منتخب کردہ کالم

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان… (2)…کنور دلشاد

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان… (2)...کنور دلشاد

نواز شریف اور شیخ مجیب الرحمان… (2)…کنور دلشاد

اس دوران امریکہ کو اپنی خفیہ چالوںکو آگے بڑھانے کے لئے اکیس گھنٹے مل گئے۔ چین کے لئے اپنی تیاریوں کے حوالے سے یہ نا کافی وقت تھا اور وہ جنرل یحییٰ خان اور چینی حکومت کے درمیان خفیہ مذاکرات کے تحت بھارت پر حملہ نہ کر سکا۔ روس کو بھی چین پر حملے کا بہانہ ہاتھ نہ آ سکا۔ علاوہ ازیں بحری بیڑہ اور ٹاسک فورسز بہت دور تھیں۔ اور پھر جنگ 16 دسمبر 1971ء کو ختم ہو گئی۔ دنیا نے تو سکون کا سانس لیا‘ مگر بڑی طاقتوں کو اس کا اعزاز لینے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے اس معاملے کو سلجھانے کے سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا تھا‘ بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ درست ہو کہ وہ خاموش تماشائی بنی رہیں۔ مشرقی پاکستان کی جنگ روس، چین یا امریکہ کی خفیہ چالوں یا کوششوں کی بنیاد پر ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ ان سب کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے یہ خود ہی انجام تک پہنچ گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل پال مارک ہنری نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انوکھی جنگ ہے، یوں لگتا ہے کہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ ان کے خیال میں جنرل نیازی اس سارے ڈرامے کی کلید تھے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے رشوت دی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان زندگی اور موت کے کرب میں مبتلا رہا‘ لیکن بڑی طاقتیں انسانی جانوں کی قدر و قیمت سے بے نیاز اور اس صورت حال کے نتائج سے بے خبر اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہیں اور امریکہ‘ جس کا دو سو سالہ ماضی با وقار روایتوں سے مزین ہے، صدر نکسن نے اس کے دامن پر نہ مٹنے والا ایک سیاہ دھبہ لگا دیا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کے داخلے کی کنجی جنرل نیازی کے ہاتھ میں تھی اور وہ آسانی سے اسے فراہم کر دی گئی۔
امریکی دستاویزات کے مطابق جنرل یحییٰ خان سیاست سے کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتے تھے مگر کئی دوسرے معاملات میں خاصے ماہر تھے۔ ان دستاویزات کے مطابق وہ ایک پیدائشی فوجی تھے۔ ان کے آبائو اجداد نے 1857ء کی جنگ میں برطانوی فوج کی معاونت کی‘ جس نے بعدازاںبہادر شاہ ظفر کی افواج کو شکست دے کر ان کے شہزادوں کے سر قلم کر دیئے تھے۔ بہرحال یہ سارے تاریخی معاملات ہیں‘ اور کوئی تاریخ دان ہی ان کے بارے میں تحقیق سے ٹھوس فیصلہ کرے گا۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان مدہوش ہو کر میدانِ جنگ میں اترتے تھے۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی کمیشن حاصل کیا تھا۔ 1947ء میں پاکستان سٹاف آرمی کی سربراہی کے لئے منتخب کیا گیا۔ انہیں 34 برس کی عمر میں بریگیڈیئر بنا دیا گیا۔ 40 سال کی عمر میں میجر جنرل اور 49 سال کی عمر میں کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔ ترقی کے راستے پر جنرل یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان سے دوستی رکھی۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان کو برسر اقتدار لانے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ1965 ء میں کشمیر کے مسئلے پر پاک ہند جنگ شروع ہوئی تو جنرل یحییٰ خان کو دوسرا بڑا فوجی اعزاز ذاتی قابلیت یا جنگی مہارت کی بجائے صدر ایوب خان سے ان کی دوستی کی بنیاد پر دیا گیا۔ اسلام آباد کے قصر صدارت میں وہ فاصلے اور تنہائی کے باعث ملکی مسائل سے دور ہوتے چلے گئے اور انہی کی وجہ سے مزید مسائل پیدا ہوئے‘ جن کے باعث مزید مسائل پیدا ہوئے۔ مشرقی پاکستان تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا تھا اور وہ دو مختلف خیالات اور پالیسیوں کے حامل ممالک‘ امریکہ اور چین کے ساتھ دوستی پر مطمئن تھے۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرنے کی مخالفت میں دو انگریزی روزناموں کے چیف ایڈیٹرز الطاف گوہر اور زید اے سلہری، گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمان، ایئر مارشل نور خان، ایئر مارشل اصغر خان، اور بعض کور کمانڈرز پیش پیش تھے۔ ان سب کا مؤقف یہی تھا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ داران کے خلاف کورٹ مارشل کیا جائے اور فوری طور پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمودالرحمان کو صدر مقرر کر کے ملک میں از سر نو انتخابات کروائے جائیں‘ کیونکہ 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات مشرقی پاکستان کے تحت ہوئے تھے یعنی جب وہ پاکستان کا حصہ تھا اور لیگل فریم ورک آرڈر 1970ء کے تحت قومی اسمبلی مقررہ مدت میں آئین سازی کرنے میں ناکام رہی تھی‘ جس کے بعد ملک بھی دو لخت ہو گیا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ ان حالات میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرنے سے ملک سیاسی انتشار اور خلفشار کی زد میں رہے گا کیونکہ بقول ان شخصیات کے‘ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو بھی بالواسطہ سقوط مشرقی پاکستان میں ملوث تھے۔ اسی مؤقف کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر زیڈ اے سلہری نے 18 دسمبر 1970ء کو اپنے اخبار کے پہلے صفحہ پر اداریہ لکھا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی جائے۔ اسی طرز کے اداریے ایک اور انگریزی زبان کے اخبار میں الطاف گوہر کی طرف سے لکھے گئے‘ لیکن لیفٹیننٹ جنرل گل حسن نے آگے بڑھ کر بھٹو مخالف جرنیلوں کو نظر بند کر دیا‘ اور اقتدار بھی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیا۔ جنرل گل حسن کو کمانڈر ان چیف مقرر کر دیا گیا اور مارشل لاء آرڈر 19 دسمبر 1971ء کے تحت چاروں صوبوں کو پاکستان کا نام دیا گیا۔
یہ بات اب تاریخ کا حصہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان نے بنگلہ دیش میں شخصی آمریت کی بنیاد رکھی‘ اور 25 جنوری 1975ء کو ملک کی پہلی دستوری آئینی ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی طریقہ حکومت کو ختم کر کے ایک پارٹی کے صدارتی طرزِ حکومت کی منظوری دے دی۔ نئے ترمیمی آئین کی خصوصی وضاحت کے تحت شیخ مجیب الرحمان کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر کا درجہ دے دیا گیا اور ملک کی پارلیمنٹ کی مدت میں مزید پانچ سال کی توسیع کر دی گئی۔ ظاہر ہے ان کا یہ طریقہ کار کسی کو پسند نہ آیا تھا۔ 1971ء سے پہلے شیخ مجیب الرحمن جمہوریت کی اور پالیمانی نظامِ حکومت کی بات کرتے تھے‘ لیکن جونہی اختیارات ان کے قبضے میں آئے انہوں نے سب سے پہلے پارلیمانی نظام کو ہی نشانہ بنا ڈالا۔ ان کے اس فیصلے کے خلاف بنگلہ دیشی عوام کے ذہنوں میں لاوا پکنا شروع ہو گیا اور بنگلہ دیشی فوج بھی خود کو آسودہ محسوس نہیں کر رہی تھی۔ شخصی آمریت کے قیام کے چند مہینے بعد 15 اگست 1975ء کو شیخ مجیب الرحمان کو ان کی رہائش گاہ دھان منڈی میں مع ان کے خاندان کے 15 افراد کے قتل کر دیا گیا۔ میں نے یکم جنوری 2009ء کو اپنے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران شیخ مجیب الرحمان کے مقتل کو دیکھا جو عبرت کی نشانی ہے۔ صدر کی رہائش گاہ کو بنگلہ دیش کا قومی ورثہ قرار دے دیا گیا اور ان کے بیڈ رومز میں خون اور گولیوں کے نشانات کو یادگار کے طور پر محفوظ کر کے رکھا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب کو شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن قرار دینے سے پہلے بنگلہ دیش میں ان کی رہائش گاہ کا ضرور مشاہدہ کرنا چاہئے۔ وہ اگر محب وطن ہوتا تو اس طرح الگ ہونے کے چار سال بعد ہی مارا نہ جاتا۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ نواز شریف صاحب کے آبائو اجداد امرت سر کے جاتی امرا میں شیخ کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ اس پر تحقیق ہونی چاہئے۔ نواز شریف چاہتے تو اپنے کرب کے اظہار کے لئے کوئی اچھی مثال بھی پیش کر سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے حوالہ بھی دیا تو شیخ مجیب الرحمٰن کا!!!