منتخب کردہ کالم

نواز رضا کی نواز شریف سے ملاقات

جب سے پانامہ پیپرز لیکس پر’’ چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا ہواہے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے میری پہلی ملاقات تھی امریکہ میں کم و بیش تین ہفتے قیام کے بعد اگلے ہی روز پاکستان واپس آیا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس سے بلاوا آگیا تاہم میں نے اپنے آپ کو پاکستان کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورت حال سے باخبر رکھا ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ہمراہ موٹر وے کے سکھر ملتان سیکشن کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کی کوریج کے لئے سکھر جانے کا موقع ملا اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور ہوائی جہاز میں مجھے وزیر اعظم کے سامنے والی نشست دی گئی پاکستان ایئرفورس ون نے جوں ہی سکھر کی جانب پرواز شروع کی تو وزیر اعظم نے گفتگو کا آغاز کر دیا ایک گھنٹے سے زائد پرواز میں وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملکی سیاسی صورت حال اور پانامہ پیپرز لیکس سے پیدا ہونے والے ’’ سیاسی طوفان ‘‘ پر کھل کر بات چیت ہوئی نواز شریف کی باڈی لینگوئج سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ انہوں نے موجودہ صورت حال سے نکلنے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے ان کا مورال خاصا بلند ہے وہ اپوزیشن جماعتوں کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کے لئے نہ صرف پر عزم ہیں بلکہ جارحانہ انداز میں اپوزیشن کو جواب دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں مجھے ایک بار پھر90ء کے عشرے کا نواز شریف نظر آیا جو اپنے سیاسی مخالفین پر شیر کی طرح ’’ حملہ آور‘‘ ہوتا تھا مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میاں نواز شرف کے چہرے پر کوئی پریشانی نظر نہیں آئی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے ہر قیمت پر عدالتی کمیشن کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے کی تیاری کر لی ہے بس کمشن کے قیام کا انتظار کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ’’ اب ایک بار اس معاملہ کی عدالت کے ذریعے تحقیقات ہو ہی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے انہوں نے اس بات کی تفصیلات بتائیں کہ کس طرح ان کے خاندان نے بے پناہ مشکلات کے باوجود صنعت و حرفت کے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں ان کے سیاسی مخالفین گڑھے مردے اکھاڑ رہے ہیں عدالتی کمیشن قائم ہونے کے بعد ان کے حصے میں شرمند گی کے سوا کچھ نہیں آئے گا ۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’’جوں جوں 2018ء قریب آرہا ہے توں توں ان کے سیاسی مخالفین کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں مسلم لیگ(ن) کی حکومت 2018ء میں نہ صرف توانائی کے بحران پر قابو پالے گی بلکہ سستی بجلی کی فراہمی بھی شروع ہو جائے گی ملک کو اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جا ئے گی اسی لئے میں نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ 2018ء تک صبر کرے بلکہ اس کے بعد بھی صبر کرے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے ’’یہ منہ اور مسور کی دال ، اپوزیشن والوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کا پالا کن لوگوں سے پڑ اہے تو انہوں نے کہا کہ ’’میں نے کوئی متکبرانہ بات نہیں کی بلکہ مجھ سے استعفیٰ کا تقاضا کرنے والوں کو سیاسی انداز میں جواب دیا ہے یہ منہ اور مسور کی دال صدیوں سے استعمال ہونے والا محاورہ ہے ۔مجھے تو اپوزیشن والے آئے روز رگیدتے رہتے ہیں لیکن میں نے کبھی برا منایا اور نہ ہی اس انداز میں جواب دیا جو اپوزیشن نے اختیار کر رکھا ہے بلکہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے تنقید کو برداشت کیا ہے ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں سیاسی میدان میں میرا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہ رکھنے والے ملک کی ترقی کا پہیہ روکنے کے لئے سڑکوں پر نکلنے کے لئے پر تول رہے ہیں مجھے یقین ہے عوام ایجی ٹیشن کی سیاست کرنے والوں کو ایک بار پھر مسترد کر دیں گے پچھلے تین سال کے دوران ہونے والے انتخابی معرکوں میں کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام مسلم لیگ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں میں نے ان سے پوچھاکہ’’ اپوزیشن آپ سے استعفیٰ کا تقاضا کر رہی ہے‘‘ تو انہوں برجستہ جواب دیا کہ’’ اب تو اپوزیشن اس مطالبہ سے پیچھے ہٹ گئی ہے لیکن میں استعفیٰ کیوں دوں ؟ میں نے کونسا جرم کیا ہے ؟