منتخب کردہ کالم

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان… (1)…کنور دلشاد

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان… (1)…کنور دلشاد

مجھے اب یہ محسوس بلکہ کسی قدر یقین ہونے لگا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف ملک کی نظریاتی اساس پر یقین نہیں رکھتے یا پھر وہ بالقصد اس سے روگردانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بھارت نواز مشیروں نے نظریہ پاکستان کی روح کو ان کے ذہن سے نکال دیا ہے۔ شاید اسی نقطہ نظر کے تحت کچھ عرصہ پہلے نواز شریف دیوالی کی ایک تقریب میں بر ملا کہتے رہے کہ بھارتی اور پاکستانی ایک جیسا کھاتے اور ایک جیسا کلچر رکھتے ہیں‘ یہ لکیر درمیان میں کہاں سے آ گئی۔ کچھ حلقے مسلسل قرارداد پاکستان اور نظریہ پاکستان کی اساس میں شگاف ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس لکیر کی لاج رکھنے کے لئے ستر لاکھ سے زائد برصغیر کے عوام نے قربانیاں دی تھیں‘ اور اسی لکیر کی بنیاد پر نواز شریف پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور پھر اسی کے سبب تین بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے‘ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ اس مقصد کے لئے انہوں نے درِ پردہ کچھ قوتوں کے سہارے حاصل کئے تھے۔ قوم کو یہ سن کر حیرت بھی ہوئی اور صدمہ بھی پہنچا کہ بقول ایک نا اہل قرار دئیے گئے شخص کے شیخ مجیب الرحمان محبِ وطن تھا‘ لیکن اسے باغی بنا دیا گیا۔ بین السطور میں نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمان کا ذکر کر کے ملفوف دھمکی دے دی ہے کہ اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں۔ کسی کو ملک سے بے وفائی کرنا زیب نہیں دیتا۔ شیخ مجیب الرحمان کا مسئلہ اقتدار سے محرومی تھا کہ 1970ء کے انتخابات میں ان کی اکثریت ہونے کے باوجود جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو ان کی راہ میں مزاحم رہے اور ان کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا تھا‘ جبکہ نواز شریف اقتدار کے مزے آج تک لوٹ رہے ہیں۔ ان کی پارٹی آج بھی وفاق اور پنجاب میں برسر اقتدار ہے۔ اگر اصول کے مطابق اس وقت یعنی 1971ء میں اکثریتی پارٹی کو انتقالِ اقتدار ہو جاتا تو آج اس ملک کی تاریخ وہ نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نواز شریف اپنے بھارت نواز صحافیوں اور دانشوروں کے نرغے سے اب نکل آئیں‘ اور حقائق کا سامنا کرتے ہوئے سانحۂ مشرقی پاکستان کی حقیقت جاننے کے لئے معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کا 16 جنوری 1972ء کا انٹرویو پڑھیں‘ جس کے مطابق شیخ مجیب الرحمان نے تسلیم کیا تھا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو کے حق میں تقریر کے بعد مشرقی بنگال کی علیحدگی کے لئے کام کرتا رہا تھا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش ڈے پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جب وہ اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ لندن کے ایک فلیٹ میں مقیم تھیں‘ تو اکثر وہاں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را‘‘ کے افسران آتے تھے‘ آزادی کے لئے منصوبے پر رائے دیتے تھے اور مالی امداد بھی فراہم کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر تلہ سازش کیس درست تھا‘ جو مغربی پاکستان کے ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کی صدر ایوب خان سے بے زاری کی وجہ سے سیاسی طوفان کی نذر ہو گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ اگرتلہ معاملے کی جامع تحقیقات کی جاتیں تو بہت سے دوسرے معاملات بھی آشکار ہو سکتے تھے۔
شیخ مجیب الرحمان کا اس انداز میں ذکر کرکے نواز شریف نے غالباً مجیب الرحمان کی بغاوت کی ذمہ داری عدلیہ اور فوج پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ان کی یہی سوچ ہے تو یہیں سے نواز شریف کی حب الوطنی متنازع ہو جاتی ہے‘ اور اسی کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ ن کے نظریاتی ارکان اسمبلی ان سے لا تعلقی کا اعلان کرکے قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم نوا بن سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مسلم لیگ ن کے لئے ایک بڑا اپ سیٹ
