منتخب کردہ کالم

نازک مزاج شاہاں…نذیر ناجی

میں لاہور میں اورنج لائن منصوبے پر ہونے والے اعتراضات کی نوعیت سمجھنے میں مشکل محسوس کر رہا تھا۔ماہرین فن کی بیان کردہ اصطلاحات اور فنی پیچیدگیوں کو سمجھنا ‘ مجھ جیسے عامی کے لئے مشکل ہے۔ آج اس موضوع پر لاہور کے صحافی عون علی کی ایک تحریر بی بی سی ڈاٹ کام پر دیکھنے کا موقع ملا اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان وجوہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں جو اورنج لائن پر ہونے والے اعتراضات میں بتائی جاتی ہیں۔ کالم نویس نے اپنی طرف سے بعض جملوں کا اضافہ کیا ہے ۔ از راہ کرم انہیں برداشت کر لیجئے۔پہلے نمبر پر شالامار باغ ہے۔
”شالامار باغ کے حسن پر کلہاڑے چلا کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ سرسبز درختوں کو برباد کر کے‘ بلندوبالا ستون دکھائی دیتے ہیں۔عالمی ثقافتی ورثے میں شامل اس تاریخی باغ کی دیوار کے ساتھ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے دو منزلہ مکان جتنے اونچے ستون گاڑنے کے لئے لوہے کی چادریں لگا دی گئی ہیں۔ دو سٹرکوں کے اس درمیانی حصے میں پہلے گرین بیلٹ ہوتی تھی۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے آگے شالامار باغ تک سڑک تیر کی طرح سیدھی تھی اور سڑک کے ساتھ گرین بیلٹ میں ہرے بھرے پودے دور تک ایک دیوار کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ اب درختوں کی جگہ بلند و بالاستون کھڑے ہیں یا دھول اڑتی ہے۔ شالامار باغ کا بیرونی منظر عجب ویرانی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
دائی انگہ کا مزار قدیم دور کے شاہی خاندان کی تہذیبی روایات کی یاد دلاتا ہے۔ دائی انگہ شاہ جہاں بادشاہ کی دایہ اور ریاست بیکا نیر کے ایک حکمران مراد خان کی بیوی تھی۔ باغ تومدت ہوئی اپنے انجام کو پہنچا مگر اس کا داخلی محرابی دروازہ اور کاشی کاری کا نہایت خوبصورت کام ابھی سلامت ہے۔ علاقے کے بڑوں بوڑھوں کے بیٹھنے کے لیے بھی یہ ایک اچھی جگہ تھی۔ خاص طور پرسردیوں میں یہاں عمر رسیدہ افراد کی اچھی خاصی بھیٹر رہتی جو دن کا زیادہ حصہ یہاں دھوپ میں تاش، چوسر یا بارہ ٹہنی کھیلتے۔ اب گلابی باغ کے عین سامنے میٹرو ٹرین کا ستون کھڑا ہے‘ جس سے اس عمارت کا منظر بڑی حد تک ڈھک چکا ہے۔
بدھو نامی ایک کمہار جو شاہی عمارتوں اور تاریخ میں کس طرح گھس گیا؟ اس کا مختصر سا احوال یہ ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے عین سامنے 17ویں صدی کی عمارت بدھو نامی ایک کمہار سے منسوب ہے جس نے پکی اینٹوں کے کام سے اتنی دولت جمع کر لی کہ اپنے لیے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروا سکے۔ یہیں قریب ہی بدھو کے آوے یعنی اینٹ پکانے والی بھٹی کے آثار بھی تھے۔ مگر کچھ تاریخ دان کہتے ہیں کہ یہ خان دوراں نصرت جنگ کی بیوی کا مقبرہ ہے، جو شاہ جہاں کا ایک وزیر تھا۔ بہرحال یہ عمارت دیکھنے سے نہیں لگتا کہ محکمہ آثار قدیمہ کو کبھی اس کی حالت پر رحم آیا ہو۔ میں قریب سات برس بعد یہاں آیا ہوں، اس وقت بھی یہ جگہ ایسی ہی ویران تھی۔ مگر اس کے احاطے کے گرد لوہے کا اونچا جنگلہ اور گیٹ لگا ہوتا تھا، اب وہ بھی اکھاڑ دیا گیا ہے اور یہ بہت خوبصورت نظر آنے والی عمارت پہلے سے زیادہ ویران اور لٹی پٹی نظر آ رہی ہے۔
