منتخب کردہ کالم

وہ وزیراعظم ہیں ‘وزیر پرچار نہیں…ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک

’’مبینہ مقابلے‘‘

…وہ وزیراعظم ہیں ‘وزیر پرچار نہیں…ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک

بیرونی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو ہمارے وزیراعظم گجرات کیوں لے جاتے ہیں؟وہ ہر کسی غیر ملکی لیڈر کو نہیں لے جاتے ۔گزشتہ ساڑھے تین برس میں درجنوں غیر ملکی صدور اور وزرائے اعظم بھارت آئے ہیں لیکن احمدآباد جانے کی خوش قسمتی ابھی تک صرف تین غیر ملکی لیڈروں کو ملی ہے ۔چین کے صدر شی جن فنگ‘ جاپان کے شنزوآبے اور اب اسرائیل کے بنجمن نیتن یاہو ۔آپ یہ مان کر چلیے کہ اگر امریکہ کے صدر بھارت آگئے تو انہیں بھی گجرات جانا ہی پڑے گا ‘کیوں کہ ہمارے وزیراعظم اور ٹرمپ کی جگل بندی کافی مشہور ہو چکی ہے ۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جواہرلعل نہرو سے من موہن سنگھ تک کوئی ایسا وزیر اعظم بھی ہوا ہے ‘ جو غیر ملکی لیڈروں کو اپنے گھر کے صوبہ میں لے گیا ہو ۔کیا خرشچوف اور بل گانن کو نہرو کبھی الٰہ آباد یالکھنؤلے گئے ؟کیا اندرا گاندھی فیڈرل کاسترو کو بنارس یا ہری دوار لے گئیں ؟کیا نرسمہا رائو نیپالی بادشاہ کو حیدرآباد یا پامل پتی لے گئے ؟کیا اٹل بہاری واجپائی افغان صدر حامدکرزئی کو کبھی بھوپال یا گوالیار لے گئے ؟ان مہمانوں کو وہاں لے جانے کے معنی ہیں ‘کروڑوں روپیہ کی بربادی؟اس سے بھی قیمتی چیز ہے ‘ وقت ۔ان غیر ملکی لیڈروں کو گجرات لے جاکر ہمارے عالم وزیراعظم کیا دکھانا چاہتے ہیں ؟انہوں نے وہاں کون ساکرشماتی کام کر دکھایا ہے ؟اگر دکھایا ہوتا تو گجرات کے چنائو ں میں یہ خراب حالت کیوں ہوتی ؟گجرات میں اگر وزیراعلیٰ کے طور پر مودی نے اگر کچھ حیرت انگیزکام کیا ہے تو ہم بھارتیوں کی خواہش کیوں نہیں ہوتی کہ ہم وہاں جائیں ‘انہیں دیکھیں اور اپنی بولی اور قلم سے کروڑوں لوگوں کو انہیں بتائیں ؟آج گجرات بھارت کے سبھی صوبوں کے لیے مثال کیوں نہیں بن جاتا ؟
بیرونی مہمانوں کو احمدآباد کا گاندھی آشرم دکھانے لائق ہے ‘کیوں کہ گاندھی تو عالمی لیڈر ہیں لیکن آرایس ایس کے کارکن کیا مودی کی اس چالاکی پر ہنستے نہیں ہوں گے ؟ مودی کا چرخہ چلانا دیکھ کر کسے ہنسی نہیں آتی ہوگی ؟اس میں شک نہیں کہ اس طرح کی نوٹنکیوں سے پرچار خوب ملتا ہے لیکن اپنی عمر کے اس آخری دور میں مودی یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بھارت کے وزیراعظم ہیں ‘وزیر پرچار نہیں ۔
دلی میں چناوی دنگل اب ضروری
عام آدمی پارٹی کتنی بھی صفائی پیش کرے ‘کتنے بھی مثال دے ‘یہ تو طے ہے کہ بیسوں ایم ایل ایز کی ممبر شپ ختم ہوکر ہی رہے گی ۔الیکشن کمیشن نے تو اپنا فیصلہ دے ہی دیا ہے ‘ہائی کورٹ اور صدر کا فیصلہ بھی جلد آجائے گا ۔یہ تینوں بھی اگر عاپ کے بیس ایم ایل ایز کو پارلیمنٹ سیکرٹری بنانے کے فیصلے کو ٹھیک کہہ دیں تو کیا وہ ٹھیک ہو جائے گا ؟ملک کے لگ بھگ آدھا درجن صوبوں میں پارلیمنٹ سیکرٹریوں کی تعیناتی پر عدالتی دنگل چل رہا ہے ۔ان تعیناتی کا جوبھی حوالہ دیا جائے ‘ان کے مسترد ہونے پر سرکار کی شان بگڑتی ہے ۔جب دلی میں بیس ایم ایل ایز کو پارلیمنٹ سیکرٹری بنایا گیا ‘میں تب ہی سوچ رہا تھا کہ دلی کی اس ایک چھوٹی سی سرکار کو چلانے کے لیے اتنے دبے ڈھکے وزراکو پچھواڑے سے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ کل 65 – 70ایم ایل ایز کی ودھان سبھا میں پچیس تیس وزراء یا مملکتی وزرا کی ضرورت کیوں ہے؟پگھار کے سبب ہی ان کے عہدے کو ‘فائدہ کا عہدہ ‘کہا جاتا ہے ؟ان لیڈروں کے لیے پگھار کی کیا قیمت ہے ؟جتنی پگھار انہیں ہر ماہ مل سکتی تھی ‘اتنی تو وہ روز دبوچ لیتے ہیں ۔پہلے وہ ووٹ کماتے ہیں ‘پھر نوٹ کماتے ہیں ۔