منتخب کردہ کالم

وزیر اعظم اور لندن کے برگر …عبدالقادر حسن

جو خوش نصیب سیاست کے باغات اور چمنستانوں میں گھوما پھرا کرتے ہیں اور اس میں درازیٔ عمر کا راز تلاش کرتے ہیں انھیں خوش نصیب ہی کہا جا سکتا ہے، اس سیر سپاٹے میں ان کی اپنی زندگی اور ان کی سیاست کی زندگی بھی طویل تر ہوتی رہتی ہے اور ان کے ہمارے جیسے خوشہ چیں بھی خوش رہتے ہیں کہ ان کی خوشی ہماری خوشی ہے۔ مجھے یہ باتیں ہمارے ایک لیڈر کی تازہ ترین سیر و سیاحت سے یاد آئی ہیں۔

گوناگوں خطروں میں گھرے ہوئے ملک کے اس لیڈر نے ان حالات میں بھی اپنی خوشی اور سکون کے چند لمحے نکال لیے ہیں اور وہ لندن کی مشہور آکسفورڈ اسٹریٹ کے ایک یہودی اسٹور کے ریستوران میں جا پہنچے ہیں‘ یہاں خبر کے مطابق انھوں نے اپنی قریب ترین فیملی کے ساتھ برگر کھائے ہیں۔ مجھے آکسفورڈ اسٹریٹ میں ان کی ایک پرانی نشست یاد آئی ہے جو ہم نے بھی ذرا دور سے دیکھی ہے۔ ان کے ایک بیرونی دورے میں ان کے ہمراہ جانے والے صحافیوں کی ٹولی میں شمولیت کا اعزاز ملا ہوا تھا اور لندن کے اس مشہور بازار جسے آکسفورڈ اسٹریٹ کہا جاتا ہے کہ ایک اچھے ہوٹل میں مجھے بھی کمرہ ملا ہوا تھا اور میاں صاحب بھی اسی ہوٹل کے خصوصی حصے میں مقیم تھے۔

ایک لطیفہ یہ ہوا کہ میں ایک جوتا خریدنا چاہتا تھا لیکن پوری آکسفورڈ اسٹریٹ میں مجھے اپنے پاؤں کے مطابق جوتا نہ مل سکا۔ واپسی پر ہوٹل کے رجسٹر میں میں نے لکھا کہ دنیا کے اس مشہور بازار میں مجھے اپنے سائز کا جوتا نہ مل سکا۔ بعد میں ہوٹل والوں کا خط آیا کہ مختلف سائز کے جوتے جمع کر لیے گئے ہیں آپ جب بھی آئیں ان میں سے اپنی پسند کا جوتا مفت لے جائیں۔ تب سے اب تک مجھے لندن کے کرائے اور خرچے کا انتظار ہے۔ بہرحال اللہ مالک ہے۔

اس اسٹور کا ذکر کر دوں جو لندن کے بازار کا دوسرے نمبر کا اسٹور ہے۔ یہ یہودیوں کی ملکیت ہے اور عام ضرورت کی اشیا کی بڑی ورائٹی یہاں ملتی ہے اور نرخ بھی ذرا کم ہیں۔ میاں صاحب اسی اسٹور کے ریستوراں میں غالباً برگر کھانے گئے کہ کہ اخبار والوں کی خبر بن گئی۔ ایک دفعہ میں نے لندن میں دیکھا کہ ایک ہوٹل کی لابی میں چند خواتین کچھ کپڑوں سے لیبل اتار رہی ہیں۔ معلوم ہوا یہ عرب خواتین ہیں جو اس یہودی اسٹور کا سامان گھر نہیں لے جانا چاہتیں کیونکہ ان اشیا کے لیبل سے اس یہودی اسٹور کا پتہ چلتا ہے۔ معلوم ہوا کہ میاں صاحب کی بیگم صاحبہ اور دو بیٹے ان کے ہمراہ تھے۔ میاں صاحب خوش ذوق آدمی ہیں اور آزاد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ خدا نے بہت کچھ دے رکھا ہے اور اس خوشحالی کا فائدہ کسی بیرونی ملک میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مکمل آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک سیر و سیاحت۔

محترم میاں صاحب نے جب پہلی بار موسیقی کا ایک آلہ وی سی آر دیکھا تو اسے خریدنا چاہا لیکن ان دنوں ان کا ایک چچا زاد بھائی دبئی میں ان کے کاروبار کا انچارج تھا جس نے اپنے بڑے بھائی کی خواہش پوری کرنے سے معذرت کر دی کیونکہ بڑے میاں صاحب کی اجازت نہیں تھی۔ لاڈلا بیٹا نواز شریف خاموش رہا۔ غالباً بڑے میاں صاحب کو بیٹے کی اس خواہش کا علم بھی نہیں تھا ورنہ اس بیٹے کی سیاسی خواہش پر لاکھوں قربان کرنے والے باپ کو اعتراض نہ ہوتا۔ میں نے میاں صاحب کے والد ماجد کی میاں امیرالدین صاحب سے گفتگو سنی جس میں انھوں نے وزارت کے لیے لین دین کا ذکر کیا تھا۔

یہ بات سن کر میں تو اس کمرے سے چپکے سے باہر نکل آیا اور باہر کھڑے ملازمین سے پوچھا کہ اندر میاں صاحب کے ساتھ کون صاحب بیٹھے ہیں انھوں نے میاں صاحب کا نام لیا۔ صوبائی وزارت کے لیے ہونے والی یہ گفتگو اس قدر بابرکت ثابت ہوئی کہ پھر اس گھر سے اقتدار باہر نہ نکلا اور آج میاں صاحب وزیراعظم ہیں۔ اگر وہ سازشی سیاستدانوں سے بچ گئے تو چوتھی بار بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں اور کیوں نہیں، میں نے جو لاتعداد سیاستدان اقتدار میں دیکھے ہیں میاں صاحبان اپنے مزاج کی بعض مجبوریوں کے باوجود سب سے بہتر ہیں۔

ان کی آنکھ میں جو شرم حیا ہے وہ شاید ہی کسی مقتدر سیاستدان میں موجود ہو۔ وہ ایک شریف انسان ہیں عام سیاستدانوں کے برعکس۔ ہمارے کئی سیاستدان سیاست کی وجہ سے خوشحال بنے ہیں۔ اس لیے ان کے اندر سے اپنی سابقہ غربت ختم نہیں ہوئی اور وہ سیاست میں بھی کنجوس رہتے ہیں جب کہ میاں صاحب نے سرمائے کے زور پر سیاست میں اپنا مقام بنایا ہے اور کسی وزیراعظم کی طرح زندگی بسر کی ہے۔ اقتدار آئے یا جائے میاں صاحب ایک مقتدر سیاستدان کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور جن دوستوں کا ان سے کام پڑا ہے وہ سب اس شخص کی خوش دلی کی گواہی دیتے ہیں۔

میاں صاحب چند دن کے لیے لندن گئے۔ انھی دنوں کئی دوسرے سیاستدان بھی لندن میں تھے اور سیاسی مذاکرات کر رہے تھے جو پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں لیکن انگریزوں کی سو ڈیڑھ سو برس کی غلامی ہمارے اندر سے نہیں نکلتی اور ہم ذرا ذرا سی بات کے لیے لندن بھاگ جاتے ہیں اور پھر جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا۔ اللہ تعالیٰ لندن کو سلامت رکھے کہ ہمارے سیاستدان وہاں جا کر دل کا بوجھ ہلکا کر سکیں اور تازہ دم ہو کر پاکستان لوٹ آئیں۔