منتخب کردہ کالم

وزیر اعظم کے یوٹرن میں قومی حکمت پوشیدہ ہے…کنور دلشاد

وزیر اعظم کے یوٹرن میں قومی حکمت پوشیدہ ہے…کنور دلشاد

وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل وزیر اعظم آفس میں کالم نویسوں سے ملاقات کی اور اہم ملکی امور اور حکومتی پالیسیوں پر آزادانہ طور پر تبادلہ خیال کیا۔ راقم الحروف کو بھی خصوصی طور پر اس تقریب میں مدعو کیا گیا تھا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے مجھ سے حکومت کے سو دنوں کی کار کردگی کے بارے میں رائے لی‘ تو میں نے ان کو بتایا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں لوکل گورنمنٹ کے نظام کو از سر نو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا ۔میں نے بتایا کہ بطور چیئرمین نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن میں ایک جامع رپورٹ وزیر اعظم آفس اور چاروں صوبائی حکومتوں کو بھجوا چکا ہوں‘ جس میں مقامی حکومتوں کے نظام میں ترامیم اور نئے سسٹم پر مبنی جامع سفارشات شامل ہیں۔ نیشنل ڈیمو کریٹک فائونڈیشن کی جانب سے101ممالک کی مقامی حکومتوں کے حوالے سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں مقامی حکومتوں کے نظام کا جائزہ لیتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے کہ ایشیائی ممالک میں انڈو نیشیا اور سنگا پور میں لوکل گورنمنٹ کا ماڈل مثالی ہے ۔ رپورٹ میں درج ہے کہ انتخابات کا فوری اعلان کرنے کی بجائے موجودہ سسٹم کو تبدیل کیا جائے اور عوامی دلچسپی اور مفادات کے پیش نظر اس نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں۔مقامی حکومتوں کا دورانیہ تین سال کیا جائے ‘تاکہ آئندہ سال کے آخر میں نئے انتخابات کی تیاریاں شروع ہو سکیں ۔ لوکل گورنمنٹ کے بارے میں عمومی رویے میں تبدیلی لائی جائے‘ جبکہ ضروری ہے کہ آئین میں بھی اس نظام کے تحفظ کے لئے ترامیم کی جائیں۔رپورٹ میں واضح کیا گیاہے کہ موجودہ لوکل گورنمنٹ کو ابھی دو سال پورے نہیں ہوئے اور ان کے چلانے والوں کا تعلق اپوزیشن سے ہے‘ انہیں برخاست کرنے سے سیاسی احتجاج کا نیاسلسلہ شرو ع ہو سکتا ہے ۔ رپورٹ میں وزیراعظم کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کے لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے بیانیے کی وجہ سے بحران مزید گہرا ہو گیا ہے ۔ مقامی حکومتیں جو پہلے سے مشکلات کا شکار تھیں ‘اب نئی کیفیت میں مبتلا ہیں‘ اور حالات مزید خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے انڈونیشیا کے بارے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا تو میں نے ان کو بتایا کہ 2018ء کے انتخابات تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے، اب پارلیمانی کمیشن کی رپورٹ کے بعد حالات کا صحیح رخ بھی سامنے آ جائے گا۔
ملاقات کے دوران ایک کالم نویس نے وزیر اعظم عمران خان سے بے ساختگی سے کہا کہ یوٹرن لینے سے عوام میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے اور مخالفین یوٹرن کی وجہ سے منفی رویے کا اظہار کر رہے ہیں ۔اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ یوٹرن نہ لینے والابیوقوف ہے ،ہٹلر اور نپو لین نے یوٹرن نہ لے کر شکست کھائی ۔یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے عدالت میں یو ٹرن نہیں لیا بلکہ جھوٹ بولاہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے یوٹرن کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ‘اسے میڈیانے منفی انداز سے رپورٹ کیا ہے ۔ یوٹرن کو جب بھی سیاست ‘ حکومت اور سفارت کاری کے حوالے سے زیر بحث لایا جائے تو یہ دیکھناہوتاہے کہ سفر کی سمت یکسر تبدیل کرنے سے ملکی مفاد ات توزد میں نہیں آ رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں صدر ایوب خان ،جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق،نواز شریف ، بے نظیر بھٹو ،جنرل پرویز مشرف ، آصف علی زر داری ‘ہر ایک نے اپنے اپنے مفادات میں اہم پالیسیوں اور معاہدات کے بر عکس یوٹرن لئے۔جنرل یحییٰ خان کے یو ٹرن سے مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا ، کیونکہ انہوں نے فروری 1971ء میں ڈھاکہ سے واپسی پر سرکاری اعلامیہ جاری کر کے شیخ مجیب الرحمان کو ملک کا وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا تھا‘لیکن بعد ازاں ذو الفقار علی بھٹو کی دعوت پر جب لاڑکانہ شکار کھیلنے گئے تو سکھر کے ایئر پورٹ پر اپنے اعلان سے منحرف ہوگئے اور ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا ۔تین مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں یوٹرن لے کر انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی ۔