انہیں سرکاری دفتر ‘ سرکاری گاڑیاں ‘سرکاری بنگلے ‘بھتے تو ملتے ہی ہوں گے ۔ان سب سچائیوں کی صفائی الیکشن کمیشن نے مانگی تھی لیکن یہ وزیر نما ایم ایل اے اس کے آگے گئے ہی نہیں ۔الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونا ان کی شان میں گستاخی ہوتی ۔اب وہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ان کی کہانی سنے بنا ہی انہیں سزادے دی ہے ۔2015 ء میں سلیکٹ ان پارلیمنٹ سیکرٹریوں کو ہائی کورٹ نے 2016 ء میں اس لیے نامنظور کردیا تھا کہ نائب گورنر نے ان کی تعیناتی پر مہر نہیں لگائی تھی ۔اس لیے اب جبکہ گھوڑا ستنبل میں ہے ہی نہیں تو دروازے بند کرنے کی کیا تُک ہے ؟ظاہر ہے کہ یہ تعیناتیاں ایم ایل ایز کو فائدہ پہنچانے کی نظر سے اتنی نہیں تھیں ‘جتنا عام آدمی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کو تھیں ۔جو بھی ہو ‘اب اروند کجری وال کو چنائو کی تیاری کرنی چاہیے اور اس کے بیس میں سے دس امیدوار جیت گئے تو یہ گجرات میں مودی کی کامیابی سے بڑی کامیابی ہوگی ۔اگر عدالت انہیں بچا بھی لے تو وہ مستعفی ہو جائیں اور چنائو لڑیں ۔دیکھیں پھر کیا ہوتا ہے ؟
پدماوت کی مخالفت ضرور کریں لیکن
پدماوت فلم کے بارے میں سنسر بورڈ اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعدساری بحث ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن پھر بھی میں یہ مانتا ہوں کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرنا چاہے تو ضرور کرے ۔یہ بھی آدمی کی خودمختاری کادوسرا پہلو ہے ۔ساری دنیا خداکے وجود کو مانتی ہے لیکن اگر کچھ لوگ اسے نہیں مانتے ہیں تو نہ مانیں۔ انہیں مکمل آزادی ہے ۔لیکن کسی بھی بات کو نہ ماننے والے کے پاس کچھ دلائل تو ہونے چاہئیں ۔ کرنی سینا پدماوت کی مخالفت کر رہی ہے لیکن کیوں کر رہی ہے ‘یہ اسے پتا ہی نہیں ہے ۔کرنی سیناکے کسی بھی ذمہ دار لیڈر نے اس فلم کو دیکھا کیا؟فلم کو دیکھے بنا اس کی مخالفت کرنا کہاں تک مناسب ہے ۔میں فلم ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی سے کہوں گا کہ 25 جنوری کو یہ فلم وہ صرف کرنی سینا اور اس کے دوستوں کو ہی دکھائے۔ فلم دیکھنے کے بعد وہ بھنسالی کے مرید بن جائیں گے ۔فلم کو دیکھے بنا ہی کہنا کہ فلم دکھائی گئی تو سینکڑوں راجپوت خواتین خودکشی کر لیں گی ۔ایسی بات سننا ہی مجھے سزائے موت لگتی ہے ۔ایسا سوچنا بھی اپنی بہنوں کے ساتھ بڑی ناانصافی کرنی ہے۔ جہاں تک سنیما گھروں کو آگ لگانے کے بات ہے ‘ سپریم کورٹ نے کو صوبائی سرکاروں کو حکم صادر کیا ہے ‘ اس کی فرماںبرداری انہیں کرنی ہی ہے ۔صوبائی سرکاروں نے فلم پر بین لگانے کا جو فیصلہ کیا تھا ‘وہ عوام کا احترام کرنے کی نظر سے کیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نکالا تھا کہ یہ سرکاریں اپنے سنسر بورڈ پر ہی بھروسہ نہیں کرتیں ۔کچھ فلمی لوگوں نے اسے سرکاروں کابزدلانہ رویہ بھی کہا تھا لیکن ان صوبائی سرکاروں سے میں گزارش کروں گا کہ بائیکاٹ کرنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بہتر ڈھنگ سے ہونا چاہیے اور بائیکاٹ کرنے والوں سے میں عرض کروں گا کہ وہ مخالفت کرنا چاہیں تو ضرور کریں لیکن تشدد اور لاقانونیت نہ پھیلائیں ۔ راجپوت خاندانوں میں جیسی شان وشوکت ہمیشہ دکھتی ہے اس کو برقراررکھنا بھی ضروری ہے ۔
بیرونی مہمانوں کو احمدآباد کا گاندھی آشرم دکھانے لائق ہے ‘کیوں کہ گاندھی تو عالمی لیڈر ہیں لیکن آرایس ایس کے کارکن کیا مودی کی اس چالاکی پر ہنستے نہیں ہوں گے ؟مودی کا چرخہ چلانا دیکھ کر کسے ہنسی نہیں آتی ہوگی ؟اس میں شک نہیں کہ اس طرح کی نوٹنکیوں سے پرچار خوب ملتا ہے لیکن اپنی عمر کے اس آخری دور میں مودی یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ بھارت کے وزیراعظم ہیں ‘وزیر پرچار نہیں ۔