دوسرے فرد کو ادا کی جاتی ہے۔‘‘ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ سے رجوع کیا۔ عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کردیا اور یہ معاملہ تاحال حل طلب ہے۔

اس حوالے سے اصلاحات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ یہ صرف سرکاری ملازمتوں سے سبک دوش ہونے والوں کے معاشی مسائل کا معاملہ نہیں بلکہ اس میں زیادہ اہمیت ریاست پراخلاقی و انسانی بنیادوں پر عاید ہونے والی ذمے داریوں کی بجا آوری ہے۔ جنگی محاذ پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے علاوہ ، دیگر افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کا ایک متبادل حل یہ ہے کہ تمام فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے رینک کے اعتبار سے ایک رہایشی مکان(یا اپارٹمنٹ) ملنا چاہیے۔

اس کی قیمت کی ادائیگی کا یہ طریقہ وضع کیا جاسکتا ہے کہ سروس کے دوران ان کی تنخواہون سے متعین شرح کے ساتھ رقم منہا کر لی جائے اور بقایاجات ریٹائرمنٹ کے بعد ادارے کی جانب سے بطور گرانٹ ادا کردیے جائیں، اس گرانٹ کا تعلق پینشن کی یکمشت ادائیگی سے نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح ریٹائر ہونے والوں کو قرض کی ادائیگی کے بوجھ سے نجات بھی مل جائے گی اور ان کے لیے باوقار انداز میں رہایش کا انتظام بھی ہوجائے گا۔

راحیل شریف جمہوری حکومت کو مکمل مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سلامتی امور کی پالیسی سازی میں فوج کے کردار کو بڑھانے اور مزید مؤثر بنانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ کیا نئے سپہ سالار اسی انداز اور رفتار سے راحیل شریف کی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے؟ شاید نئے چیف کا انداز اپنے پیش رو سے مختلف ہو لیکن اہداف یقیناً نہیں بدلیں گے ۔

جنرل قمر باجوہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں ان کے کرئیر سے عیاں ہے، وہ مضبوط سول ملٹری تعلقات کے حامی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ پائیدار بنیادوں پر مستحکم معیشت کی بنیادیں استوار کرنا اب بھی ہمارے بڑے قومی چیلنجز میں سرفہرست ہے اور اچھی طرز حکمرانی آج بھی عوام کا ایسا خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