لکشمی چوک نے اصل شہرت قیام پاکستان کے بعد حاصل کی۔ پہلے اس کے گردونواح میںآٹھ نو سینما ہائوسز واقع تھے۔ لیکن فلموں کے شائقین نے ان سینمائوں کی گنجائش سے کہیں زیادہ ادھر کا رخ کرلیا۔ لاہور میں دو عمارتیں لکشمی سے منسوب ہیں۔ مال روڈ کے ریگل سینما کے سامنے لکشمی کے نام سے جو بلڈنگ منسوب ہے‘ اسے لکشمی مینشن کہتے ہیں۔ اسی میں بھارت کے ایک نامور مصنف اور قلمکار پیدا ہوئے اور ان دنوں غالباً بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں۔میکلوڈ روڈ پر ایک چوراہا جہاں اپنے زمانے کی ایک خوبصورت عمارت لکشمی بلڈنگ واقع ہے‘ اس چوراہے کو لکشمی چوک کہا جاتا ہے۔شہر میں دیسی کھانوں کا سب سے بڑا مرکز لکشمی چوک ہے، قریب ہی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز رائل پارک ہے۔ کبھی یہ علاقہ شہر کا اہم کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا اور ہوٹلوں کا مرکز بھی۔ لاہور میں جتنے ہوٹل اس ایک چوک کے قریب واقع ہیں کسی اور جگہ نہیں۔ لکشمی چوک سے ایک سڑک سیدھی ریلوے سٹیشن کو جاتی ہے۔ لکشمی بلڈنگ کو 1924ء میں بننے والی لکشمی انشورنس کمپنی نے تعمیر کروایا تھا۔ اگرچہ اب اس عمارت کا صرف سامنے کا حصہ ہی بچا ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ اب بھی یہ لاہوریوں میں سب سے زیادہ جانی پہچانی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم نامے کے بعد جس کے تحت گیارہ تاریخی اور اہم عمارتوں کے قریب تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائدکی گئی ہے، اورنج لائن میٹرو ٹرین کے ٹھیکیداروں کی جانب سے لکشمی بلڈنگ کے قریب اشتہار لگا دیے گئے ہیں جن پر لکھا ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم سے تعمیراتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
مال روڈ پر جی پی او کے نام سے ایک عمارت بہت مشہور ہے۔ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی یاد میں 1887ء میں عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ لاہور میں برطانوی دور کی تعمیرات کے اس شاہکار کا نقشہ سر گنگا رام نے بنایا۔ قریباً سوا سو سال پرانی یہ عمارت آج بھی بہت اچھی حالت میں ہے مگر پچھلے سال میٹرو ٹرین کے روٹ کی نشاندہی کے دوران ضلعی انتظامیہ نے اس عمارت کے کچھ حصوں پر بھی نشانات لگا دیے۔ اس کے بعد لاہور کے شہریوں اور جی پی او کے ملازموں کو اس عمارت کے تحفظ کے لیے ایک مہم چلانا پڑی۔
ایوان اوقاف ہائی کورٹ سے ملحق ایک عمارت کا نام ہے‘ جو قیام پاکستان کے بعد تعمیر کی گئی۔ میٹرو ٹرین کے مجوزہ روٹ سے متاثر ہونے والی عمارتوں میں صوبائی محکمہ اوقاف کے دفاتر کی عمارت بھی شامل ہے۔ اس کے ایک طرف سپریم کورٹ لاہور برانچ رجسٹری کی عمارت ہے اور عقب میں لاہور ہائی کورٹ واقع ہے۔ اگرچہ اس جگہ میٹرو ٹرین کا زمین دوز راستہ بنائے جانے کا منصوبہ ہے مگر اس تعمیر کے زمینی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لاہور ہائی کورٹ کی عمارت سے جڑی ہوئی، سپریم کورٹ لاہور برانچ رجسٹری سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پرانی عمارت میں قائم ہے۔ صوبے کی سب سے بڑی عدالتوں کے احاطوں کے نیچے سے میٹرو ٹرین گزارنے کا سوال عدالتی ایوانوں میں زیر بحث ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے گیارہ اہم عمارتوں کے قریب میٹرو ٹرین کی تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کے حکم کے بعد صوبہ پنجاب کی حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔
اس کالم نویس کو سپریم کورٹ کا وہ حشر یاد ہے ‘ جو تخت لاہور کے وارثوں کا مزاج برہم ہونے پر کیا گیا تھا۔