ہو گا۔ اس صورت میں وہ مسلم لیگ ن میں کسی نظریاتی راہنما کی تلاش کریں گے‘ اور اگلے الیکشن میں نظریاتی قیادت کے بل بوتے پر عوام کی راہنمائی کرنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف نظریاتی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کتنا درست ہے‘ اس کے بارے میں وہ خود بہتر بتا سکتے ہیں یا پھر عوام بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہیں کتب بینی کا شوق نہیں، ورنہ کہا جاتا کہ وہ اینڈرسن پیپرز کا مطالعہ کریں۔ واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والے اس اخبار نویس کی نظر سے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بے شمار واقعات گزرے۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں صدر نکلسن کا جو کردار رہا‘ اس کے بارے میں اینڈرسن نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ صدر نکلسن مشرقی پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے فوجی ایکشن کی حمایت نہیں کر رہے تھے اور یہ کہ صدر نکلسن نے 9 فروری 1972ء کو کانگریس کی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ بیان صرف جزوی طور پر درست ہے۔ امریکہ نے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کو روکنے کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ 14 دسمبر 1971ء کو ساڑھے چھ بجے جنرل نیازی ڈھاکہ کے امریکی کونسل خانے میں مدد طلب کرنے آیا تھا۔ وہ بھارت سے جنگ بندی کی درخواست کرنا چاہتا تھا۔ اس کا اپنا ریڈیو سیٹ بھارتی بم باری سے ٹوٹ گیا تھا اور قابل استعمال نہیں رہا تھا۔ امریکی قونصلر سپائیوک نے پروٹوکول کے آداب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جنرل نیازی کی درخواست وائٹ
ہائوس بھیج دی تاکہ اسے وہاں سے نشر کیا جا سکے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں یہ پیغام ڈھاکہ کے وقت کے مطابق سوا سات بجے شام موصول ہوا۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ پیغام اسلام آباد میں سفیر فارلینڈ کو بھیج دیا‘ تاکہ وہ جنرل یحییٰ خان سے اس کی تصدیق کریں۔ امریکی سفیر فارلینڈ کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ جنرل نیازی کا پیغام واضح نہیں ہے اور مبہم ہے۔ ڈھاکہ میں اس وقت صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ وائٹ ہائوس نے اسلام آباد سے پوری طرح تصدیق کر لی۔ اگرچہ امریکہ کے ریڈیو ٹرانسمیٹر کے کسی بھی حصہ سے فوری طور پر رابطہ قائم کر سکتے تھے مگر زندگی اور موت جیسے اس معاملے کے ساتھ امریکی حکام کی جانب سے ایسا سلوک کیا گیا‘ جیسے عام سفارتی دعوت کہیں سے بھیجی یا موصول کی جا رہی ہو۔ اقوام متحدہ میں امریکی نمائندوں کو پاکستانی سفیر نواب زادہ آغا رضا اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کی تلاش کے لئے کہا گیا، مگر دونوں میں سے کوئی بھی نہ مل سکا۔ بالآخر جنرل نیازی کا پیغام نئی دہلی میں امریکی سفیر کیٹنگ کو ارسال کر دیا گیا۔ اس وقت 12 بج کر چھپن منٹ ہو رہے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ پیغام کو ڈی کوڈ کرنے‘ بھارتی فوجی افسروں کو تلاش کرنے اور ان تک پیغام پہنچانے میں ضائع کرنا پڑا۔ جنرل نیازی کے ڈھاکہ میں داخل ہونے‘ اور توپوں کی خاموشی میں اکیس نازک اور قیمتی ترین گھنٹے ضائع کر دئیے گئے تھے اور اس دوران پاکستان کی سر زمین پر مزید خون بہتا رہا۔ یہ کام اگر فوری طور پر کر لیا جاتا تو اس بہنے والے خون کو روکا جا سکتا تھا‘ بلکہ ہو سکتا ہے ڈھاکہ فال کی نوبت بھی نہ آتی۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ یہ دیر ناگزیر تھی اور جنگ پھیلانے یا جنرل نیازی کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے کی درونِ پردہ سازش نہیں کی گئی تھی۔ اب یہ بیان کس قدر درست ہے‘ اس کے لئے اس سارے معاملے کی تحقیق کی جانی چاہئے تاکہ صورت حال واضح ہو سکے۔ سقوط ڈھاکہ کو پچاس برس مکمل ہونے کو ہیں‘ لیکن ہم ابھی تک یہ حتمی تعین ہی نہیں کر سکے کہ ملک کو دو لخت کرنے میں کس کس کا کتنا ہاتھ تھا۔ میرے خیال میں حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ اس سلسلے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ (جاری)