مجھ سے استعفے کا تقاضا کرنے والے اپنے گریبانوں جھانکیں میرا دامن صاف ہے قومی خزانے کی ایک ایک پائی کوقومی امانت سمجھ کر خرچ کیا ہے کوئی ایک پائی کی بدیانتی ثابت نہیںکر سکتا دہشت گرد ملک کا امن و امان تباہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ میرے سیاسی مخالفین بھی سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملکی ترقی کا پہیہ روکنا چاہتے ہیں تو پھر دونوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟‘‘۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف جنہوں نے ملک میں موٹر وے کا جال بچھانے کو خواب کو عملی شکل دینے کا تہیہ کر رکھا ہے نے سکھر میں بھی موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد سید خورشید شاہ کے حلقہ انتخاب میں ازراہ مذاق کہا کہ ’’شاہ صاحب ! ہم آپ کے علاقے میں پل بنا رہے ہیں اور آپ ہم سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘‘ ابھی ان کے بیان کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی سید خورشید شاہ کا بیان آگیا کہ’’ ہم نے استعفے کا تقاضا کیا ہے اور نہ ہی لڑائی کے موڈ میں ہیں ‘‘ ممکن ہے وزیر اعظم سے ان کے آفس میں ملاقات ہوتی تو زیادہ دیر جاری نہ رہتی مجھے میاںنواز شریف کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف نوائے وقت اور دوسرے اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں بلکہ اپنے خلاف شائع ہونے والی خبروں اورکالموں کا نوٹس لیتے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف نوائے وقت میں شائع ہونے والی میری خبروں اور کالموں کو باقاعدگی پڑھتے ہیں بلکہ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز بھی ان کی تحریروں کی طرف توجہ مبذول کراتی رہتی ہیں انہوں نے کہا کہ ’’ میں آپ کے تجزیوں میں کی جانے تعریف اور تنقید دونوں کا خیر مقدم کرتا ہوں کیونکہ آپ جو کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں اس میں بد نیتی شامل نہیں ہوتی میں نے ان سے ان کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز جس نے سوشل میڈیا پران کے سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کر رکھا ہے سے ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے ان سے آپ کے آصف علی زرداری سے ’’رومانس ‘‘ کے مضمرات پر بات کی ہے ‘‘ جس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ جب میں 11مئی 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آصف علی زرداری سے ملاقات کے لئے ملنے ایوان صدر گیا تو ان سے کہا کہ جب تک آپ اس ایوان میں موجود ہوں گے آپ کو صدر پاکستان کی حیثیت سے پوری عزت وتوقیر دی جائے گی یہی ہے وجہ ہے وہ جب تک صدر رہے ان کو ہماری طرف سے شکایت کا موقع نہیں ملا میں نے یہ سب کچھ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا میں ماضی کی تلخیاں ختم کر کر کے پاکستان کو آگے کی طرف لے جانا چاہتا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہم نے اپنے نظریات پر کمپرومائز کر لیا ہے بدقسمتی سے سیاست میں نوواردوں نے تلخی کا ماحول پیدا کر دیا ہے میں تو ملک کی خاطر ہر ایک کے پاس جانے کے لئے تیار ہوں ۔ میں نے کہا ’’جناب وزیر اعظم! آپ کی حالیہ تقریروں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے سوئے ہوئے شیر کو جگا دیا ہے‘‘ جس پر وزیر اعظم نے زور دار قہقہ لگاکرمیری بات سے اتفاق کیا میں نے ان کو بنوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسہ عام میں ’’ پنجاب کے شیر‘‘ قرار دینے بارے میں بات کی تو وہ مسکرا دئیے تاہم انہوں نے جن شاندار الفاظ میں مولانا فضل الرحمنٰ کوخراج تحسین پیش کیا ان کو الفاظ میں قلمبند نہیں کیا جا سکتا انہوں نے کہا کہ ’’مولانا نے حق دوستی ادا کر دیا انہوں نے پانامہ پیپرز لیکس پیپرز پر جو اصولی موقف بیان کیا ہے اس کو پورے ملک میں سراہا جا رہاہے مولانا فضل الرحمنٰ سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیت ہیںان سے ہمار ا ساتھ رہے گا‘‘ جب وزیر اعظم محمد نواز شریف سکھر میں پنڈال پہنچے تو’’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا‘‘کے نعروں سے گونجنے لگا پنڈال بڑی دیر تک ’’میاں دے نعرے وجن گے ‘‘ سے گونجتا رہا مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکریٹری نہال ہاشمی نے اپنی پرجوش تقریر میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے’’ موٹر وے ویژن‘‘ کو پیش کیا اور کہا کہ 500سال قبل شیر شاہ سوری نے جرنیلی سڑک بنائی آج وزیر اعظم محمد نواز شریف پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملانے کے لئے شاہراہ کی تعمیر کی بنیاد رکھی ہے وزیر اعظم جہاز میں ہی تحریر شدہ تقریر کا جائزہ لیتے رہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ نوٹس بھی لیتے رہے لیکن جب وہ ڈائس پر آ ئے تو انہوں تحریر شدہ تقریر کو ایک طرف رکھ دیا اور فی البدیہہ تقریر کی تاہم کبھی کبھی کوئی جملہ اپنی تحریر شدہ تقریر سے بھی لے لیتے ان کے جوش خطابت سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ اپوزیشن کے چائے کی پیالی میں برپا کئے جانے والے سیاسی طوفان کے سامنے پر سکون کھڑے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلوں پر سکھر میں منعقد ہونے والی تقریب پر دو کروڑ روپے کے اخراجات کی مبالغہ آرائی پر مبنی خبر ٹیلی کاسٹ ہوئی ہے وزیر اعظم کا قافلہ شاہانہ تھا اور نہ ہی پروٹول کے لئے گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں البتہ استقبال کے لئے آنے والوں کی گاڑیاں ضرور تھیں بہر حال وزیر اعظم کو اس بات کی تحقیقات کرانی چاہیے کہ اس تقریب پر اٹھنے والے اخراجات کتنے تھے ؟ اس بارے میں مبالغہ آرائی تو نہیں کی جارہی ؟ اگر تقریب میں ’’شاہ خرچی ‘‘ ہوئی ہے تو حکومت کو اس مد میں ہونے والے اخراجات میں کفایت شعاری کو اپنانا چاہیے۔