اورنج لائن عیسائیوں کی تین عبادت گاہوں کی درگت بنائے گی۔ انیسویں صدی کے آخر میں لاہور میں تین سینٹ اینڈریو پریسبیٹئرین چرچ تعمیر کیے گئے۔ ایک لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب، ایک انار کلی میں اور ایک یہ ہائی کورٹ کے پہلو میں۔ اس چرچ کی عدالت عالیہ کے ساتھ ایسی گہری ہمسائیگی ہے کہ عدالت کا ایک جنوبی گیٹ چرچ گیٹ کہلاتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جنوب میں بابا موج دریا کا مزار ہے، جو میٹرو ٹرین کے مجوزہ روٹ میں آتا ہے۔ البتہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں جن گیارہ عمارتوں کے نزدیک تعمیراتی سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا گیا ان میں ایک یہ مزار اور اس سے ملحقہ مسجد بھی شامل ہے۔ بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے ایک شاہی فرمان کی رو سے بھی یہ مزار اور اس سے ملحقہ احاطہ محفوظ عمارتوں میں شامل ہے کیونکہ مہابلی کا حکم ہے کہ اس جگہ کو نہ کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں نہ یہاں کوئی اور عمارت تعمیر ہو سکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے رو برو یہ حکم نامہ پیش ہو چکا ہے۔
چوبرجی کے جس در سے بھی گزریں لاہور کی ثقافتی تاریخ اور عمومی یادداشتوں کے جہان تک پہنچ جائیں گے۔ یہ یادگار اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النسا کے باغ کا مرکزی دروازہ تھا۔ باغ کا کوئی نشان نہیں ملتا سوائے اس چو برجی کے۔ تاریخ اور تعمیرات کے ماہرین اسے مغل دور کے چہار مینار کا خصوصی نمونہ قرار دیتے ہیں۔ لاہور میں اس طرز تعمیر کا دوسرا کوئی نمونہ نہیں ملتا۔ کچھ عرصہ پہلے تک چوبرجی کا چوک ان اونچے میناروں سے بہت دور سے پہچانا جاتا تھا مگر اب یہ تاریخی مینار میٹرو ٹرین کے ستونوں کے ہجوم میں کھو گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے اگرچہ یہاں تعمیر کی مزید سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے، مگر پچھلے ایک سال کے دوران یہاں ستون کھڑے کرنے کے لئے کی جانے والی ڈرلنگ سے جتنا پانی نکلا اس کا رخ اس تاریخی عمارت کی طرف تھا۔ نتیجے میں چوبرجی کے تاریخی مینار سطح زمین سے کئی میٹر بلندی تک سیلن کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب اگر یہ یادگار میٹرو ٹرین کے جھٹکے سے بچ بھی گئی تو شاید اس نمی کے خطرے سے نہ بچ پائے جو اس کے ڈھانچے میں گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔
اس میں اختلاف سہی کہ یہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النسا کا مقبرہ ہے یا اس کی ماں جیسی چہیتی انا میا بائی کا۔ مگر اس میں اختلاف نہیں کہ مقبرے کی یہ عمارت نہایت خوبصورت تھی، جسے محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور اہل علاقہ کی توسیع پسندی نے بے دریغ نقصان پہنچایا۔ میٹرو ٹرین کی تعمیر سے اس عمارت کی صحت پر کچھ خاص اثر نہ پڑتا کہ اردگرد کے گھروں اور دوکانوں نے پہلے ہی اسے اس طرح اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یہ مقبرہ آس پاس کے گھروں اور دوکانوں کا کباڑ خانہ معلوم ہوتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے اس کی حدود کے اندر بھی 200 میٹر تک کوئی تعمیراتی سرگرمی ممنوع ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران اس بھولی بسری تاریخی عمارت کو کبھی اتنی اہمیت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس بار تو یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ یہاں تازہ خشتی ٹائلوں کا ایک ڈھیر بھی لگا تھا، شاید تعمیر و مرمت کا کام بھی ہونے جا رہا ہے۔