پاکستان کی سیاست میں یوٹرن کا جو عمومی منفی تاثر ہمارے سیاست دانوں نے بنا دیاہے ‘اس کے برعکس ترقی یافتہ جمہوریتوں میںیوٹرن ایک نا گزیر سیاسی و حکومتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے ‘ مگر منفی نہیں بلکہ مثبت۔ سیاسی‘ پالیسی اورحکومتی مفادات کے پیش نظریوٹرن کی تشریح عقل ،دلائل اور منطق کے ساتھ ایسی سفارتی زبان میںکی جانی چاہیے کہ عوام الناس کی سطح پر اس کو با آسانی ذہنی قبولیت حاصل ہو اوراس تبدیل شدہ سیاسی یا حکومتی پوزیشن کا فیصلہ رائے عامہ کی تشکیل میں مدد فراہم کر ے تو حکمت عملی کے طور پر ‘منطق اور دلائل کی بنیاد پر یو ٹرن نا گزیر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ مگر ایسا گڈ گورننس میں ہی ہوسکتا ہے اور عمران خان کی کچن کابینہ میں ایسے دانشوروں کا فقدان ہے ‘جن کا قوم کی نبض پر ہاتھ ہو۔ ان کے وزر ا روایتی سمت میں دوڑ رہے ہیں اور ان کا عوام سے تعلق اب برائے نام رہ گیاہے ۔اپوزیشن اس خلا کو بڑی سوجھ بوجھ سے پورا کرتی نظر آ رہی ہے ۔ ابھی حال ہی میں پنجاب کی سینیٹ کی دو نشستوں میں اپوزیشن کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آئی اور حکومتی ارکان کی تعداد میں نمایاں کمی کو سب نے محسوس کیا ‘ کیونکہ پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوچکی ہے۔ اس کے نتائج کیاہوں گے؟ اس پر چند روز میں کچھ انکشافات کر سکوں گا۔ بہر حال وزیر اعظم عمران خان تک یہی پیغام پہنچانا تھا کہ یو ٹرن اچھے مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا اور اس کا بار بار اختیار کرنا حادثے کا سبب بن سکتا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے جنرل باجوہ کے ہمراہ دبئی کا دورہ کیا اور اب وزیراعظم ملائیشیا کے دورے پر ہیں ۔ معاشی محاذ پر حکومت نے اپنی سمت کا واضح اشارہ دے دیا ہے ۔صورتحال سے ظاہر ہے کہ معیشت مجبو ر اً قرض سے چلانا پڑے گی ۔بیورو کریسی اور حکومت کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ بیورو کریسی کے رویے کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران ایک صحافی نے جرأت مندانہ انداز میں کہہ دیاتھا کہ ان کے ایک مشیر اور بیورو کریٹ برہمن کا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کے ساتھ شودر جیسا سلوک کر رہے ہیں، اس کا جواب دینے کے بجائے عمران خان نے اپنے سیکر ٹری اعظم خان کی طرف دیکھ کر مسکرانے پر ہی اکتفا کیا ۔
جمہوری ملکوں میں کاروبارِ مملکت چلانے میں پارلیمنٹ کلیدی اہمیت کی حامل ہے ،کیونکہ آئین کی تشکیل اور اس میں حسب ضرورت ترامیم اور اصلاح پارلیمنٹ کا کام ہے‘ جس کی بنا پر ریاست کے تمام اداروں پر اسے با لادستی حاصل ہوتی ہے ۔مگرعوام پارلیمنٹ کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھاتے ہیں ‘ کیونکہ عوام کو پارلیمنٹ کے ذریعے گڈ گورننس کی امید اب نہیں رہی۔ چند برسوں سے ہمارے منتخب ایوانوں میں شائستہ جمہوری رویوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے اور موجودہ پارلیمنٹ میں کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف قومی احتساب بیورو میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ نفرت اور اشتعال کی سیاست‘ تفریق بڑھانے اور تباہی لانے کے سوا کسی اور منزل تک نہیں پہنچا سکتی ۔قومی احتساب بیورو ، ایف آئی اے ‘سپریم کورٹ اور بینکنگ عدالتوں میں جن جن قد آور شخصیات کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں‘ ان کے منطقی نتائج آنے کے بعد طوفان کی لہریں پارلیمنٹ سے ٹکراسکتی ہیں ۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان 29نومبر کو اپنی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر اپنے ارد گرد کے ساتھیوں کی کار گزاری پر فیصلہ کن قدم اٹھائیں‘ کیونکہ اپوزیشن حلقوں کی طرف سے جو طوفان اٹھ رہاہے اس سے قومی مؤقف لینے کے آ ثار پیدا ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان جو یوٹرن لینے کے بارے میں پر امید ہیں ‘اس کی پشت پر یہی فلاسفی کام کر رہی ہے کہ ملک میں ایک بڑا یو ٹرن لینے کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں ۔ اس کے اثرات مارچ 2019ء میں نمایاں طور پر نظر آئیں گے‘ جب پنجاب حکومت میں سیاسی دنگل کا بگل بجنے والا ہوگا۔